... loading ...
حمیداللہ بھٹی
رواں صدی کوتبدیلیوں کی صدی کہنابے جانہ ہو گا۔ماضی کے اتحادی ایک دوسرے سے دورجبکہ حریف اب حلیف بن رہے ہیں۔ دنیا کا منظر نامہ ایسا ہوگا ایسا دوعشرے قبل سوچنا ہی محال تھا مگر یہ انہونی اب حقیقت ہے ۔روس سے امریکہ اعتمادکا رشتہ قائم کرنے کے لیے اپنے مغربی حلیفوں کی پرواہ بھی نہیں کرے گا ۔ایسا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا لیکن یہ ہورہاہے ۔روسی موقف کی تائید کرتے اوراُسے اپناہم خیال بنانے کے دوران امریکہ کسی کوخاطرمیں نہیں لارہابلکہ اپنے دیرینہ حلیف یورپی ممالک کو اعتماد میںلینا تو درکنا ر ناراضگی مول لینے پر آمادہ وتیارہے ۔دراصل مملکتوں کے تعلقات میں خلوص ،وفا یا بے لوث طرفداری کاکوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ ضرورت اور مفادکے تابع تعلقات میں اُتارچڑھائو آتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی قیادت میں تشکیل پانے والے نیٹو اتحاد میں شامل کئی ممالک کی پالیسیوں اور جھکائو میں تضاد ہے۔ ترکیہ نیٹومیں شامل ہے مگر جب امریکہ اور روس میں انتخاب کی بات آئے تو ترکیہ کاجھکائو روس کی طرف ہو تا ہے۔ علاوہ ازیں کئی اہم یورپی ممالک امریکی پالیسیوں کے ناقد ہیں ٹرمپ ٹیرف سے نہ صرف دنیا کی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے ۔بلکہ کئی اہم امریکی اتحادی دور ہوئے ہیں۔ اِن حالات میں پاکستانی قیادت نے طے کرنا ہے کہ ملک کا مفاد مدِ نظررکھناہے یا بددستور پُرانی ڈگر پر چلنا ہے۔ امریکہ تو یہی چاہے گا کہ پاکستان اُس کے مفاد سے ہم آہنگ خارجہ پالیسی بنائے لیکن پاک چین دوستی ایک ایسی حقیقت ہے جو پاکستان کی اولیں ترجیح بن چکی ہے۔ پاکستان تجارت کے فروغ کے لیے ایسے نئے راستے تلاش کررہا ہے جوچینی بلاک کاحصہ ہیں روس اور اُس سے الگ ہونے والے ممالک بیلا روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے پاکستان تعلقات کوفروغ دے رہا ہے ۔
پاکستان کو معاشی مسائل سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی نئی منڈیاں تلاش کی جائیں جو نفع بخش ہوں امریکی ٹیرف کے بعد تو یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ چند ایک ملک پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے مفاد میں نئی تجارتی حکمتِ عملی بنائی جائے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا دوروزہ سرکاری دورہ بیلا روس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اِس دورے سے دوطرفہ تعلقات کو نئی جہت ملے گی کیونکہ تجارت،دفاع سمیت الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور غذائی تحفظ کے معاہدے طے پائے ہیں ۔ڈیڑھ لاکھ پاکستانی ہنر مندوں کوبیلا روس بھجوانے پر بھی اتفاق کیا گیا ۔گزشتہ برس نومبر میں بیلا روس کے صدر الیگزینڈرلوکاشنکو نے 68رُکنی وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا وفد میں کاروباری افراد کے ساتھ اہم صنعت کاربھی شامل تھے ۔یہ وہ وقت تھا جب غیر ملکی صدر کی آمد کا خیال کیے بغیر تحریکِ انصاف نے اپنے بانی کی رہائی کے لیے حکومت پر دبائو بڑھاتے ہوئے اسلام آبادپر چڑھائی کردی جس سے خطرہ پیداہوگیا کہ شایدسیاسی عدمِ استحکام کی وجہ سے مہمان صدرکا دورہ ناکام رہے اور وابستہ توقعات پوری نہ ہو سکیں مگر سویلین اور مقتدرہ نے یکسو ہو کر نہ صرف دارالحکومت کا امن و سکون بحال کیا بلکہ اچھی مہمان نوازی بھی کی جس سے تواقعات سے بڑھ کر نتائج ملے ۔صرف پانچ ماہ بعد ہی شہباز شریف کا دورہ بیلا روس ثابت کرتا ہے کہ دونوں ممالک وسیع شراکت داری پر متفق ہیں اور اِس دوران کسی رکاوٹ کوخاطر میں نہ لانے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ اِس حوالے سے دونوں ممالک میں ایک روڈ میپ پر اتفاق ہو چکا ہے ۔امکان ہے کہ جلدہی دونوں میں بڑا تجارتی معاہدہ ہوسکتاہے جس سے دونوں ملک ایک دوسرے کے مزیدقریب آجائیں گے ۔
روس سے الگ ہونے والے اکثر ممالک کے پاس گرم پانیوں کی کوئی بندرگاہ نہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستانی بندرگاہیں اُن کی ضرورت پورا کرسکتی ہیں۔ پاکستان کا شمارایسے اولیں ممالک میں ہوتا ہے جنھوں نے روس سے علیحدہ ہونے والے بیلا روس کو 1991 میں ایک الگ اور خودمختار ملک تسلیم کیا لیکن دونوں ممالک کا تجارتی حجم کچھ زیادہ نہیں ۔محض پانچ کروڑ ڈالرز کے قریب ہے ۔2023 میں پاکستان نے بیلا روس کو سواتین لاکھ ڈالرز کا سامان بیچا جبکہ دوکروڑڈالرز کا سامان درآمد کیا۔دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ ہیں۔ علاقائی تجارت کے فروغ جیسے معاہدوں کا حصہ ہونے کے باوجود دوطرفہ تجارت کا حجم بہت کم ہے لیکن جتنابھی ہے تجارتی توازن بیلا روس کے حق میں ہے پاکستان سے بیلا روس پھل،گوشت،جوتے ،چمڑا،سرجیکل سامان،فوٹو گرافی کا سامان اور اناج کی مختلف اقسام درآمد کرتا ہے۔ گوشت اور سرجیکل سامان کی برآمدات میں معمولی سی کوشش سے خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔ بیلا روس سے پاکستان ٹریکٹر اور اُس سے متعلقہ پُرزہ جات سمیت مختلف قسم کی مشینری درآمد کرتا ہے ۔اب تو الیکٹرک بسوں اور ٹریکٹروں کی مشترکہ تیاری کے معاہدے طے پا چکے ہیں جس سے مزید تجارتی توازن بیلا روس کے حق میں ہوجائے گا گزشتہ چند برسوں کے دوران بیلا روس کی پاکستان کو برآمدات میں کمی ہوئی ۔اِس کے باوجود اب بھی پاکستانی برآمدات کے مقابلے میں زیادہ ہیں نئی تجارتی منڈیوں کا پاکستان کو تبھی فائدہ ہو سکتا ہے جب پاکستان کے پاس وافر برآمدی سامان ہو جو موجودہ حالات میں مشکل ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ چینی سامان کی طرح پاکستان دیگر ممالک کے سامان کی منڈی بننے جارہا ہے اِس طرح ملک کے معاشی مسائل کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ اگر پاکستان کے معاشی ارسطو سوچتے ہیں کہ برآمدی خسارے پر وہ ہُنر مند افرادی قوت بھجواکر قابو پالیں گے تو یہ ممکن نہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان برآمدی مصنوعات بڑھاکر تجارتی خسارہ ختم کرے۔
اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان کو اہم محل وقوع کی وجہ سے کوئی ملک نظر انداز نہیں کر سکتا۔ خشکی میں گھرے ممالک کے لیے پاکستان کی بندرگاہیں بہت اہم ہیں لیکن تجارتی راہداری دیکر محصولات حاصل کرنے کے ساتھ جب تک پاکستان اپنی برآمدات میں معقول اضافہ نہیں کرتا تب تک معاشی مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا قرضوں کے بوجھ کو ختم کرنے کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے۔ عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں بیلا روس سے طے پانے والے معاہدے بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن یہ اُس وقت تک بے فائدہ رہیں گے جب تک برآمدات میں اضافہ نہیں ہوتا۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک کو غیر ملکی سامان کی منڈی بنانے کی بجائے پیداواری شعبے کی استعداد میں اضافے پر توجہ دے اور ہُنر مند افرادی قوت کو بیرونِ ملک بھیجنے کی حوصلہ افزائی نہ کرے بلکہ ملکی صنعتوں کورواں رکھنے کے لیے تعلیمی نصاب میں ایسی تبدیلیاں لائے جس سے ہُنر مندتعلیم کو فروغ ملے موجودہ حالات میں تو ملکی صنعتوں کے لیے بھی ہُنر مندافرادی قوت کا فقدان ہے ۔اِس کے باوجود اگر بیرونِ ملک بھیجنے کی حوصلہ افزائی کی گئی تو خدشہ ہے کہ بہتر آمدن کے خواب کو تعبیردینے کے لیے سبھی ہُنرمند بیرونِ ملک جانے کی تگ ودومیں لگ جائیں گے جس سے ملکی صنعتوں کاپہیہ جام ہوسکتاہے۔