... loading ...
گاہے خیال آتا ہے ! شرم اُنہیں نہیں، دراصل ہمیں آنی چاہئے۔ یہ ایسے ہی لوگ تھے۔ یہ ایسے ہی لوگ ہیں۔مگر بار بار عوام ان سے بے وقوف بنتے ہیں۔ امریکی کارکن ’’Randall Terry‘‘ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ
“Fool me once, shame on you. Fool me twice, shame on me.”
دراصل عوام پر پوری طرح یہ بات صادق آتی ہے جن کے انتخابی فیصلوں پر جمہوریت کی تقدیس کے گیت گائے جاتے ہیں۔اگر کوئی ڈاکٹر عاصم کو ذرا بھی جانتا ہے تو اس مملکت کے کسی بھی خود دار شہری کے لئے یہ باعث ننگ ہوگا کہ اُسے جمہوریت کے نام پرموصوف کا مقدمہ لڑنا پڑے۔ ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے۔ قائدِ حزبِ اختلاف کے پاس معلوم نہیں کون سے ہتھیار تھے ، جن کے بل بوتے پر وہ اعلانِ جنگ کرنے لگے۔ ابھی اُن کے الفاظ پر اُن کی نام نہاد ’’ شرمندگی‘‘ کا سفر شروع نہ ہواتھا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے پھلجڑی چھوڑی۔۔۔
’’کوئی ریاست ہے یا جنگل کا قانون، وزیراعظم سے کہہ دیا سندھ پر حملہ کیوں کیا؟‘‘
ان الفاظ کو بار بار پڑھا جائے تب بھی حیرت کم نہیں ہوتی۔ کیا یہ کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کے الفاظ ہو سکتے ہیں؟ان کے نزدیک ریاست کیا ہے اوریہ جنگل کا قانون کسے سمجھتے ہیں؟ڈاکٹر عاصم آخر کون ہیں؟ایک سفاک لٹیرا ،جس نے اسپتالوں کومنفعت کے حصول میں ننگ ِ انسانیت طریقے پر استعمال کیا ۔(واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے) نااہلوں کے ہاتھوں میں معالجوں کی سندیں تھمائیں۔ اور دنیا بھر میں علاج معالجے کے مقدس پیشے کو بدنام کیا۔ ایک معالج کے طور پر حاصل اختیارات کو اپنے پیشے سے وابستہ اخلاقیات کے ساتھ استعما ل کرنے کے بجائے اس نے اسے ’’زرداری‘‘ سے دوستی گانٹھنے اور اس کا قرب پانے کے لئے استعمال کیا۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ زرداری صاحب نے اپنے ایام اسیری میں جن طبّی وجوہات کو قانون سے کھیلنے کے لئے بار بار استعمال کیا وہ سب اِسی ڈاکٹر(؟) عاصم حسین کی وجہہ سے ممکن ہوتی رہیں۔تب زرداری صاحب کو اسپتال میں ’’خوش ‘‘ رکھنے کے لئے رات کو چور دروازے کھولے جاتے۔ اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی کہ سرِ شام کون آیا اور صبح دم کون گیا ہے؟تب کے اخبارات میں یہ خبریں چھپتی رہیں۔ مشرف کے تخلیق کردہ ’’این آراو‘‘ کے دھوبی گھاٹ سے سارے گندے اور بدبودار کپڑے پاک و مصفا بن کر اچانک سامنے آگئے۔ اور ریاست کا لباس بن گئے۔ اگر انہیں ایک ’’این آر او‘‘ کی ’’ڈھیل‘‘ بھی دے دی گئی تھی تو بھی اُنہیں حکومت کی ’’ڈیل ‘‘ دینا کہاں تک جائز تھا۔پیپلز پارٹی کی بات دوسری تھی مگر یہ لوگ ایک خاص پس منظر سے اُبھرے تھے۔ بدمعاشی اور بدکاری کا بھیانک پس منظر جو کسی بھی شریف او رنجیب معاشرے میں گوارا نہیں کیا جاسکتا۔ جمہوریت اور ووٹوں کا سوال تو بعدمیں پیدا ہوتا ہے۔ اس مرحلے سے پہلے شخصیات کو کم ازکم قانون و اخلاق کی ایک سطح پر تولا اور پرکھا جاتا ہے۔ یہ پورا ٹولہ اس پر کہیں سے بھی پورا نہیں اُترتا تھا۔ مگر یہ سب اس نظام نے برداشت کیا۔ تمدنی ادارے ہی نہیں عسکری اداروں نے بھی ان سے تال میل رکھی۔ افسوس کسی کوذرا بھی شرم نہیں آئی۔
ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے فوراً بعد کا ایک مکالمہ اب زیرِ گردش ہے۔ موصوف نے تفتیش کاروں کو فرمایا کہ اُن پر سختی کے کچھ خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کراچی اندھیرو ں میں مستقل ڈوب سکتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دماغ کس قسم کا ہے جس میں ہر نوع کی بدعنوانیاں کی جاتی ہیں اور اس پر کسی شرمندگی کے بجائے مملکت کو نقصان پہنچانے کی طاقت حاصل کر لی جاتی ہے۔ اور اس طاقت کو قانون اور ریاستی اداروں کو اپنے تابع مہمل بنانے یا حرکت میں آنے سے روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کیا یہ پوری ریاست ان چند لٹیروں سے بھی کمزور ہو گئی ہے؟ ایک پاکستانی کے طورپر کسی کے لئے تب اطمینان کی کیا بات رہ جائے گی اگر یہ لوگ قانون کو دھوکا دے کر باہر نکل آئیں اور سیاست وجمہوریت اُن کی مدد گارہو۔ خدارا کچھ تو شرم کرو!
ذرا ان لٹیروں کا طرزِ کلام تو ملاحظہ کیجئے! سابق صدر آصف علی زرداری نے فرمایا کہ ’’ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘‘پھر وضاحتیں کرتے پھرے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر خورشید شاہ نے کہا کہ مزید آگے بڑھے تو یہ اعلان ِجنگ ہوگا۔ پھر وہ بھی وضاحتیں کرنے لگے کہ اُن کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ بالکل غلط ! اُن کا بیان پورے سیاق وسباق میں درست پیش کیا گیا۔ مگر کسی نے اُنہیں ٹوکا نہیں حالانکہ ٹوکنا چاہئے۔ پھر آخر میں حضرت قائم علی شاہ بھی چپ نہ رہ سکے اور اُنہوں نے کراچی کے سمندر کوزہریلا کر دینے والا بیان دے دیا۔ ’’سندھ پر حملہ کیوں کیا؟‘‘ ۔ حد ہوگئی! زرداری کا ایک پسندیدہ ٹولہ ملک کے ہر ادارے کو لوٹتا رہا۔ یہ سندھ پر حملہ نہیں۔ پچھلے سات برسوں سے سندھ کے پورے کے پورے میزانئے ڈکار لئے ، یہ سندھ پر حملہ نہیں۔ ملک ریاض کے ساتھ مل کر سندھ کی زمینوں پر لوٹ مارجاری ہے ، یہ سندھ پر حملہ نہیں۔کراچی کا ہر اہم پلاٹ ڈاکٹر عاصم حسین نے ہڑپ کر لیا ، یہ سندھ پر حملہ نہیں۔ ایسی ایسی عورتیں سندھ میں اختیارات کی مالک بنا دی گئیں جن کے ذکر سے ایک احساس ندامت پھوٹتا ہے ، یہ سندھ پر حملہ نہیں۔ لاکھوں روپے کے ترقیاتی کام کروڑوں میں اور کروڑوں کے کام اربوں میں ظاہر کرکے سالم جیبوں میں بھر لئے گئے، یہ سندھ پر حملہ نہیں۔ مگر اس کی باز پرس کے لئے ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری سندھ پر حملہ ہے۔ کسی کو شرم ہی نہیں آتی۔
ڈاکٹر عاصم نے خوامخواہ یہ نہیں کہا تھا کہ کراچی اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔ یہ ان کامنصوبہ تھا۔ ڈاکٹر عاصم حسین نہیں آصف علی زرداری اس پورے کھیل کا پشت پناہ ہے۔ یہ سوچتے تھے کہ جب قانون حرکت میں آئے گا تو اُنہیں کس طرح اور کہاں کہاں سے مات دی جائے گی۔ زرداری کے پورے پانچ برسوں میں الطاف حسین کا خیال بلاوجہ نہ رکھا گیا تھا۔ یہ حضرات سمجھتے ہیں کہ ایک پوری ریاست کو ردِعمل کی طاقت سے یرغمال بنایا جاسکتا ہے۔ مگر انہوں نے جن پتوں پر تکیہ کررکھا تھا وہی اب ہوا دینے لگے ہیں۔ بہت تھوڑے دنوں میں وہ اعدادوشمار بآلاخر منظر عام پر آجائیں گے کہ ڈاکٹر عاصم حسین نے کس طرح سوئی سدرن گیس کی زائد بلنگ کے الیکٹرک کو کی اور کے الیکٹرک سے اضافی رقم کی وصولی لے کر اُنہیں کس طرح سرکاری خزانے سے یہی اضافی رقم لوٹائی جاتی رہی۔ اس کھیل کو کس پُرکاری سے کھیلا گیا۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے بعد سوئی سدرن گیس کمپنی کے چیف فنانشل افسر امین راجپوت اور ڈی ایم ڈی شعیب وارثی کی گرفتاریاں جعلسازی کے اسی کھیل کے باعث ہوئی ہیں۔یہ محض ایک معاملہ نہیں ۔ یہ دراصل بدعنوانیوں کاایک زنجیری سلسلہ ہے۔ جس نے ریاست کے تمام اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاتھا ۔ ہر ادارہ اور ہر کام ان کی ’’خدمت ‘‘سے منسلک تھا۔ جس کا حساب ناقابلِ اندازا ہے۔اگلے چند دنوں میں ڈاکٹر عاصم کے حوالے سے وہ راز بھی منکشف ہوسکتے ہیں جو شہر کراچی میں جاری بعض سنگین سرگرمیوں سے متعلق ہیں جس میں کراچی سے لندن تک پھیلا روابط کا ایک خفیہ سلسلہ حالات کی صورت گری کرتا تھا۔اس کی پوری تفصیلات ڈاکٹر عاصم حسین اُگل چکے ہیں اور ابھی تک شہر کراچی بھی اندھیروں میں نہیں ڈوبا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے اندر سندھ کارڈ استعمال کرنے کے چرچے اور مشورے زوروں پر ہیں۔ مگر ان کی صفوں میں پھیلا انتشار بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔یہ سارا شغل اس وقت بیکا ر ہی جائے گا اگر اس پوری جعلسازی کے اصل کرتادھرتا اور سیاسی سرپرست آصف علی زرداری قانون کی گرفت میں نہ لائے گئے۔مگر اُن کے معاملے میں ایک اور طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔
ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری دراصل ایک واقعہ نہیں ۔ یہ جمہوریت کاچہرہ ہے۔جس کی تقدیس کے گیت گانے پر لوگ مجبور کر دیئے گئے۔ سیاست دانوں کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ طالبان سے زیادہ وحشت کا مظاہرہ کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ کیا یہ لازم ہے کہ جمہوریت کے لئے زرداری کو بچایا جائے؟ سچ تو یہ ہے کہ شرم اُنہیں نہیں ہمیں آنی چاہئے!!!!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
سابق صدر آصف علی زرداری ہسپتال سے بلاول ہاؤس منتقل ہوگئے۔ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری کے معالج ڈاکٹرعاصم حسین نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں کہا تھا کہ سابق صدر کی صحت میں نمایاں بہتری ہوئی ہے تاہم ذرائع کے مطابق آصف زرداری کو ہسپتال سے بلاول ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
سابق صدرمملکت اورپاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہم اداروں اور جرنیلوں کو عمران خان کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے۔ بلاول ہاؤس میڈیا سیل سے جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گزشتہ روز کی افواجِ پاکستان سے متعلق تقریر کو تن...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض عمران خان اور آصف زرداری کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔ وائرل آڈیو کال نے سیاست میں نئی ہلچل پیدا کر دی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور ملک ریاض کی ٹیلیفونک گفتگو سامنے آئی ہے جس میں ملک ریاض ...
پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے شہباز شریف سے اپنی خفیہ ملاقات کا انکشاف کیا ہے اور کہا کہ انہیں وزیراعظم بنانے کی پیشکش اسی دوران کی، سابق وزیراعظم عمران خان بال ٹیمپرنگ کے بغیر سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکتے، پی ٹی آئی کو سمجھنا چاہیے کہ اسمبلی میں واپس آجائی...