... loading ...
پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لوگوں کی اکثریت ڈرون کی اصطلاح اور استعمال سے واقف ہے۔ فوجی مقاصد کے لئے ایجاد ہونے والا یہ آلہ اب محض دفاعی کاروائیوں میں استعمال نہیں ہوتا ۔ نہ ہی اس کی پرواز اب میدان جنگ تک محدود رہی ہے۔ ہر ٹیکنالوجی کی طرح ڈرون نے بھی ارتقاء کی کئی منازل طے کی ہیں اور اب یہ محض ایک انسان دشمن مشین نہیں۔ دیکھیں اس کی اڑان کہاں تک جاتی ہے۔
۱۹۳۰ء کی دہائی سے ہی ڈرون یا Unmanned Aerial Vehicle یعنی بغیر پائلٹ طیارے کا فوجی استعمال شروع ہو چکا تھا ، جب برطانوی دفاعی ادارے نے اس کو نشانہ بازی کی مشق کے لئے آزمانا شروع کیا.
اس ایجادکی حرکات و سکنات کے پیش نظر اس کا نام شہد کی مکھی پر Queen Bee رکھا گیا۔ جب امریکی محققوں نے اس طرز کا طیارہ وضع کیا تو اسی Bee کے تعلق سے اس کا نام ڈرون یعنے نر مکھی رکھا گیا۔ اور یہ نام یوں بھی ثبت ہو گیا کہ ڈرون کی طرح اسے بھی کسی مادر طیارے یا زمینی اسٹیشن سے تعلق رکھناضروری ہے۔ فوجی استعمال سے بڑھ کر ڈرون اب کئی شعبہ جات میں استعمال ہونے لگا ہے اور دنیا بھر میں اس کے نت نئے استعمالات پر غور کیا جا رہا ہے۔
ویسے بھی فوجی ڈرون، چاہے جاسوسی کے لئے استعمال ہو رہے ہوں یا جارحیت کے لئے، کیمروں سے لیس ہوتے ہیں اسی لئے ان کا عکاسی میں استعمال ہونا کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔ ڈرون عکاسی کی تیزی سے مقبول ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈرون کے ذریعے طائرانہ عکاسی اس کے متبادل ہیلی کاپٹر کے استعمال کے مقابلے میں کئی سو گنا سستی پڑتی ہے۔ ڈرون کے ذریعے فضائی عکاسی اب کچھ انوکھا کام نہیں رہا۔ مقصد جائیداد کی تشہیر ہو یا کسی مشکل مقام کی تصویر کشی، کسی جائے آرکیالوجی کا تحقیقی مشن ہو یا کسی کھیل کے مقابلے کا فضائی منظر محفوظ کرنا، طائرانہ منظر کشی کا ایک سستا حل اب ڈرون کی صورت میں موجود ہے۔ شائد جلد ہی ہم کرکٹ ، فٹبال جیسے مقبول کھیلوں کے مقابلوں کے دوران ڈرون پرواز کرتے دیکھیں جو لمحہ بلمحہ بدلتے مناظر اور مقابلے کی سنسنی کو نت نئے زاویوں سے فلم بند کریں اور مشکل پہاڑوں اور دور دراز صحراوٗں میں مناظر قدرت کو محفوظ کررہے ہوں ۔
ریموٹ کنٹرول چھوٹے طیارے اڑانا کئی لوگوں کا مشغلہ ہے لیکن ایک نیا رجحان ان اڑن آلات کو کیمروں سے آراستہ کر کے فضائی تصاویر اتارنا ہے۔ انسٹاگرام کی طرز پر ڈرونسٹاگرام ایک ایسی ویب سائٹ ہے جہاں پر صرف ڈرون کیمروں سے کھینچی گئی تصاو یر دنیا بھر سے لوگ ارسال کرتے ہیں۔ یہ خارج از امکان نہیں کہ کچھ مدت میں ڈرون کیمرے عام ہو جائیں اور مستقبل کی سیلفی، ڈرونی کہلائے۔
ایک دعوے کے مطابق ۲۰۱۵ء ڈرون صحافت کا سال ہوگا۔ پاکستا ن چونکہ اس معاملے میں قطعی پیچھے نہیں اسی لئے ہم گذشتہ سال(۲۰۱۴) ہی اسلام آباد کے دھرنوں میں ان ریموٹ کنٹرول طیاروں کو کوریج کرتے دیکھ چکے ہیں۔ اب تقریبا ہر بڑا چینل ڈرون کیمروں سے لیس ہے اور ہماری نجی زندگی پر نشانہ تانے ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب کیمرا، او بی گاڑی اور دیگر ضروری آلات کی طرح ڈرون بھی ہر پاکستانی نیوز روم کو میسر ہو گا۔ ڈرون ، صحافت اور براہ راست رپورٹنگ میں نئی جہات متعارف کروارہے ہیں اور خاص طور پر جنگ زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کی مشکلات اور وہاں موجود صحافیوں کو درپیش خطرات میں کسی حد تک کمی لا سکیں گے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں ڈرون کا قریبا ً ۸۰ فیصد استعمال زراعت اور اس سے متعلقہ شعبوں میں ہوگا۔
ڈرون کے ذریعے دور دراز زرعی علاقوں پر صرف ضرورت کے مطابق کھاد تقسیم کی جا سکے گی اور فصلوں کا معائنہ کر کے بر وقت ادویات کا چھڑکاؤ بھی ہو سکے گا۔ ڈرون گلہ بانی کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں اور پھل چننے کے لئے بھی۔ شائد مصنوعی بارشوں کے لئے خصوصی طیاروں کی جگہ بھی ڈرون لے لیں۔ دیکھنا یہ کہ ہمارا زرعی ملک اور اس کے کاشتکار کیسے اس بدلتے رجحان کو انگیز کرتے ہیں، اور اس جدید (اور انسان دوست) مشین کا کس حد تک استعمال کرتے ہیں۔
آپ کا پسندیدہ پیزا ہو یا کتاب ، تازہ اخبار ہو یا ویب اسٹور سے خریدا ہوا جوتا، اشیاء خرید کی تیز تر ترسیل ہر صارف کی خواہش ہوتی ہے ۔ جی ہاں اب ڈرون صارفین کے دروازے تک خریدی گئی اشیاء جلد از جلد پہنچانے میں معاون ہوں گے۔ یہ پیش رفت ان ممالک میں زیادہ دلچسپ ہو گی جہاں ڈلیوری کرنے والے کارکنان نسبتاً مہنگی اجرت پر کام کرتے ہیں۔ تنگ رستوں اور بیسیوں منازل اونچی عمارات میں گرم گرم پیزہ پہنچانا ڈرون کے لئے کچھ ایسا مشکل نہیں ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ کھانا آرڈر کرنے کے بعد آپ کو اپنی کھڑکھیاں کھلی رکھنے کی ہدایت ملے ، کہ ڈرون بس آیا ہے چاہتا ہے۔ یورپ کی ایک بڑی کوریئر کمپنی ڈرون کے ذریعے ایک جزیرے پر ضروری اشیاء پہنچانے کے لئے ڈرون کا استعمال کر چکی ہے۔ اور امیزون جیسا بڑا اسٹور بھی سامان کی ترسیل کے لئے ڈرون کے استعمال کا تجربہ کرچکا ہے۔
امن عامہ اور قانون کے نفاذ کے لئے بھی ڈرون کا استعمال مفید ہوگا اور کئی پولیس اداروں کے حوالے ڈرون کئے جائیں گے۔ پچھلے دنوں بھارت کے شہر لکھنؤ میں مشتعل ہجوم کو قابو میں کرنے کے لئے پولیس کے ایک منصوبے پر کام کرنے کی اطلاعات ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ڈرون کو مرچوں کا چھڑکاؤ کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جائے گا۔ یعنی ڈرون نے خطے کے حکمرانوں کو شہریوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے مرچیں ڈالنے کی ارتقائی منازل طے کرنے میں بھی مدد دی ہے۔
چند ماہ قبل یہ خبر بھی آئی کہ پاکستانی پولیس نے بھی ڈرون کا استعمال شروع کر دیا ہے اور سکھر کے اطراف میں کچے کے علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف کاروائی کے لئے ڈرون کام میں لائے گئے۔
ان کی آسان رسائی تیز رفتاری کے پیش نظر مختلف ممالک میں ٹریفک پر قابو پانے کے لئے بھی ان کا استعمال کیا جائے گا۔
یہ تو دیگ کے چند چاول ہیں، کئی شعبہ ہائے زندگی میں ڈرون ٹیکنالوجی کو کار آمد بنانے پر تحقیق ہو رہی ہے۔ جغرافیائی تحقیق ہو یا کسی امرکا فضائی سروے، ڈرون موسمی تغیرات کی تفتیش میں بھی استعمال ہوں گے۔ ڈرون کسی گرد باد کے تعاقب میں دور تک جا سکتا ہے، میلوں پھیلی ریل کی پٹری اور پلوں کی صحت کا معائنہ کر سکتا ہے اور جنگلوں میں لگی آگ بجھانے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔ ڈرون کے ذریعے بروقت جان بچانے والی ادویات کی ترسیل ممکن ہے، خاص طور پر ہمارے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں، یہ ہنگامی حالات میں انتہائی مدد گار ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ دنوں ایران کے طلبہ نے ڈرون کے ذریعے ڈوبتے ہووٗں کو بچانے کا مظاہرہ کیا اور دنیا کے کئی بڑے شہروں کے متعلقہ ادارے ان کے ذریعے آتش زدہ عمارات سے متاثرین کو بچانے اور آگ بجھانے کے لئے استعمال پر کوشاں ہیں۔
فلمی صنعت بھی شائد ڈرون کے استعمال میں زیادہ تاخیر نہ کرے اور مواصلات کے ادارے بھی اپنے سگنل پھیلانے کے لئے کچھ مصنوعی سیاروں اور مواصلاتی میناروں کے بجائے ڈرون پر بھروسہ کریں۔
ان ساری کاوشوں میں ایک اہم نکتہ علاقے یا ملک کے قوانین کا ڈرون سے متعلق ترقی میں مدد گار ہونا ضروری ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں اس حوالے سے قانون سازی اور اس کے مناسب ابلاغ کی ضرورت ہے۔ ہر جدید ٹیکنالوجی میں نجی شعبہ اس کی ترویج اور ارتقاء میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے فضائی حدود اور ڈرون سے متعلق قوانین ہمارے مخصوص حالات اور ترقی کی ضرورت میں توازن قائم کریں۔
جاری دہائی کے اختتام تک سمندروں میں ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے "ڈرون بحری جہازوں" کا دور دورہ ہوگا، جس پر عملے کا کوئی رکن نہ ہوگا۔ یہ بات ہوائی جہازوں کے انجن بنانے والے معروف ادارے رولس رائس نے کہی ہے جو بحری جہازوں کو زمینی اڈوں سے کنٹرول کرنے کے لیے درکار ٹیکنالوجی پر کام کر ر...
2006ء میں کالج کے چند طلبا نے ایک ادارہ بنا جو اب عام شہری استعمال کے ڈرون میں ایک عالمی رہنما بن چکا ہے۔ دا جیانگ انوویشنز (ڈی جے آئی) کی داستان بتاتی ہے کہ جدت طرازی سے وابستگی نئی دنیا میں آپ کو کس مقام تک پہنچا سکتی ہے۔ ادارے کے ابنی وانگ تاؤ کہتے ہیں کہ جب آپ جدید ٹیکنالوجی ...
یہ تصاویر دیکھیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ڈرون فوٹوگرافی اب بہت مقبول سرگرمی بن چکی ہے۔ ڈرون کے ذریعے تصویر کشی کے سوشل نیٹ ورک ڈرونسٹاگرام میں 2015ء کے دوران پیش ہونے والی یہ سب سے بہترین تصاویر ہیں۔ ویب سائٹ کے سی ای او ایرک ڈوپن کہتے ہیں کہ دنیا کو نئے زاویے سے دیکھنے ک...
دنیا بھر میں ڈرون کے ذریعے مشتبہ افراد کو مارنے کا امریکی منصوبہ نفرت، بدلے اور بنیاد پرستی کی آگ کو پھیلانے کے لیے کافی ایندھن فراہم کر چکا ہے اور اب بھی اس کے مزید بھڑکنے کا سبب سمجھا جا رہا ہے۔ اب ڈرون دنیا بھر میں دہشت گردی کو پھیلانے اور عدم استحکام پیداکرنے کے لیے مہلک ترین...
افغانستان، صومالیہ اور یمن میں مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لیے امریکی پروگرام کے بارے میں خفیہ دستاویزات منظرعام پر آ گئی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے ڈرون حملوں کے کہاں تک پھیلایا ہے۔ نامعلوم شخص کی جانب سے منظرعام پر لائی گئی یہ دستاویز آن لائن پبلی...
پاکستان کا تیار کردہ ڈرون’’ براق‘‘ کے ذریعے۷؍ستمبر بروز پیرکو افواجِ پاکستان نے پہلی کارروائی کی ہے جس میں تین دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ فوج کے تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے پیر کی صبح سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے مختصر پیغام...