... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلگام واقعہ کے بعد سے سرحد کے دونوں پار سے شرلیاں اور پٹھاخے چل رہے ہیں۔ اگر ان حالات کو مدنظر رکھ کر مشاہدہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ یہ تمام ترسیاسی بیان بازیاں ایک طرف رکھ کر اگر دونوں ممالک کی عوام کی بات سنیں تو جنگ کے دور دور تک بھی آثار نہیں ہیں۔ دونوں مممالک کے لوگ ایک دوسرے سے گلے ملنا چاہتے ہیں۔ پچھلے اختلافات کو ختم کرکے بارڈر کھولنا چاہتے ہیں ۔ایک دوسرے سے لین دین کرنا چاہتے ہیں اور پیار محبت کی پینگیںچڑھانا چاہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے مودی جیسے حکمران کی تمام تر سیاست ہی پاکستان کے خلاف گھومتی ہے اگر مودی سرکار ہوش میں ہو تو اپنے سابق لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پناگ کا بیان سن لے تو اسکے 14طبق روشن ہو جائیں گے ۔جس میں انہوں نے پاکستان کی عسکری صلاحیت کا کھل کر اعتراف کرتے ہوئے اپنی سرکار کومشورہ دیا ہے کہ بھارت کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اب بھی ایک فعال ایٹمی ریاست ہے جس کے پاس ہر طرح کی جوابی کارروائی کی قابلِ عمل حکمت عملی موجود ہے۔ بھارت کو کسی بھی میدان چاہے وہ میزائل، ڈرون، فضائی یا سمندری قوت ہو،ان میں کوئی ایسی تکنیکی برتری حاصل نہیں جس کی بنیاد پر وہ بغیر خطرے کے پاکستان پر جوابی حملہ کر سکے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان ایک مکمل ایٹمی قوت ہے اور کسی بھی محدود جنگ کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
اسی طرح کا بیان بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کاٹجو کابھی ہے کہ اگر بھارت جنگ کرتا ہے تو اس کی معیشت بری طرح متاثر ہوگی اور بھارتی جرنیل پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے بھارتی ٹی وی چینلز پر بکواس کر رہے ہیں۔ انہیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں۔ انہوں نے پلواما حملے کے بعد پاکستان کے اقدامات کی بھی تعریف کی جب دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بہت زیادہ تھی ۔اسی طرح بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ بھی بھرے اجلاس میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ پہلگام واقعہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی ہے ۔اگر مودی جی شہریوں کو تحفظ نہیں دے سکتے تو استعفیٰ دیکر گھر بیٹھ جائیں اور کسی اہل شخص کو موقع دیں۔ اگرمودی سندھ طاس معاہدہ معطل کر تا ہے تو دریا کا رخ موڑ کر بھارت اتنا پانی رکھے گا کہاں؟امید ہے کہ اس کے بعد مودی سرکار کی آنکھیں کھل جانی چاہیے اور اسے اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کا بھی اندازہ ہو چکا ہوگا ۔ابھی تو پاکستان نے ردعمل کے طور پر بھارت کے لیے صرف اپنی فضائی حدود پر ہی پابندی لگائی ہے جس کے بعد بھارتی کو اربوں روپے کا نقصان ہونا شروع ہوچکا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مقبوضہ جموں و کشمیرپہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت بھارت کی 10لاکھ فوج اور سیکورٹی فورسز کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے جب بھی بھارت کسی مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتا ہے تو وہ اس طرح کے واقعات کرکے اس کا الزام پاکستان پر لگا کر مملکت پاکستان کے عالمی امیج کو نقصان پہنچانے کے حربے استعمال کرتا رہتا ہے۔ حالانکہ دہشت گردی، مذہب اسلام میں کہیں بھی موجود نہیں ہے اور نہ ہی مسلمان دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں ۔اسکے برعکس ہندوستان میں ظالم جابر مودی حکمران نے اقلیتوں کا قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ پہلگام واقعہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے ۔پاکستان نے نہ تو کبھی سرحدوں اور نہ ہی ایل او سی کی خلاف ورزی کی جبکہ بھارت آئے روز ایل او سی پر بے گناہ شہریوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہا ہے اور مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں بھی اس نے انسانیت سوز مظالم ڈھا رکھے ہیں اس وقت جموں و کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ ہے جہاں دس لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی موجود ہیں پھر بھی ان کی سیکورٹی فورسز اس حملے کو روکنے میں ناکام رہی ہیں ۔یہ حملہ مودی حکومت کی نااہلی اور بھارت میں تمام نسلی اقلیتوں کے خلاف جارحانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی گیدڑ بھبکی ماری ہے جو اس کے اختیار میں ہی نہیں ۔
سندھ طاس معاہدہ ہے کیا اس پر بھی بات کرلیتے ہیں جو 1960 میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا جس نے دونوں ممالک کے درمیان دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کو باقاعدہ بنایا کیونکہ قیام پاکستان کے بعد دریائی پانی کی تقسیم ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ۔دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا دونوں ممالک کے لیے زندگی کی لکیر کی حیثیت رکھتے تھے تقسیم ہند کے نتیجے میں ان دریاؤں کے اہم ہیڈ ورکس اور آبپاشی کے نظام ہندوستان کے حصے میں آ گئے جس سے پاکستان میں پانی کی قلت کا خدشہ پیدا ہو گیا ۔اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی بینک نے ثالثی کی اور کئی سالوں کی گفت و شنید کے بعد 19 ستمبر 1960 کو کراچی میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کی اہم شقوں کے مطابق دریائے سندھ کے نظام کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ مشرقی دریا (ستلج، بیاس، راوی) اور مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) مشرقی دریاؤں کا کنٹرول ہندوستان کو دیا گیا جس پر وہ آبپاشی اور بجلی کی پیداوار کے منصوبے بنا سکتا ہے اور مغربی دریاؤں کا کنٹرول پاکستان کو دیا گیا جس پر اسے مکمل حقوق حاصل ہیں تاہم ہندوستان کو ان دریاؤں پر بھی محدود استعمال کی اجازت دی گئی جیسے کہ بجلی کی پیداوار اور بعض آبپاشی کے منصوبے معاہدے میں ایک مستقل سندھ طاس کمیشن کے قیام کی بھی منظوری دی گئی جس میں دونوں ممالک کے کمشنرز شامل تھے۔ اس کمیشن کا کام معلومات کا تبادلہ کرنا مشترکہ معائنے کرنا اور تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ کسی بھی تنازع کی صورت میں معاہدے میں ثالثی کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا جس میں عالمی بینک کی شمولیت بھی شامل ہے۔ اس معاہدے نے دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلے کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور آبی تنازعات کو کم کرنے میں مدد دی۔ پاکستان نے اس معاہدے کے تحت اپنے حصے کے دریاؤں پر بڑے ڈیم (تربیلا اور منگلا) اور آبپاشی کے نظام تعمیر کیے جس سے زراعت کو فروغ ملا اس معاہدے نے دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور معلومات کے تبادلے کے لیے ایک میکانزم فراہم کیا۔ بین الاقوامی سطح پر اس معاہدے کو ایک کامیاب مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کس طرح دو ممالک ایک پیچیدہ مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستان نے مشرقی دریاؤں پر اپنا حق چھوڑ کر ایک بڑا نقصان اٹھایا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی طرف سے مغربی دریاؤں پر بجلی کے منصوبوں کی تعمیر پر پاکستان کو اعتراضات رہے ہیں، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ پیدا ہوتا رہا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ان منصوبوں سے اس کے حصے کے پانی کی مقدار متاثر ہو سکتی ہے ۔حال ہی میں 22 اپریل 2025 کو پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد، ہندوستان نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ماہرین قانون راجہ ذوالقرنین ،ملک محمد احمد قیوم،عرفان تارڑ،خاور محمود کھٹانہ اور میاں حنیف طاہر نے یکطرفہ طور پر معاہدے کی معطلی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ ایک تاریخی دستاویز ہے جس نے کئی دہائیوں تک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان آبی تنازعات کو قابو میں رکھا تاہم حالیہ واقعات اور ہندوستان کی طرف سے معاہدے کی معطلی کے اعلان نے اس کی مستقبل کی بقا پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اس لیے ونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کریں اور معاہدے کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں عالمی برادری کو بھی اس معاملے میں مصالحت کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔