وجود

... loading ...

وجود

دادا کی برسی پر پوتے کی طرف سے بات چیت کی دعوت

اتوار 06 ستمبر 2015 دادا کی برسی پر پوتے کی طرف سے بات چیت کی دعوت

akbar-bugti

کوئٹہ اور بلوچستان کے بلوچ اضلاع میں 26 ؍اگست2015ء کو نواب محمد اکبر خان بگٹی کی نوویں برسی منائی گئی۔ شہر کوئٹہ میں کہیں کہیں دُکانیں بند نظر آئیں۔ البتہ بعض بلوچ اضلاع میں کاروبار احتجاجاً بند رکھے گئے تھے۔ یہ دن تعزیتی ریفرنسوں میں گزرا۔ احتجاج کی شدت گزشتہ سالوں کی نسبت کم رہی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو نواب محمد اکبر خان بگٹی کی ہلاکت کے سانحہ سے مزید سرو کار یا ملال نہیں رہا ۔ بلاشبہ26؍اگست2006ء کا دن بلوچستان اور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا اور یہ المناک سانحہ خصوصاً بلوچوں کی تاریخ میں الگ اور نمایاں باب بن چکا ہے۔

دن تمام ہوا تو پاکستان کے برقیاتی ذرائع ابلاغ نے اُسی شام برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے براہمداغ بگٹی کے انٹرویو کو نمایاں طور پر نشر کرنا شروع کردیا۔ دادا (نواب بگٹی) کی برسی کے دن پوتے (براہمداغ بگٹی) نے حکومت اور عسکری قیادت کو گویا کھلم کھلا بات چیت کی دعوت دے دی ۔ براہمداغ بگٹی کی مذاکرات کے لئے آمادگی خلاف توقع ہر گز نہیں ہے ، بلکہ اُنہیں ان پورے برسوں میں سرے سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔ کسی نے عقل و خرد سے کام نہیں لیا ۔کچھ تو ان جلا وطن رہنماؤں سے مذاکرات کی رٹ لگا کر دروغ گوئی پر گزارا کررہے تھے اورکچھ طاقت کے زعم میں مبتلا تھے۔ راقم نے متعدد مرتبہ توجہ دلائی کی براہمداغ قومی دھارے میں شامل ہونے کو تیار ہے اگر کوئی ان کی طرف سنجیدگی سے قدم بڑھائے۔ آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور میں تقریباً پانچ کمیٹیاں بنیں۔ کوئی بھی کمیٹی کوئٹہ اور اسلام آباد سے آگے پیشرفت نہ کرسکی ۔دراصل قومی سطح پر ویژن اور احساسِ ذمہ داری کا فقدان ہے اورملک و قوم کے مفاد کو مقدم نہیں سمجھا جاتا۔ وگرنہ براہمداغ بگٹی یا دوسرے رہنماؤں سے ملاقاتیں کوئی مشکل کام نہ تھا ۔ میاں نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومتوں میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔ خود ڈاکٹر عبدالمالک صاحب اقرار کرتے ہیں کہ سوائے خان آف قلات کے ان کا کسی سے رابطہ نہیں ہوا۔ اب نواب براہمداغ بگٹی نے چونکہ بات چیت کے ’’در‘‘ کھول دیئے ہیں لہٰذا اب ا س جانب قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ جس سے کسی فریق کا نقصان نہ ہو اور براہمداغ کی اس لچک سے فائدہ بھی اُٹھا یا جاسکے۔ اس موقع کو غنیمت سمجھنا چاہیے وگرنہ بلوچ سرزمین پر مزاحمت کی تاریخ سینکڑوں برسوں پر محیط ہے۔

بلوچستان کے اندر علیحدگی پسندوں کو بھارت کی ہر طرح کی کمک حاصل ہے ۔لیکن ہماری کوتاہیاں بھی اپنی جگہ بہت سنگین نتائج کی حامل ہیں

براہمداغ بگٹی نے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ بلوچستان کے معاملے پرپاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ایک لحاظ سے شکست ہوئی ہے اور انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کا طریقہ غلط تھا اور پرامن بات چیت کیلئے آنا ہوگا۔ اگر ہمارے دوست ، ساتھی ، سیاسی حلیف اور عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے تو ہم بالکل پاکستان کے ساتھ رہنے کو تیار ہیں۔ تمام معاملات سیاسی اور پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر حکومتی نمائندے ہم سے ملنا چاہتے ہیں تو ہم اس کیلئے تیار ہیں کیونکہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور مسائل کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔ یہ تو بہت بے وقوفی کی بات ہوگی کہ کوئی کہے کہ ہم بیٹھ کر مسائل حل کرنا چاہتے ہیں اور ہم کہیں کہ نہیں۔ ماضی میں رابطے تو ہوئے لیکن کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں رحمان ملک وغیرہ نے بات چیت کی تھی تو اس پر جب زرداری صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ان لوگوں سے ضرور ملیں لیکن فوج اور اسٹیبلشمنٹ آپ سے بات کرنا نہیں چاہتی۔ مذاکرات کیلئے ماحول سازگار ہونا ضروری ہے ۔ اگر قتل و غارت جاری ہو تو ایسے میں مذاکرات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اسی لئے ہمارا کہنا ہے کہ آپریشن بند کیا جائے۔ تمام فورسز کو واپس بلایا جائے تو اس کے بعد ہی بات چیت کیلئے ماحول سازگار ہوسکتا ہے اور یہ فیصلہ طاقتور کو کرنا ہے کہ وہ ہمیں کیا دینے کو تیار ہیں اگر وہ آتے ہیں تو ہم انہیں وہی ایجنڈا پیش کریں گے جو ہماری اکثریت کو منظور ہوگا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن دس پندرہ برس گزرچکے ہیں ان برسوں میں کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ بات صرف اخبارات اور حکومتی اجلاسوں تک محدود رہتی۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرے کیونکہ طاقتور وہی ہیں۔ آرمی والے ہر مسئلے کو طاقت سے حل کرنا چاہتے ہیں جو کہ غلط ہے اور بلوچستان میں حالات خراب بھی انہوں نے کئے تھے اور اسے صحیح بھی وہیں کریں گے۔ ہمارے پاس نہ طاقت ہے اور نہ اتنی بڑی فوج کہ ہم ان کا مقابلہ کرسکیں۔ اس خون خرابے اور طاقت کے استعمال سے کچھ نہیں ہوگا۔ بلوچستان میں جو بھی ترقی ہو وہاں عوامی حکومت ہے ہی نہیں۔ ترقی کے ان فیصلوں میں بلوچ عوام کی مرضی شامل نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان کے صوبے میں کیا ہورہا ہے؟ اگر بھارت ہماری مدد کرتا ہے تو ہم اس سے انکار نہیں کریں گے کیونکہ اپنے دفاع کیلئے ہر کوئی مدد مانگتا ہے اور ہم اسی طرح اقوام متحدہ اور امریکہ سے بھی مدد مانگ سکتے ہیں کیونکہ بھارت نے تو بلوچستان میں آپریشن کیلئے نہیں کہا تھا ۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی ناکامیاں ہیں کہ وہ اپنے کرتوت چھپانے کیلئے غیر ملکی مداخلت کے الزامات لگاتی ہیں۔ ‘‘ براہمداغ کی اس گفتگو کو ان کی مات یا اپنی فکر اور طرز عمل سے دستبرداری سمجھنا نہیں چاہیے ، بلکہ براہمداغ نے اپنے اس انٹرویو میں ان تمام باتوں کا اعادہ کیا ہے جو وہ ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ طاقتور ان کے وسائل پر قابض ہیں اور بلوچ سیاسی جماعتیں بھی یہی سمجھتی ہیں ۔ آج اگر نیشنل پارٹی حکومت میں شریک ہیں تو کل یہی نیشنل پارٹی براہمداغ کے ساتھ ملکر حقوق کا مطالبہ کرے گی۔ بہر حال بلوچستان کے اندر علیحدگی پسندوں کو بھارت کی ہر طرح کی کمک حاصل ہے ۔لیکن ہماری کوتاہیاں بھی اپنی جگہ بہت سنگین نتائج کی حامل ٹھہری ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ جب زخم ناسور بن جاتا ہے، تب علاج پر توجہ دینا شروع کرتی ہے ۔ انہیں تو بلوچستان کی تاریخ تک سے آگاہی نہیں اور نہ ہی وہ یہاں کے قبائل کے مزاج اور طبیعت سے واقفیت رکھتے ہیں۔ سوئی ملٹری کالج کی افتتاحی تقریب میں راقم نے ایک ذمہ دار سرکاری شخص کو تجویز دی کہ کیوں نہ براہمداغ بگٹی سے بات چیت کی جائے اور انہیں ڈیرہ بگٹی لایا جائے تو اس افسر کا جواب دو ٹوک تھا کہ ’’براہمداغ بگٹی کو یہاں کبھی آنے نہیں دیا جائے گا۔‘‘جبکہ بگٹی خاندان نے اس سے قبل پاکستان سے علیحدگی کی کبھی بھی بات نہیں کی ہے ۔ اور براہمداغ کو ان حالات میں پس منظر میں چلے جانے کے سوا کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دیا۔

سوئی ملٹری کالج کی افتتاحی تقریب میں ایک ذمہ دار سرکاری شخص سے کہا گیا کہ کیوں نہ براہمداغ بگٹی سے بات چیت کر کے انہیں ڈیرہ بگٹی لایا جائے تو اس افسر کا جواب دو ٹوک تھا کہ ’’براہمداغ بگٹی کو یہاں کبھی آنے نہیں دیا جائے گا‘‘

نواب بگٹی ،براہمداغ کو مستقبل کا ایک قابل اور بہترین سیاستدان اور قبائلی منتظم دیکھنا چاہتے تھے۔ انہی خطوط پر ان کی تربیت بھی کی گئی تھی ۔ نواب بگٹی نے 31؍ جنوری 1973ء کو ’’لندن پلان ‘‘ افشاء کیا۔یہ مبینہ منصوبہ پاکستان سے علیحدگی کا تھا۔ جس میں ’’نیپ ‘‘ کے اکابرین کے نام لئے گئے تھے اورجسے غیر ملکی اعانت سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جانا تھا۔ نواب اکبر خان بگٹی 1947ء کے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں ۔ کوئٹہ آمد پر محمد علی جناح کا استقبال کیا۔ 1950ء کی دہائی میں وزیراعظم فیروز خان نون کی کابینہ میں ڈپٹی وزیر تھے اور 1958 کے مارشل لاء کے نفاذ تک دفاع اور داخلہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے ۔ 1973 ء میں بلوچستان کے گورنر تھے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ گورنر کی تعیناتی میں کس کس کی مرضی و منشا درکار ہوتی ہے۔اُنہیں 1978ء میں وزیراعلیٰ بلوچستان کا منصب ملا تھا۔ نواب بگٹی بہر حال ایسے وفاق کے قائل تھے جس میں صوبے خود مختار ہوں اور آئین صوبوں کے وسائل و حقوق کے تحفظ کا ضامن ہو۔ پرویزی آمریت زور آزمائی کا فیصلہ کرچکی تھی اور نواب بگٹی سے بھی چند غلطیاں سرزد ہوئیں ۔ ڈاکٹر شازیہ کے واقعہ پر نواب حد سے زیادہ مشتعل ہوئے۔ ان کا غصہ اور احتجاج بجا تھا مگر جنگ تک نوبت نہیں لانی چاہئے تھی۔ البتہ نواب بگٹی پر غداری کا لیبل چسپاں کرنے والے دراصل خود غاصب اور گمراہ لوگ تھے جنہیں آئین اور دستور کی بات تک گوارا نہیں تھی ۔

بلوچستان سے متعلق 2004 میں پارلیمانی کمیٹی بنی۔ اس مناسبت سے نواب نے ’’Bugti Dossier‘‘ کے نام سے بلوچستان کا مؤقف ایک مختصر کتابچے کی شکل میں پیش کیا۔ یہ کتابچہ پڑھنے سے کوئی ایک لفظ بھی بغاوت یا سرکشی کا تاثر نہیں ملتا البتہ صوبائی خود مختاری پر بجا طور پر زور پایا جاتا ہے۔ اس میں آئین اور قانون کے راستے سے حقوق کے حصول کا اعادہ کیا گیا ہے کہ1973ء کے آئین میں ایسی ترامیم کی جائے جس سے صوبوں کے سیاسی ، انتظامی اور مالی اختیارات میں اس حد تک اضافہ ہو کہ ان کے عوام مطمئن ہوسکے۔ بگٹی ڈوسیئرمیں کہا گیا کہ موجودہ آئین میں سیاسی اور آئینی بحران ختم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور اس وقت فیڈریشن اور صوبوں کے مابین جو ناچاقی ، کشیدگی یا تنازع ہے اس کی بنیادی وجہ فیڈریشن کی غیر منطقی اور غیر متوازن ہیئت ہے اس لئے پاکستان کا استحکام ، تنازعات کا مستقل حل اور عوام کی خوشحالی اس میں ہے کہ 1973ء کے آئین میں دی گئی خود مختاری میں اضافہ کیا جائے۔ نواب بگٹی نے اس کتابچے میں گوادر میں مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کی بات کی ہے یعنی گوادر میں دیگر صوبوں سے کاروبار یا رہائش کیلئے آنے والوں کو 10سال تک مقامی سرٹیفکیٹ ، پی آر سرٹیفکیٹ جاری نہ کئے جائیں۔ ووٹر لسٹوں میں ان کے نام کا اندراج نہ ہو کیونکہ اس طرح غیر مقامی انتخابات میں منتخب ہوکر آجائیں گے اور مقامی لوگ نمائندگی کے حق سے محروم ہوجائیں گے۔ علاوہ ازیں پنجاب کو بلوچستان کے وسیع قدرتی وسائل کی اشد ضرورت ہے جس کیلئے ایسے مقامات پر نئی فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے جہاں یہ وسائل بڑے پیمانے پر موجود ہیں ( یاد رہے کہ سوئی چھاؤنی کو ملٹری کالج میں تبدیل کیا جاچکا ہے ) مثال کے طور پر مری ایریا میں تیل اور یورینئم کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور وہاں چھاؤنی تعمیر کی جارہی ہے۔ ڈیرہ بگٹی کے مختلف مقامات میں سے 1953ء سے گیس نکالی جارہی ہے لیکن اس کی آمدنی سے بلوچستان محروم ہے اور پھر ڈیرہ بگٹی میں گیس کے ذخائر ختم ہونے کا پروپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ نئے سروے کے مطابق مزید ذخائر موجود ہیں ۔یہاں چھاؤنی کے قیام کا فیصلہ مرکز کے لوٹ مار پر عوام کو احتجاج سے روکنا ہے۔ بگٹی ڈوسیر میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ گوادر اور گوادر سے 40میل دور جیوانی کے مقام پر چھاؤنیوں کی تعمیر کا منصوبہ بھی اسی مقصد کے تحت بنایا گیا ہے۔ فیڈریشن کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام یونٹوں کو برابر کی حیثیت حاصل ہوگی ۔ مقامی باشندوں کے وسائل پر حقِ ملکیت کو بطور ان کی میراث تسلیم نہیں کیا جاتا تو احتجاج کو روکا نہیں جاسکتا۔ اگر اس کتابچے کو مزید بھی پڑھا جائے تو اس میں قومی شناخت اور حقِ ملکیت پر اصرار کے الفاظ ملیں گے۔ بلوچ سیاسی قائدین اور جماعتوں نے براہمداغ بگٹی کے اس انٹرویو پر مثبت رد عمل کا اظہار کیا ہے البتہ علیحدگی پسند تنظیموں نے ناپسندیدگی ظاہر کی ہے ۔بلوچ لبریشن فرنٹ نے مذاکرات پر اس مبینہ آمادگی کو مایوس کن قرار دیا ہے اور براہمداغ کی اس بات کو قومی آزادی کی تحریک سے انحراف اور تھکاوٹ سے تعبیر کیا۔ بی ایل ایف نے قومی آزادی کے حق سے دستبرداری کیلئے مشورے کی بات کو بھی مضحکہ خیز قرار دیااور براہمداغ کے سامنے سوال رکھا ہے کہ

’’کیا قومی آزادی کی جدوجہد شروع کرنے سے پہلے انہوں نے ریفرنڈم کرایا تھا یا دیگر ذرائع سے بلوچ عوام کے ساتھ مشورہ کیا تھا؟حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ رہنما جو اپنے خاندان سمیت وطن میں موجود ہیں ،جہاں ہر لمحہ ان کی جانوں کو خطرہ رہتا ہے وہ مایوس نہیں ہیں بلکہ مایوسی کا اظہار وہ رہنماکررہے ہیں جو اپنے خاندان سمیت وطن میں لگی آگ کی تپش سے بہت دور یعنی بیرونِ ملک محفوظ فضا میں بلا خوف و خطر زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘

بی ایل ایف کے ترجمان نے براہمداغ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ مایوسی کو قریب بھٹکنے نہ دیں اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کریں کہ جس سے بلوچ قومی تحریک آزادی کو نقصان پہنچے، وگرنہ بلوچ قوم اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔‘‘ مزے کی بات یہ ہے کہ علیحدگی پسند جماعتوں کے اس ردِ عمل کے باوجود قومی حلقوں کی بااثر قوتیں تاحال اس پر کوئی عملی قدم نہیں اُٹھا رہیں۔


متعلقہ خبریں


قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان وجود - بدھ 20 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر