... loading ...
دنیا کا سب سے مشکل علم ، علم الانسان ہے۔ شخصیات کے جائزے میں اصل مسئلہ درست تناظر کا ہوتا ہے۔واقعات کے ایک خاص بہاؤ میں یک نوعی تعصب گردوپیش کا بھی داخل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ واقعات کی درست تعبیر اور شخصیات کا اُن واقعات میں مناسب انطباق گاہے مشکل ہو جاتا ہے۔عربی زبان نے ایک ضرب المثل سے رہنمائی کی
زِنِ الرِّجَالَ بِمَوَازِینَھُم
(آدمیوں کو اُن کے ہی معیار پر جانچو)
گاہے عظیم دانشور بھی غلطی کے شکار ہوجاتے ہیں جب وہ انسانوں کے تجزیئے میں دوسروں کو خود پر قیاس کرلیتے ہیں۔ جنرل حمید گل کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ اکثر لوگ اُن کے وجود کو اپنے افکار کا جامہ پہنانے کی کوشش کرتے اور ٹھوکر کھاتے۔ جنرل حمید گل تعزیت اور تاریخ دونوں کے ہی موضوع ہیں۔ اُن کے لئے تعزیت کے الفاظ تلاش کئے جائیں تو لغت کے سارے غمگین الفاظ حزن والم کی تصویر بن کر دست بستہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اُن کی موت کا ماتم کرتے ہیں۔اُن کی جدائی کے کرب میں سینہ کوبی کرتے ہیں۔بلاشبہ وہ ہماری قومی زندگی کا ایک بانکپن تھے۔ آزادی کے حقیقی متوالے اور سچی آزادی کے سچے شیدائی۔ نواستعماری ذہن کی تہ داریوں سے آگاہ وہ ایک ایسے مزاحمت پسند تھے کہ گاہے لگتا تھا کہ اُن کے اندر اُن کے پردادا کی روح حلول کرگئی ہے جو سید احمد شہید کے لشکر میں شامل تھے۔ ایک خوددار اور خود شناس شخص کے طور پر وہ اپنی دنیا کے ایک منفرد آدمی تھے۔جنہوں نے اپنے گھوڑے پر کبھی کسی اور کی زین نہیں کسی۔
جنرل حمید گل ایک اعلیٰ درجے کے رومان پسند تھے۔ اُن کے ساتھ جو مسائل تھے وہ اُن کی اِسی رومان پسندی کے سبب تھے۔ ایک رومان پسند کے طور پر حمید گل کے باب میں اس رعایت کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ رومان پسندی گاہے ایسے دروازوں کو بھی توڑنے پر اُکساتی ہے جو بآسانی چابیوں سے کھولے جاسکتے ہیں۔ مگر یہ حمید گل کا نہیں تمام رومان پسند شخصیات کا فطری مسئلہ ہے۔ایسے رومان پسندوں کو کبھی یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ کل اُن کے حصے میں کیا لائے گا؟ ایک سورما کی طرح جسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جنگ میں کون سا کارنامہ اُس کا انتظار کررہا ہے۔
افغانستان کی تشکیل میں پاکستانی جرنیلوں نے ایک اپنی ہی دنیا سجائی ہوئی ہے۔ جس کے دروبست زمین پر کم اور ہوا میں زیادہ ہیں۔ جس دنیا کو ہم بدلنا چاہتے ہیں وہ کسی اور نے بنائی ہے اور وہ بھی اِس کی متشکل حالت میں کارگزار ہے۔ کوئی بھی رومان پسند شخص یہ بالکل نہیں سوچتا اور اُسے سوچنا بھی نہیں چاہئے۔ چنانچہ جنرل حمید گل گاہے جمہوریت سے مایوسی کے شکار ہو کرکچھ نئے حل آزمانے کی مہم کے حامی بھی بن جاتے تھے۔ اس باب میں اُن کے خیالات سے زیادہ خاصے کی شے اِن خیالات پر کچھ حلقوں کا دلچسپ ردِعمل ہوتا۔ یہ وہ حلقے ہیں جو اپنے من کے مندر میں جمہوریت کی پوجا اپنی اپنی خواہش کی مورتیاں سجا کر کرتے ہیں ۔ جو زرداری یا نوازشریف کی چاہت میں جمہوریت کو چاہتے ہیں اگر وہ سریر آرائے اقتدار نہ ہو تو پھر وہ وطنِ عزیز کے مستقبل کے مایوس کن زائچے بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔یہ وہ لوگ نہیں جن کی جمہوریت سے وابستگی کسی تحدید وتوازن کے ایک نظام کے طور پر اس کی قباحتوں کے پورے شعور اور اُس کے اوصاف کی کامل آگہی پر انحصار کرتی ہو۔ چنانچہ ایسے لوگ جنرل پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے ذہنی افلاس میں اِس مضحکہ خیز حالت میں نظر آتے کہ وہ تنقید تو جنرل پر کررہے ہوتے مگر حمایت آصف زرداری یا نوازشریف کی کررہے ہوتے۔ابھی ذرا زرداری صاحب سے اقتدار کی مقتدر راہداریاں خفا کیا ہوئیں، جناب زرداری کے اُن متعلقین کی جمہوریت سے وابستگی کا ساراوفور ہی کہیں بہہ گیا تھا۔ اور مشاہد اللہ کے باب میں کیا ہوا؟ ذرا دھرنا سازش کی تہہ میں جھانکنے کی کوشش ہوئی تو جمہوریت سے زیادہ اہم اقتدار کی حفاظت بن گیا۔ اگر جمہوریت سے وابستگی کسی آزاد رائے کی بنیاد نہیں تو پھر ہمارے چہرے اپنی رزالت آمیز نفاق کے جھوٹے آئینوں میں بار بار دیکھے جانے کے باعث بھلے ہی شرمندہ نہ ہو، مگر یہ دوسروں کی نظروں میں کبھی آبرو نہ پاسکیں گے۔بس اس فضا میں جنرل حمید گل کو سنتے تو وہ ہم سے مختلف رائے رکھتے ہوئے بھی اپنے اپنے ہی لگتے، کہ کم ازکم وہ خواب تو دیکھتے تھے۔کیا ہوا وہ خواب ہماری آنکھوں میں اُتر نہ پاتا تھا۔برسبیل تذکرہ! جمہوریت سے شخصی وفا کی دوڑ میں بندھے لوگوں سے ایک سوال ہے کہ آخر کیوں جنرل لوگوں کے دل میں بسیرا کئے ہوئے تھا؟اور اتنے سارے لوگ جنرل کی جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے کے نقطۂ نظر کے حامی کیوں تھے؟ دراصل جمہوریت کوئی مقصود بالذات شے نہیں۔ یہ دنیا کی رائج دانش میں اب تک انسانی فلاح کو پانے کا سب سے معروف ذریعہ سمجھا گیا ہے۔ اگر یہی ذریعہ عوامی تصور میں انسانی فلاح کا غاصب بن جائے ، تو اس کی تقدیس کے گیت متاثر کن نہ رہیں گے۔ پاکستان میں یہ مسئلہ پیدا ہوچکا ہے۔ شخصی وفا کی دوڑ میں بندھے جعلی محبان ِ جمہوریت کوشاید اس کی خبر ابھی تک نہیں ہوئی ۔جنرل حمید گل اِسی فضا میں کچھ نظریات پر کھڑے تھے۔ اُن کے شخصی جائزے میں اس پس منظر کا لحاظ رکھا جانا چاہئے۔
جنرل کے باب میں ایک اور بات نظر انداز ہوئی کہ ہر آدمی اپنے حالات کی پیدا وار ہوتا ہے۔ جنرل حمید گل سردجنگ کے زمانے کے ایک مخصوص عالمی تناظر میں اُبھرے تھے۔ جہاں نظامِ حکومت کی بحث دوقطبی نظام کی تحویل میں رکھ کر جانچی جاتی تھی۔پاکستان میں جنرل ضیاء کے افکارِ عالیہ اُسی عالمی دروبست کی حفاظت کے لئے ایک مخصوص مذہبی تعبیر کے زرق برق ورق میں لپیٹ کر قابلِ قبول بنائے گئے تھے۔ ایک تدبیر کے طور پر اختیار کی گئی مذہبی تعبیر نے انسانوں پر ایسا اثر ڈالا کہ وہ اُن سے تقدیر بن کر چپک گئی۔ یہ کام ایک روبوٹ سے یاپھراعلیٰ درجے کے مفاد پرست اور ابن الوقت سے تو لیا جاسکتا ہے کہ وہ بدلی ہوئی دنیا کے ساتھ یک بیک بدل جائے۔ اپنا لباس، اپنی ٹوپی اور اپنا بنا بنایا مزاج بدل کر نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوجائے، مگر کسی مخلص آدمی سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ جِسے وہ ایک نظریہ سمجھتا ہو اُسے ایک بلوہ سمجھ کر نظر انداز کردے۔جنرل سے یہ توقع غلط کی گئی۔ وہ ہمارے عہد کے چند مخلص ترین لوگوں میں شامل تھے۔ اور اس میں قد آور مذہبی شخصیات بھی دور دور تک اُن کے پاس کھڑی نہیں تھیں۔
اگرچہ اُن کے بہت سے خیالات غنچگی کے شکار رہے۔ شاید اِسی لئے یہ سمجھا گیا کہ اُن کی ذہانت عملی شکل میں کم ڈھل پاتی ہے۔روایت ہے کہ اُن کے پیش رو جنرل اختر عبدالرحمان نے اُن کے بارے میں اپنی ذاتی ڈائری میں کچھ اِسی مفہوم کو اپنے فوجی الفاظ دیئے تھے۔ تزویراتی شخصیت کی ذہانت الفاظ سے نہیں اعمال سے مترشح ہوتی ہے۔مگر وہ ایک رومان پسند شخص زیادہ تھے۔ اور ایک رومانوی شخصیت کا یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ اُسے اپنے افکار سے اپنے اعمال سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔اُن کی نفسیات میں یہ معاملہ کبھی حل نہیں ہوسکا۔مگر یہ جنرل کا مسئلہ نہیں تھا اُن کی اُس ذہنی ساخت سے جڑا مسئلہ تھا جو کسی بھی ایسی شخصیت میں میکانکی طور پر اِسی طرح ظاہر ہوتی ہے۔ تاہم اِسے لوگوں نے اُن پر گرجنے برسنے کا موقع بنایا۔ غلط تھا یہ سب غلط تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے تخیل کے افلاس کو شاندار الفاظ اور دلفریب ملمع سازی میں چھپانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ آخر ایسے لوگوں کو کیا حق ہے کہ وہ نری سیاست کی جعلی وفا کے پردے میں اپنی اپنی شخصیات کو پوجتے پاجتے حمید گل کو ہدفِ تنقید بنائیں۔خواب دیکھنے والے اکثر ایک نقطۂ نظر پر جمے ہوئے نہیں ہوتے۔ جنرل بھی کچھ ایسے ہی تھے مگر جمہوریت کی آڑ میں فائدہ پہنچانے والے اپنے اپنے سیاسی رہنماؤں کو پوجنے والوں کا حال بھی کچھ کم پتلا نہیں جن کے خیالات زیرجامہ بدلنے سے پہلے تبدیل ہوتے رہے۔ جنرل کے ہاں کم ازکم یہ کسی مفاد کی وجہ سے تو نہ تھا۔ جنرل حمید گل اٹھتر سال کی زندگی جئے ۔ ہندوستان ٹائمز نے لکھا کہ ’’وہ ریٹائر ہونے کے باوجود بھی بھارت کے لئے حاضر سروس دشمن ثابت ہوئے۔‘‘ مگر فوج سے رخصتی کے بعد اُنہوں نے جتنی بھی زندگی جیئی ہے اُس کی ہر ہر سانس اُن کی اپنی تھی۔ وہ مستعار زمین وآسمان کو پھونک ڈالنے والے غیر معمولی لوگوں میں سے ایک تھے جو زندگی کے معمولات میں قابلِ عمل طور پر خود کو متعلق رکھ کر دوسروں کے لئے باعثِ تحریک ہوتے ہیں۔جنرل اب جہاں ہیں وہاں فیصلے جمہوریت کی حمایت یا مخالفت پر نہیں بلکہ کسی اور پیمانے پر ہوتے ہیں ۔ محبانِ جمہوریت کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اُس کسوٹی پر انشااللہ کھرے اُتریں گے۔