... loading ...
’’یہ آل انڈیا ریڈیو ہے۔علاقہ نمبر ایک میں، ایک دو دنوں میں دو جگہوں پر سخت بارش ہو گی‘‘
یہ ۵؍ ستمبر ۱۹۶۵ء کا دن تھا ۔ شام کے ساڑھے چار بجے تھے۔آل انڈیا ریڈیو نے اپنے معمول کا پروگرام روک کر یہ اعلان دو مرتبہ دُہرایا۔معمول کا پروگرام پھر رواں ہوا۔ اچانک ایک مرتبہ پھر ایک پراسرار اعلان کرنے کے لئے پروگرام روک دیا گیا:
’’علاقہ نمبر ایک کے لئے آج کوئی وارننگ نہیں۔‘‘
ایک روز قبل بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے اعلان کیا تھا کہ
’’حکومت دفاع سے متعلق اپنا منصوبہ سامنے لانا نہیں چاہتی۔‘‘
لال بہادر شاستری جواہر العل نہرو کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر ۹؍ جون ۱۹۶۴ء کو فائز ہوئے تھے۔ ایک برس اور ۲۱۶ دنوں یعنی ۱۱؍جنوری ۱۹۶۶ء تک اس منصب پر متمکن رہے۔ اُن سے قبل جوا ہر لعل نہرو ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء سے لے کر ۲۷؍ مئی ۱۹۶۴ء تک کُل سولہ برس اور ۲۸۶ دنوں تک وزیر اعظم رہے۔ اُن کے بعد شاستری سے پہلے صرف تیرہ دنوں تک قائم مقام وزیراعظم کے طور پر گلزاری لال نندا وزیراعظم رہے ۔ پاک بھارت جنگ کے دوران میں شاستری ہی بھارت کے وزیر اعظم تھے۔ جب کہ اُن دنوں بھارت کے وزیر دفاع یشونت راؤ چاون تھے۔ وہ اس منصب پر ۱۹۶۲ ء سے ۱۹۶۶ء تک فائز رہے۔وہ ۶؍ ستمبر کو آغازِجنگ سے پہلے ہی یہ اعلان کر چکے تھے کہ
’’ہماری افواج دلیری سے لڑ رہی ہے اور ہم نے مناسب کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘
یہ بیان دراصل کشمیر کے تناظر میں آیا تھا جہاں پاکستانی اور بھارتی افواج ایک دوسرے کے مقابل تھیں۔ اس لڑائی کا ایک پس ِمنظر تھا۔ بھارتی فوج نے مارچ ۱۹۶۵ء میں خان راج کوٹ کے مقام پر مغربی پاکستان رینجرز کو اپنے حفاظتی فرائض ادا کرنے سے روک دیا اور اپنی افواج کو رن آف کچھ میں تعینات کردیا۔جس پر پاکستانی فوج کو یہ حکم ملا کہ وہ دشمن کو یہاں سے کھڈیریں۔برگیڈئیر افتخار تب کچھ کے مشرقی علاقے میں تعینات تھے۔جہاں بھارت نے بنکرز بنا کراُسے خارد ار تاروں سے محفوظ بنا لیا تھا۔دوسری پنجاب رجمنٹ کے لیفٹننٹ نادر پرویز نے ایک بھارتی چوکی پر حملہ کرکے اُسے تباہ کردیا۔ بعد ازاں پنجاب رجمنٹ کی ایک بٹالین نے بھارتی فوج کے مقامات پر دھاوا بولا اور اُن سے بنکرز خالی کرا دیئے۔اس موقع پر لیفٹننٹ شرما اور تین بھارتی فوجیوں کو قیدی بنا لیا گیا۔لڑائی کے دوران برگیڈیئر افتخار ایک شیل کے ٹکڑے لگنے سے معمولی زخمی بھی ہوئے۔اس کامیاب کارروائی کے نتیجے میں بھارتی فوج سے پانچ سے چھ میل تک کا علاقہ خالی کرا لیا گیا۔بھارت کا دعویٰ تھا کہ رن آف کچھ کا تمام علاقہ اُن کے زیرِ ملکیت ہے، بالکل غلط دعویٰ تھا۔
رن آف کچھ کی اس لڑائی میں کامیابی نے قومی اعتماد میں اضافہ کیا۔ اور پاکستان کے عسکری منصوبہ سازوں کو کچھ یقین سا ہوگیا کہ بھارتی فوج کا حوصلہ پست ہوگیا ہے۔اس سے قبل بھارت ۱۹۶۲ء میں چین کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوچکا تھا۔ پاکستان نے بھارت کی چین سے جنگ کے دوران کوئی فائدہ اُٹھانے سے گریز کیا ۔ حالانکہ تب پاکستان کے موقع بھی تھا اور چین کی طرف سے بھی کچھ اس نوع کے اشارے تھے مگر بھارت نے بالواسطہ طور پر پاکستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ اس جنگ سے فائدہ اُٹھانے سے گریز کرے تو بعد ازجنگ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی طرف پیش قدمی جائے گی۔ پاکستان کو ۱۹۶۵ء میں یہ لگ رہا تھا کہ اُس کے ساتھ بھارت نے ایک بار پھر دھوکا کیا ہے اور رن آف کچھ کے معرکے کے بعد پاکستان کو یہ یقین ہونے لگا تھا کہ اب کشمیر کو آزاد کرانے کا وقت آپہنچا ہے۔ چنانچہ اگست ۱۹۶۵ ء میں’’ آپریشن جبرالٹر‘‘کا آغاز ہو گیا۔جس کے تحت بھارتی فوج کے خلاف گوریلا کارروائیوں کا آغاز ہوا۔مگر یہ آپریشن بوجوہ کامیاب نہیں ہو سکا۔دوسری طرف بھارت نے آزاد کشمیر پر حملہ کردیا۔اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پاک فوج کو یکم ستمبر کو’’آپریشن گرینڈ سلام‘‘ کا آغاز کرنا پڑا۔جس کا مقصد بھارتی سرحدی شہر ’’اکھنور‘‘ پر قبضہ کرنا تھا۔ تاکہ آزاد کشمیر پر حملہ آور بھارتی فوج کی ’’سپلائی لائن‘‘ کٹ جائے۔
اس موقع پر پاک فوج کے فیصلہ سازوں کی جانب سے ایک اچانک فیصلہ جنگی اہداف کے لئے نہایت غیر موزوں ثابت ہوا۔حملے کے دوسرے روز ہی اچانک کمانڈر جنرل اختر حسین ملک کو محاذِ جنگ سے واپس بلا لیا گیا۔عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایک نہایت مضرت رساں فیصلہ تھا اگر ایسا فیصلہ اس وقت نہ کیا جاتا تو آج کشمیر کی تاریخ مختلف ہوتی۔پاک فوج کے عسکری منصوبہ سازوں کے تب وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ بھارت بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی بھی کر سکتا ہے۔ چناچہ اکھنور پر حملے کے جواب میں بھارتی فوج نے ۶؍ستمبر کی صبح لاہور پر حملہ کر دیا۔یوں کشمیر میں جاری لڑائی ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہوگئی۔
یوم دفاع و شہدا کے موقع پر مزار قائد و اقبال پر گارڈز تبدیلی کی پر وقار تقاریب منعقد کی گئیں۔ پاکستان ائیر فورس کے چاق وچوبند دستے نے مزار قائد پر اعزازی گارڈز کے فرائض سنبھال لیے۔ تبدیلی گارڈز کی تقریب میں پاک فضائیہ کے 60 مرد اور 5 خواتین کیڈٹس شامل تھیں۔ تقریب کے مہمان خصوصی ا...
وطنِ عزیز کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا اور جانوں کی پرواہ نہ کرنے والے غازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ملک بھر میں یومِ دفاع بھر پور ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے، مسلح افواج کے غازیوں اور شہدا کو قوم کا سلام اور خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ ی...
پاکستان پہلے مضبوط تھا اور اب ناقابل تسخیر ہے۔ پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے غیر روایتی جنگ کا شکار تھا تاہم قوم اور فوج نے اس کا بھر پور دفاع کیا۔ ان خیالات کااظہار پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں یوم دفاع کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اُ...
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی "اچانک" پاکستان کے دورے پر پہنچ گئے ہیں۔ وہ لاہور آمد کے بعد وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں۔ یہ تاریخ کے ان چند مواقع میں سے ایک ہوگا جب کوئی بھارتی وزیر اعظم پاکستان کے دورے پر آیا ہو۔ 68 سالہ تاریخ میں صرف تین بھارتی وز...
ریحام ،عمران طلاق کی بحث میں ایک نئے خط تفریق و تمیز کھینچنے کا معاملہ کھڑا ہوا کہ عوامی شخصیت یا عرف عام میں پبلک فگر کی نجی زندگی اور عوامی زندگی یعنی پبلک لائف اور پرائیویٹ لائف کی حدود کون ، کب اور کیسے متعین کرے بالخصوص ایسے خواتین و حضرات جو اپنی مقبولیت کی ہر سانس کابہی کھ...
بروس ریڈل نے اپنی تازہ کتاب میں سابق امریکی صدر جان ایف کینڈی (1961 تا 1963)کے سرد جنگ کے زمانے کے زیادہ خطرناک دور کے ایک فراموش شدہ بحران کی اندرونی کہانی پیش کی ہے ۔ بروس ریڈل کی کتاب"JFK's Forgotten Crisis" دراصل چین اور بھارت کے درمیان اُس جنگ کا اندرونی احوال بتاتی ہے ج...
مملکتِ خداداد پاکستان میں وارد ہونے والے ہرمارشل لاء نے جہاں اس معاشرے کے اخلاقی و معاشرتی خدو خال کو مسخ کیا وہاں ہر آمریت جاتے ہوئے اس معاشرے کے معاشی و اقتصادی پہلووں کو بھی کچھ یوں نیست و نابود کر گئی کہ ملکی حالات اس کے بعد آنے والی کسی بھی حکومت کے قابو میں نہیں آئے اور بعد...
آسیب ایک خوبصورت لفظ ، بھیانک اثر کے ساتھ اپنے اندر پر اسراریت کا انبا ر سمیٹے ہوئے ہمارے ذہن پر اثر اندازہوتا ہے۔کبھی آسیب خوابوں میں آکر ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ اورکبھی کبھی حقیقت کو بھیانک بنا دیتے ہیں۔ یکسانیت موت سے مماثلت رکھتی ہے۔ اور مجھے اس سے نفرت ہے۔اسی لئے ہر جگہ تبد...
انسانوں کے درمیان جنگوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ جنگ کی نوعیت اور طریقۂ کار ، جنگی حکمت عملی اور چالوں میں مسلسل تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ زمانۂ قدیم میں جنگوں کانتیجہ ایک فریق کا دوسرے کی زمین پرقبضہ اور وہاں کے باشندوں کی غلامی کی صورت میں ن...
لہو کے آخری قطرے تک مادرِوطن کے دفاع کے جذبے سے سرشار قوم کی گرمجوشی دیدنی ہے ۔ 2015کا یہ ستمبر 1965کے ستمبرسے زیادہ مختلف نہیں ۔ تب بھی قوم کی امیدوں کا محورمسلح افواج تھیں اور آج بھی ایسی ہی صورتحال ہے ۔’’اے وطن کے سجیلے جوانوں‘‘ گانے کیلئے اب ملکۂ ترنم بقید ِحیات تو نہیں مگر ج...
جنگِ ستمبر کے سب سے پہلے شہید فوجی لانس نائیک محمد شریف تھے اور آخری شہید فوجی کیپٹن برجیس ناگی تھے۔ سب سے پہلی شہید خاتون کا نام عابدہ طوسی تھا۔ جو ایک بس پر بمباری کے دوران شہید ہوئیں۔ جنگ ستمبر میں پاکستان کے تقریباً 1033 شہری شہید ہوئے۔جبکہ بھارت کے تقریباً دس ہزار افراد ...
بھارت نے بغیر کسی اعلانِ جنگ کے 6 ستمبر1965ء کو رات کی تاریکی میں صبح تین بجے کے قریب حملہ کر دیا۔ یہ حملہ جسٹر (سیالکوٹ)، واہگہ اور بیدیاں کی سمت سے کیا گیا۔بھارتی قیادت کو اندازا ہی نہیں تھا کہ اُنہیں کس قدر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ اپنے بنیادی منصوبوں اور اندازو...