... loading ...
جاوید محمود
گوادر ہمیشہ بڑی طاقتوں کی نظر میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ 12ستمبر 2023ء کو امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم نے گوادر کا دورہ کیا تھا۔ تاریخ میں دو قوتیں ہی ایسی گزری ہیں جنہوں نے گوادر کی اہمیت کو پہچانا ۔برطانیہ اور اس کے بعد پاکستان۔ یوکرین کے بعد امریکہ نایاب معدنیات کی تلاش میں پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ برطانیہ کی دلچسپی والی بات تو اب پرانی ہو گئی کیونکہ اس کا تعلق انیسویں صدی کے وسط اول سے ہے ،جب افغانستان نے 1839 میں ان علاقوں پر حملہ کیا۔ اس وقت برطانوی حکومت نے ضرورت محسوس کی کہ وہ تربت اور ایران کے درمیان پورے خطے کے بارے میں معلومات حاصل کرے اور گوادر کی تاریخی سیاسی اور دفاعی اہمیت سے واقفیت حاصل کرے ۔گوادر پر پاکستان کی توجہ تقسیم ہند کے فورا بعد ہی مبدول ہو گئی تھی اور اس نے اپنے قیام کے تقریبا دو برس بعد سنجیدگی سے کوشش کی کہ یہ علاقہ اس کی تحویل میں آ جائے بحیرۂ عرب کے کنارے واقع اس ساحلی علاقے میں پاکستان کی دلچسپی کی وجوہات دو تھیں معیشت اور مضبوط دفاعی حصار ۔گوادر ان دونوں مقاصد کی راہ میں ایک بڑی دیوار کے طور پر حائل تھا۔ یہ دیوار صرف اسی طور گرائی جا سکتی تھی اگر یہ علاقہ پاکستان میں شامل کر لیا جاتا۔ پاکستان اپنے قیام کے بعد اپنی تاریخ کے شاید سب سے بڑے اقتصادی بحران سے دوچار تھا جب وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے وسائل بھی نہیں رکھتا تھا۔ اسمگلنگ کی وجہ سے اس مسئلے کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا کیونکہ اس طرح سے قومی وسائل تیزی سے سکڑتے جا رہے تھے ۔اس زمانے میں اسمگلنگ کا ایک بڑا مرکز گوادر کی یہی پرانی اور غیر ترقی یافتہ بندرگاہ تھی۔ اگرچہ یہاں ایک ایئرپورٹ بھی موجود تھا لیکن اس کے استعمال کی نوبت کبھی کبھار ہی آئی اور 1956میں آخری بار اسماعیلی برادری کے پرنس علی خان کی یہاں آمد کے موقع پر رونق دیکھی گئی تھی ۔پاکستان بحیرۂ عرب کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ گوادر کے مقام تک جو پاکستان سرزمین کا اخری مقام ہے ایک سڑک تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا تھا تاکہ ملک کا دفاع مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ اسمگلنگ پر بھی قابو پایا جا سکے لیکن اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ گوادر کی صورت میں حائل تھی جس پر اس کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ یہ سبب تھا کہ حکومت پاکستان نے 1949 میں ہی گوادر کے حصول پر سنجیدگی سے توجہ دینی شروع کی۔ یہ کوشش 1958میں اپنے عروج پر پہنچ گئی جب پاکستان اور عمان کے درمیان اس معاملے میں فیصلہ کن بات چیت ہوئی جس میں اس خطے میں سابق قابض قوت اور عمان میں فوجی اڈے رکھنے والی طاقت برطانیہ نے دونوں ملکوں کی معاونت کی ۔یوں اس زمانے کی غیر ترقی یافتہ بندرگاہ پاکستان کا حصہ بن گئی۔ پاکستان نے گوادر کے انضمام کا اعلان کیا اور قوم کو بتایا کہ عمان کے سلطان اعلیٰ حضرت سعید بن تیمور نے یہ علاقہ خیرسگالی کے جذبے کے تحت بلا معاوضہ پاکستان کے حوالے کیا ہے جو نسلی لسانی جغرافیائی اور تاریخی طور پر فطری طور پر پاکستان کا حصہ تھا ۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ آئین کی دفعہ 104 کے تحت یہ علاقہ مغربی پاکستان میں شامل سمجھا جائے گا۔ اسے خصوصی حیثیت حاصل ہوگی لیکن یہاں کے باشندوں کے حقوق ملک کے دیگر شہریوں کے برابر ہوں گے ۔پاکستان میں سرشاری کی یہ کیفیات آئندہ تقریبا دو ہفتے یعنی اس وقت تک جاری رہی جب تک عالمی شہرت یافتہ جریدے ٹائم میگزین کا آئندہ 22 ستمبر 1958 کا شمارہ شائع نہیں ہوا ۔اس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کو گوادر کا یہ قبضہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر بلا معاوضہ حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے ایک خطیر رقم یعنی چار کروڑ 20لاکھ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ جریدے نے یہ انکشاف بھی کیا کہ حکومت پاکستان نے سلطان کو یقین دہانی کروائی ہے کہ اگر اس علاقے سے تیل نکالا گیا تو اس کی آمدن میں سے کچھ حصہ انہیں بھی دیا جائے گا ۔پاکستانی ذرائع املاغ نے یہ خبر بڑے نمایاں انداز میں شائع کی جس سے ملک میں بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی۔ حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے قوم کو غلط معلومات فراہم کی اور انہیں اندھیرے میں رکھا ۔اس ہنگامہ خیز صورتحال میں حکومت کچھ دنوں تک خاموش رہی لیکن گورنر مغربی پاکستان نے اپنے ایک پالیسی بیان کے ذریعے خاموشی توڑی۔ اس سے ٹائم میگزین کی خبر سے شروع ہونے والی بحث کا خاتمہ بھی ہوا اور اس معاملے میں ایک نیا پہلو بھی شامل ہو گیا یعنی گوادر کے حصول کے سلسلے میں انڈیا کی دلچسپی سامنے آئی۔ ان کے بیان کا لب لباب یہ تھا کہ یہ درست ہے کہ پاکستان نے گوادر کے حصول کے لیے رقم ادا کی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھارت بھی گوادر میں دلچسپی رکھتا تھا اور اس نے اس کے حصول کے لیے عمان کے سلطان کو پاکستان کے مقابلے میں 10گنا زیادہ معاوضے کی پیشکش کی تھی ۔بھارت نے اس مقصد کے لیے کئی ایسے ملکوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش بھی کی جو معاملے میں اثر انداز ہو سکتے تھے ۔ان کے مطابق انڈیا کا موقف تھا کہ گوادر کی اکثریتی آبادی ہندو ہے اس لیے پہلا حق ان کا ہے ۔اس کے مقابلے میں پاکستانی کی طرف سے جاری کیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق انضمام کے وقت گوادر کی کل آبادی 20 ہزار تھی جس میں صرف ایک ہزار ہندو تھے ۔برطانوی حکومت چونکہ بہت پہلے سے ہی اس علاقے میں دلچسپی رکھتی تھی لہذا اس نے پیشکش پر غور کیا لیکن اس وقت اس کے لیے دوسری عالمی جنگ درد سر بنی ہوئی تھی جس سے پہلے نمٹنا ضروری تھا ۔چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملے کو جنگ کے خاتمے تک ملتوی کر دیا جائے ۔قرائن سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان گوادر کی ملکیت سے متعلق اس تاریخی اور جغرافیائی حوالوں کو مرتب کرنے پر اس لیے مجبور ہوا کیونکہ عمان کے سلطان کی طرف سے جنوری 1947میں برطانوی حکومت کے ذریعے اس کی فروخت کی پیشکش ہوئی جس کی وجہ سے انڈیا نے اس میں دلچسپی لینی شروع کر دی اور گوادر کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہو گیا ۔
گوادر میں انڈیا کی دلچسپی کی دو بڑی وجوہات کو ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کی رپورٹ سے واضح ہیں اس سے بھی اہم وجہ اس وقت کے اخبارات کے بقول یہ تھی کہ اس زمانے میں یہ علاقہ اسمگلروں کی جنت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ ان اطلاعات کے مطابق کراچی سے گوادر تک اسمگلروں کا ایک نیٹ ورک متحرک تھا جو پاکستان سے سونا ،غذائی اجناس اور دیگر قیمتی چیزیں بیرون ملک منتقل کیا کرتا تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق گوادر کے پاکستان میں شامل ہونے کے بعد ان سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہو گئی۔ اسمگلنگ میں تیزی کی اطلاعات اس وقت سامنے آئیں جب گوادر کے پاکستان میں شامل ہونے کے بعد پاکستانی سیاحوں اور غیر ملکی سامان سستے داموں خریدنے کے شائقین افراد نے گوادر کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ اس زمانے میں راچی سے گوادر تک کا سفر سمندری راستے سے ہوا کرتا تھا۔ جس کا کرایہ 23روپے تھا لیکن ان دنوں میں بڑھ کر 300روپے تک جا پہنچا تھا ۔ان سیاحوں نے گوادر کا آنکھوں دیکھا حال کچھ یوں بیان کیا کہ گوادر کے پاکستان میں شمولیت کے وقت وہاں کے بازار فیملی ساز و سامان اور غیر ملکی کپڑے سے بھرے ہوئے تھے پھر یہ سامان راتوں رات غائب ہونا شروع ہو گیا جس کے ذمہ دار وہ ہندو تاجر تھے جن کی مارکیٹ پر اجارہ داری تھی۔ سیاحوں نے یہ بھی بتایا کہ عمان کا حصہ ہونے کے باوجود وہاں بھارتی کرنسی میں لین دین ہوتا تھا ۔سیاحوں کے ان بیانات کی تائید گوادر کی پاکستان میں شمولیت کے بعد تجارت اور درآمد برآمد کے سلسلے میں جلدی میں کیے جانے والے اقدامات سے بھی ہوتی ہے ۔ابتدا میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ہر قسم کی تجارت معمول کے مطابق جاری رہے گی لیکن جب سونے کرنسی اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ شروع ہو گئی تو حکومت کو مجبوراً بہت سے پابندیاں عائد کرنی پڑیں ۔تاہم ایسی ہی سرگرمیاں جاری رہی ہوں گی جن کی روک تھام کے لیے ساحلی علاقوں کے گرد ایک شاہرا ہ کی تعمیر کی ضرورت محسوس کی گئی لیکن اس کی راہ میں عمان حائل تھا جس کا گوادر پر اختیار تھا ۔گوادر کی پاکستان میں شمولیت سے یہ رکاوٹ بھی دور ہو گئی۔
ٹائم میگزین نے ستمبر 1958 کے شمارے میں دو انکشافات کیے تھے گوادر کی فروخت کے سلسلے میں ادا کی جانے والی رقم کا اور یہ کہ پاکستان اس مقام پر ایک بڑا ایئرپورٹ اور بحری اڈا تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ پیشنگوئی کم و بیش نصف صدی کے بعد پوری ہونے کی نوبت ا رہی ہے جسے آنے والے دور کی کلید قرار دیا جاتا ہے شاید اسی سبب سے ایک بھارتی مصنف کارتھک نامبئی نے دعویٰ کیا ہے کہ عمان کے سلطان نے تقسیم ہند کے بعد بھی گوادر کی فروخت کے لیے انڈیا سے رابطہ کیا تھا لیکن انڈین حکومت نے اس پیشکش پر کوئی توجہ نہ کی۔ اس کے بعد سلطان نے پاکستان سے رابطہ کر لیا۔ یوں انڈین قیادت کی کوتاہ نظری نے انڈیا کی قسمت کا ستارہ بلند ہونے کا موقع ضائع کر دیا اور تاریخ اورجغرافیہ دونوں کا دھارا بدل گیا ۔کیا پاکستان گوادر سے وہ فائدہ اٹھا رہا ہے جس مقصد کے لیے اسے حاصل کیا تھا ،بالخصوص ان حالات میں جب کہ بڑی طاقتوں کی نظریں اس پر لگی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔