... loading ...
کوئٹہ اور بلوچستان کے بلوچ اضلاع میں 26 ؍اگست2015ء کو نواب محمد اکبر خان بگٹی کی نوویں برسی منائی گئی۔ شہر کوئٹہ میں کہیں کہیں دُکانیں بند نظر آئیں۔ البتہ بعض بلوچ اضلاع میں کاروبار احتجاجاً بند رکھے گئے تھے۔ یہ دن تعزیتی ریفرنسوں میں گزرا۔ احتجاج کی شدت گزشتہ سالوں کی نسبت کم رہی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو نواب محمد اکبر خان بگٹی کی ہلاکت کے سانحہ سے مزید سرو کار یا ملال نہیں رہا ۔ بلاشبہ26؍اگست2006ء کا دن بلوچستان اور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا اور یہ المناک سانحہ خصوصاً بلوچوں کی تاریخ میں الگ اور نمایاں باب بن چکا ہے۔
دن تمام ہوا تو پاکستان کے برقیاتی ذرائع ابلاغ نے اُسی شام برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے براہمداغ بگٹی کے انٹرویو کو نمایاں طور پر نشر کرنا شروع کردیا۔ دادا (نواب بگٹی) کی برسی کے دن پوتے (براہمداغ بگٹی) نے حکومت اور عسکری قیادت کو گویا کھلم کھلا بات چیت کی دعوت دے دی ۔ براہمداغ بگٹی کی مذاکرات کے لئے آمادگی خلاف توقع ہر گز نہیں ہے ، بلکہ اُنہیں ان پورے برسوں میں سرے سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔ کسی نے عقل و خرد سے کام نہیں لیا ۔کچھ تو ان جلا وطن رہنماؤں سے مذاکرات کی رٹ لگا کر دروغ گوئی پر گزارا کررہے تھے اورکچھ طاقت کے زعم میں مبتلا تھے۔ راقم نے متعدد مرتبہ توجہ دلائی کی براہمداغ قومی دھارے میں شامل ہونے کو تیار ہے اگر کوئی ان کی طرف سنجیدگی سے قدم بڑھائے۔ آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور میں تقریباً پانچ کمیٹیاں بنیں۔ کوئی بھی کمیٹی کوئٹہ اور اسلام آباد سے آگے پیشرفت نہ کرسکی ۔دراصل قومی سطح پر ویژن اور احساسِ ذمہ داری کا فقدان ہے اورملک و قوم کے مفاد کو مقدم نہیں سمجھا جاتا۔ وگرنہ براہمداغ بگٹی یا دوسرے رہنماؤں سے ملاقاتیں کوئی مشکل کام نہ تھا ۔ میاں نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومتوں میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔ خود ڈاکٹر عبدالمالک صاحب اقرار کرتے ہیں کہ سوائے خان آف قلات کے ان کا کسی سے رابطہ نہیں ہوا۔ اب نواب براہمداغ بگٹی نے چونکہ بات چیت کے ’’در‘‘ کھول دیئے ہیں لہٰذا اب ا س جانب قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ جس سے کسی فریق کا نقصان نہ ہو اور براہمداغ کی اس لچک سے فائدہ بھی اُٹھا یا جاسکے۔ اس موقع کو غنیمت سمجھنا چاہیے وگرنہ بلوچ سرزمین پر مزاحمت کی تاریخ سینکڑوں برسوں پر محیط ہے۔
براہمداغ بگٹی نے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ بلوچستان کے معاملے پرپاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ایک لحاظ سے شکست ہوئی ہے اور انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کا طریقہ غلط تھا اور پرامن بات چیت کیلئے آنا ہوگا۔ اگر ہمارے دوست ، ساتھی ، سیاسی حلیف اور عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے تو ہم بالکل پاکستان کے ساتھ رہنے کو تیار ہیں۔ تمام معاملات سیاسی اور پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر حکومتی نمائندے ہم سے ملنا چاہتے ہیں تو ہم اس کیلئے تیار ہیں کیونکہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور مسائل کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔ یہ تو بہت بے وقوفی کی بات ہوگی کہ کوئی کہے کہ ہم بیٹھ کر مسائل حل کرنا چاہتے ہیں اور ہم کہیں کہ نہیں۔ ماضی میں رابطے تو ہوئے لیکن کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں رحمان ملک وغیرہ نے بات چیت کی تھی تو اس پر جب زرداری صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ان لوگوں سے ضرور ملیں لیکن فوج اور اسٹیبلشمنٹ آپ سے بات کرنا نہیں چاہتی۔ مذاکرات کیلئے ماحول سازگار ہونا ضروری ہے ۔ اگر قتل و غارت جاری ہو تو ایسے میں مذاکرات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اسی لئے ہمارا کہنا ہے کہ آپریشن بند کیا جائے۔ تمام فورسز کو واپس بلایا جائے تو اس کے بعد ہی بات چیت کیلئے ماحول سازگار ہوسکتا ہے اور یہ فیصلہ طاقتور کو کرنا ہے کہ وہ ہمیں کیا دینے کو تیار ہیں اگر وہ آتے ہیں تو ہم انہیں وہی ایجنڈا پیش کریں گے جو ہماری اکثریت کو منظور ہوگا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن دس پندرہ برس گزرچکے ہیں ان برسوں میں کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ بات صرف اخبارات اور حکومتی اجلاسوں تک محدود رہتی۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرے کیونکہ طاقتور وہی ہیں۔ آرمی والے ہر مسئلے کو طاقت سے حل کرنا چاہتے ہیں جو کہ غلط ہے اور بلوچستان میں حالات خراب بھی انہوں نے کئے تھے اور اسے صحیح بھی وہیں کریں گے۔ ہمارے پاس نہ طاقت ہے اور نہ اتنی بڑی فوج کہ ہم ان کا مقابلہ کرسکیں۔ اس خون خرابے اور طاقت کے استعمال سے کچھ نہیں ہوگا۔ بلوچستان میں جو بھی ترقی ہو وہاں عوامی حکومت ہے ہی نہیں۔ ترقی کے ان فیصلوں میں بلوچ عوام کی مرضی شامل نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان کے صوبے میں کیا ہورہا ہے؟ اگر بھارت ہماری مدد کرتا ہے تو ہم اس سے انکار نہیں کریں گے کیونکہ اپنے دفاع کیلئے ہر کوئی مدد مانگتا ہے اور ہم اسی طرح اقوام متحدہ اور امریکہ سے بھی مدد مانگ سکتے ہیں کیونکہ بھارت نے تو بلوچستان میں آپریشن کیلئے نہیں کہا تھا ۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی ناکامیاں ہیں کہ وہ اپنے کرتوت چھپانے کیلئے غیر ملکی مداخلت کے الزامات لگاتی ہیں۔ ‘‘ براہمداغ کی اس گفتگو کو ان کی مات یا اپنی فکر اور طرز عمل سے دستبرداری سمجھنا نہیں چاہیے ، بلکہ براہمداغ نے اپنے اس انٹرویو میں ان تمام باتوں کا اعادہ کیا ہے جو وہ ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ طاقتور ان کے وسائل پر قابض ہیں اور بلوچ سیاسی جماعتیں بھی یہی سمجھتی ہیں ۔ آج اگر نیشنل پارٹی حکومت میں شریک ہیں تو کل یہی نیشنل پارٹی براہمداغ کے ساتھ ملکر حقوق کا مطالبہ کرے گی۔ بہر حال بلوچستان کے اندر علیحدگی پسندوں کو بھارت کی ہر طرح کی کمک حاصل ہے ۔لیکن ہماری کوتاہیاں بھی اپنی جگہ بہت سنگین نتائج کی حامل ٹھہری ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ جب زخم ناسور بن جاتا ہے، تب علاج پر توجہ دینا شروع کرتی ہے ۔ انہیں تو بلوچستان کی تاریخ تک سے آگاہی نہیں اور نہ ہی وہ یہاں کے قبائل کے مزاج اور طبیعت سے واقفیت رکھتے ہیں۔ سوئی ملٹری کالج کی افتتاحی تقریب میں راقم نے ایک ذمہ دار سرکاری شخص کو تجویز دی کہ کیوں نہ براہمداغ بگٹی سے بات چیت کی جائے اور انہیں ڈیرہ بگٹی لایا جائے تو اس افسر کا جواب دو ٹوک تھا کہ ’’براہمداغ بگٹی کو یہاں کبھی آنے نہیں دیا جائے گا۔‘‘جبکہ بگٹی خاندان نے اس سے قبل پاکستان سے علیحدگی کی کبھی بھی بات نہیں کی ہے ۔ اور براہمداغ کو ان حالات میں پس منظر میں چلے جانے کے سوا کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دیا۔
نواب بگٹی ،براہمداغ کو مستقبل کا ایک قابل اور بہترین سیاستدان اور قبائلی منتظم دیکھنا چاہتے تھے۔ انہی خطوط پر ان کی تربیت بھی کی گئی تھی ۔ نواب بگٹی نے 31؍ جنوری 1973ء کو ’’لندن پلان ‘‘ افشاء کیا۔یہ مبینہ منصوبہ پاکستان سے علیحدگی کا تھا۔ جس میں ’’نیپ ‘‘ کے اکابرین کے نام لئے گئے تھے اورجسے غیر ملکی اعانت سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جانا تھا۔ نواب اکبر خان بگٹی 1947ء کے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں ۔ کوئٹہ آمد پر محمد علی جناح کا استقبال کیا۔ 1950ء کی دہائی میں وزیراعظم فیروز خان نون کی کابینہ میں ڈپٹی وزیر تھے اور 1958 کے مارشل لاء کے نفاذ تک دفاع اور داخلہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے ۔ 1973 ء میں بلوچستان کے گورنر تھے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ گورنر کی تعیناتی میں کس کس کی مرضی و منشا درکار ہوتی ہے۔اُنہیں 1978ء میں وزیراعلیٰ بلوچستان کا منصب ملا تھا۔ نواب بگٹی بہر حال ایسے وفاق کے قائل تھے جس میں صوبے خود مختار ہوں اور آئین صوبوں کے وسائل و حقوق کے تحفظ کا ضامن ہو۔ پرویزی آمریت زور آزمائی کا فیصلہ کرچکی تھی اور نواب بگٹی سے بھی چند غلطیاں سرزد ہوئیں ۔ ڈاکٹر شازیہ کے واقعہ پر نواب حد سے زیادہ مشتعل ہوئے۔ ان کا غصہ اور احتجاج بجا تھا مگر جنگ تک نوبت نہیں لانی چاہئے تھی۔ البتہ نواب بگٹی پر غداری کا لیبل چسپاں کرنے والے دراصل خود غاصب اور گمراہ لوگ تھے جنہیں آئین اور دستور کی بات تک گوارا نہیں تھی ۔
بلوچستان سے متعلق 2004 میں پارلیمانی کمیٹی بنی۔ اس مناسبت سے نواب نے ’’Bugti Dossier‘‘ کے نام سے بلوچستان کا مؤقف ایک مختصر کتابچے کی شکل میں پیش کیا۔ یہ کتابچہ پڑھنے سے کوئی ایک لفظ بھی بغاوت یا سرکشی کا تاثر نہیں ملتا البتہ صوبائی خود مختاری پر بجا طور پر زور پایا جاتا ہے۔ اس میں آئین اور قانون کے راستے سے حقوق کے حصول کا اعادہ کیا گیا ہے کہ1973ء کے آئین میں ایسی ترامیم کی جائے جس سے صوبوں کے سیاسی ، انتظامی اور مالی اختیارات میں اس حد تک اضافہ ہو کہ ان کے عوام مطمئن ہوسکے۔ بگٹی ڈوسیئرمیں کہا گیا کہ موجودہ آئین میں سیاسی اور آئینی بحران ختم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور اس وقت فیڈریشن اور صوبوں کے مابین جو ناچاقی ، کشیدگی یا تنازع ہے اس کی بنیادی وجہ فیڈریشن کی غیر منطقی اور غیر متوازن ہیئت ہے اس لئے پاکستان کا استحکام ، تنازعات کا مستقل حل اور عوام کی خوشحالی اس میں ہے کہ 1973ء کے آئین میں دی گئی خود مختاری میں اضافہ کیا جائے۔ نواب بگٹی نے اس کتابچے میں گوادر میں مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کی بات کی ہے یعنی گوادر میں دیگر صوبوں سے کاروبار یا رہائش کیلئے آنے والوں کو 10سال تک مقامی سرٹیفکیٹ ، پی آر سرٹیفکیٹ جاری نہ کئے جائیں۔ ووٹر لسٹوں میں ان کے نام کا اندراج نہ ہو کیونکہ اس طرح غیر مقامی انتخابات میں منتخب ہوکر آجائیں گے اور مقامی لوگ نمائندگی کے حق سے محروم ہوجائیں گے۔ علاوہ ازیں پنجاب کو بلوچستان کے وسیع قدرتی وسائل کی اشد ضرورت ہے جس کیلئے ایسے مقامات پر نئی فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے جہاں یہ وسائل بڑے پیمانے پر موجود ہیں ( یاد رہے کہ سوئی چھاؤنی کو ملٹری کالج میں تبدیل کیا جاچکا ہے ) مثال کے طور پر مری ایریا میں تیل اور یورینئم کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور وہاں چھاؤنی تعمیر کی جارہی ہے۔ ڈیرہ بگٹی کے مختلف مقامات میں سے 1953ء سے گیس نکالی جارہی ہے لیکن اس کی آمدنی سے بلوچستان محروم ہے اور پھر ڈیرہ بگٹی میں گیس کے ذخائر ختم ہونے کا پروپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ نئے سروے کے مطابق مزید ذخائر موجود ہیں ۔یہاں چھاؤنی کے قیام کا فیصلہ مرکز کے لوٹ مار پر عوام کو احتجاج سے روکنا ہے۔ بگٹی ڈوسیر میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ گوادر اور گوادر سے 40میل دور جیوانی کے مقام پر چھاؤنیوں کی تعمیر کا منصوبہ بھی اسی مقصد کے تحت بنایا گیا ہے۔ فیڈریشن کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام یونٹوں کو برابر کی حیثیت حاصل ہوگی ۔ مقامی باشندوں کے وسائل پر حقِ ملکیت کو بطور ان کی میراث تسلیم نہیں کیا جاتا تو احتجاج کو روکا نہیں جاسکتا۔ اگر اس کتابچے کو مزید بھی پڑھا جائے تو اس میں قومی شناخت اور حقِ ملکیت پر اصرار کے الفاظ ملیں گے۔ بلوچ سیاسی قائدین اور جماعتوں نے براہمداغ بگٹی کے اس انٹرویو پر مثبت رد عمل کا اظہار کیا ہے البتہ علیحدگی پسند تنظیموں نے ناپسندیدگی ظاہر کی ہے ۔بلوچ لبریشن فرنٹ نے مذاکرات پر اس مبینہ آمادگی کو مایوس کن قرار دیا ہے اور براہمداغ کی اس بات کو قومی آزادی کی تحریک سے انحراف اور تھکاوٹ سے تعبیر کیا۔ بی ایل ایف نے قومی آزادی کے حق سے دستبرداری کیلئے مشورے کی بات کو بھی مضحکہ خیز قرار دیااور براہمداغ کے سامنے سوال رکھا ہے کہ
’’کیا قومی آزادی کی جدوجہد شروع کرنے سے پہلے انہوں نے ریفرنڈم کرایا تھا یا دیگر ذرائع سے بلوچ عوام کے ساتھ مشورہ کیا تھا؟حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ رہنما جو اپنے خاندان سمیت وطن میں موجود ہیں ،جہاں ہر لمحہ ان کی جانوں کو خطرہ رہتا ہے وہ مایوس نہیں ہیں بلکہ مایوسی کا اظہار وہ رہنماکررہے ہیں جو اپنے خاندان سمیت وطن میں لگی آگ کی تپش سے بہت دور یعنی بیرونِ ملک محفوظ فضا میں بلا خوف و خطر زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘
بی ایل ایف کے ترجمان نے براہمداغ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ مایوسی کو قریب بھٹکنے نہ دیں اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کریں کہ جس سے بلوچ قومی تحریک آزادی کو نقصان پہنچے، وگرنہ بلوچ قوم اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔‘‘ مزے کی بات یہ ہے کہ علیحدگی پسند جماعتوں کے اس ردِ عمل کے باوجود قومی حلقوں کی بااثر قوتیں تاحال اس پر کوئی عملی قدم نہیں اُٹھا رہیں۔
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...
ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...