... loading ...
جاوید محمود
ہرآنے والے دن کے ساتھ امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت سنبھالتے ہی اور اس سے قبل جو بائیڈن کی جانب سے لگائی گئی سخت پابندیوں کے باعث ایران کو اپنی تیل کی برآمدات میں نمایاں کمی کا سامنا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری پروگرام سے روکنے کی کوشش کے طور پر وہاں تیل کی برآمدات کو صفر پردکھیلنا چاہتے ہیں ۔یہ اقدامات امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ برقرار رکھنے کی اس پالیسی کی عکاسی کر رہے ہیں جو امریکی صدر نے اپنی پہلی مدت کے دوران ایران کے ساتھ نمٹنے کے لیے اختیار کی تھی۔ ٹرمپ اور بائیڈن دونوں نے ایران کا زیادہ تر تیل بیرون ملک لے جانے والے بڑی تعداد میں ٹینکرز جنہیں شیڈو فلیٹ کہا جانتا ہے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ٹرمپ نے کمپنیوں کے بین الاقوامی نیٹ ورک پر توجہ مرکوز کی ہے جس کے بارے میں امریکی صدر کا دعویٰ ہے کہ وہ دوسرے ممالک کو تیل برآمد کرنے کے لیے غیر قانونی تجارتی کاروائیوں میں ایران کی مدد کر رہے ہیں ۔
مارکیٹ ڈیٹا اور ریسرچ ایجنسی ایس این پی گلوبل کی تحقیق کے مطابق 2024 کے اوائل میں ایران تقریبا.1.8 ملین بیرل یومیہ برامد کر رہا تھا ۔ایران پر لگنے والی حالیہ پابندیوں نے جنوری 2025 میں برآمدات کو اوسطا 1.2 ملین بیرل یومیہ تک کم کر دیا۔ تجزیہ کاروں کے محتاط اندازے کے مطابق ایران اپنی تیل کی کل برآمدات کا 90 فیصد چین کو دیتا ہے۔ چین ان پابندیوں کو ناصرف ناجائز سمجھتا ہے بلکہ انہیں یکطرفہ کہہ کر تسلیم ہی نہیں کرتا اور امریکی پابندیوں کے باوجود ایرانی تیل خریدتا ہے۔ ایران کے جوہری ہتھیاروں اور بلسٹک میزائلوں کی تیاری کو محدود کرنے کے لیے امریکہ سمیت دیگر ممالک نے اس پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ان پابندیوں کا مقصد حماس حزب اللہ اورحوثیوں جیسے گروپوں کو رقم بھیجنے سے روکنا بھی ہے، جب سے ایسی رپورٹس سامنے آئی کہ ایران 2002 سے خفیہ طور پر جوہری مواد کی افزودگی کر رہا ہے ،اس وقت سے اقوام متحدہ یورپی یونین امریکہ اور دیگر ممالک نے جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کی کوششوں کے طور پر ایران پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ تاہم ایران ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ رپورٹس میں یہ بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ ایران 1957 کے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدوں پردستخط کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس میں ایران نے عہد کیا تھا کہ وہ کبھی بھی جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست نہیں بنے گا ۔سابق امریکی صدر جو بائیڈن ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندیوں کو کم کرنے کا ایجنڈا لے کر آئے تھے تاکہ ایران کو اس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کی طرف واپس آنے پر آمادہ کیا جا سکے لیکن اکتوبر 2024میں اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے کے جواب میں صدر بائیڈن نے موقف سخت کیا اور اکتوبراوردسمبر میں ایرانی تیل لے جانے والے کئی ٹینکروں پر پابندیاں عائد کر دی۔
ٹرمپ انتظامیہ کی تازہ ترین پابندیوں میں امریکہ نے ایران پر الزام عائد کیا کہ وہ چین کو تیل فروخت کرنے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو ملک کی مسلح افواج تک پہنچانے کے غیر قانونی سودوں میں ملوث ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایران کی تیل کی برآمدات کوصفر تک کم کرنا چاہتے ہیں ۔یہ ایرانی حکومت پر سفارتی دباؤ ڈالنے کے لیے ہے ،انہوں نے کہا کہ میں ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر معاہدہ کرنا چاہتا ہوں جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کے تیل کی برآمدات پر امریکی پابندیوں سے تیل کی عالمی منڈیوں کو غیر مستحکم کرنے کا خطرہ ہے۔ ایران پر امریکی پابندیوں کا سلسلہ 1979میں اس وقت شروع ہوا جب تہران میں موجود امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر کے اندرون ملک یرغمال بنا دیا گیا تھا ۔امریکہ نے 1992سے ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں لگانا شروع کی اور اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں ایران پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں عائد کرتا ہے۔ امریکہ کے ان تمام اقدامات کا مقصد ایران کو عالمی مالیاتی نظام سے الگ تھلگ کرنا ہے اور اس سلسلے میں امریکہ نے پاسداران انقلاب جیسے بڑے ایرانی اداروں کے اثا ثے بھی منجمد کر دیے ہیں۔ پاسداران انقلاب ایک ریاستی فوجی سیاسی اور اقتصادی قوت ہے جو ایران میں وہاں کی اسلامی حکومت کو درپیش خطرات کا مقابلہ اور بیرون ملک اس کی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ 2012اور 2016کے درمیان ایران کو 160ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا اس کی وجہ ایرانی تیل کی برآمدات پر امریکی اور یورپی یونین کی پابندیوں کا نفاذ تھا، جب صدر ٹرمپ نے 2018میں ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ رکھنے کی مہم شروع کی تو ایران نے اپنی معیشت میں کساد بازاری اور ایرانی ریال کی قدر کو گرتے دیکھا ۔ ٹرمپ کی تہران پر پابندیوں کے تازہ ترین پیکیج کے بعد فروری 2025میں ایرانی ریال اب تک کی کم ترین سطح پر آگیا ۔نیدرلینڈ مین انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات کے مطابق تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کمزور اقتصادی صورتحال نے مزید ایرانیوں کو غربت کی طرف دھکیل دیا۔ ایران کی تقریبا ً8فیصد افرادی قوت کو بے روزگاری کا سامنا ہے اور ان میں سے نوجوانوں کی بے روزگاری 20فیصد سے زیادہ ہے۔ اس ادارے کی رپورٹ میں ایران کے اندر بدعنوانی اور معاشی بد انتظامی جیسے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ پابندیوں کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ۔یونائٹڈ اگینسٹ نیوکلیئرایران کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس خام تیل کو خفیہ طور پر بیرون ملک منتقل کرنے کے لیے ٹینکروں کا شیڈو فلیٹ ہے ۔ان جہازوں کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ان ممالک میں رجسٹرڈ ہیں جو اپنے مالکان کو اپنی تفصیلات چھپانے کی اجازت دیتے ہیں ۔رپورٹس کے مطابق ان کے ریڈیو سگنلز کو سمندر میں ہی بند کر دیا جاتا ہے تاکہ اس کو خفیہ رکھا جا سکے۔ ایران نے شیڈو فلیٹ کے استعمال کا اعتراف کیا نہ ہی تردید کی جبکہ ایرانی میڈیا نے اس بحری بیڑے کو پابندیوں کے لیے ڈراؤنا خواب قرار دیا ۔ ایران امریکی مالیاتی پابندیوں سے بچتے ہوئے بینکوں اور کمپنیوں کے خفیہ نیٹ ورک کے ذریعے تیل کے بین الاقوامی لین دین کرنے کا دعوی بھی کرتا ہے جس نے بیشتر بین الاقوامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کو تہران کے ساتھ کاروبار کرنے سے روک دیا۔ برطانیہ کے رائل یونائٹیڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کی برکو اوزکلک نے بتایا کہ ٹرمپ غیر قانونی تیل کے بہاؤ کے ان بین الاقوامی مالیاتی نیٹ ورک پر مزید دباؤ ڈال سکتے ہیں جن سے پاسداران انقلاب کو فائدہ ہوتا ہے اور دہشت گردوں اور شراکت داروں کی مالی معاونت میں سہولت ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ عراق میں ان بینکوں پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر سکتا ہے جو ایران کے لیے کام کر رہے تھے۔ تجزیہ نگار اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ایران کا اسرائیل پر میزائل حملوں کے نتیجے میں اسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔