وجود

... loading ...

وجود

پاک بیلا روس معاہدے

بدھ 16 اپریل 2025 پاک بیلا روس معاہدے

حمیداللہ بھٹی

رواں صدی کوتبدیلیوں کی صدی کہنابے جانہ ہو گا۔ماضی کے اتحادی ایک دوسرے سے دورجبکہ حریف اب حلیف بن رہے ہیں۔ دنیا کا منظر نامہ ایسا ہوگا ایسا دوعشرے قبل سوچنا ہی محال تھا مگر یہ انہونی اب حقیقت ہے ۔روس سے امریکہ اعتمادکا رشتہ قائم کرنے کے لیے اپنے مغربی حلیفوں کی پرواہ بھی نہیں کرے گا ۔ایسا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا لیکن یہ ہورہاہے ۔روسی موقف کی تائید کرتے اوراُسے اپناہم خیال بنانے کے دوران امریکہ کسی کوخاطرمیں نہیں لارہابلکہ اپنے دیرینہ حلیف یورپی ممالک کو اعتماد میںلینا تو درکنا ر ناراضگی مول لینے پر آمادہ وتیارہے ۔دراصل مملکتوں کے تعلقات میں خلوص ،وفا یا بے لوث طرفداری کاکوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ ضرورت اور مفادکے تابع تعلقات میں اُتارچڑھائو آتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی قیادت میں تشکیل پانے والے نیٹو اتحاد میں شامل کئی ممالک کی پالیسیوں اور جھکائو میں تضاد ہے۔ ترکیہ نیٹومیں شامل ہے مگر جب امریکہ اور روس میں انتخاب کی بات آئے تو ترکیہ کاجھکائو روس کی طرف ہو تا ہے۔ علاوہ ازیں کئی اہم یورپی ممالک امریکی پالیسیوں کے ناقد ہیں ٹرمپ ٹیرف سے نہ صرف دنیا کی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے ۔بلکہ کئی اہم امریکی اتحادی دور ہوئے ہیں۔ اِن حالات میں پاکستانی قیادت نے طے کرنا ہے کہ ملک کا مفاد مدِ نظررکھناہے یا بددستور پُرانی ڈگر پر چلنا ہے۔ امریکہ تو یہی چاہے گا کہ پاکستان اُس کے مفاد سے ہم آہنگ خارجہ پالیسی بنائے لیکن پاک چین دوستی ایک ایسی حقیقت ہے جو پاکستان کی اولیں ترجیح بن چکی ہے۔ پاکستان تجارت کے فروغ کے لیے ایسے نئے راستے تلاش کررہا ہے جوچینی بلاک کاحصہ ہیں روس اور اُس سے الگ ہونے والے ممالک بیلا روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے پاکستان تعلقات کوفروغ دے رہا ہے ۔
پاکستان کو معاشی مسائل سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی نئی منڈیاں تلاش کی جائیں جو نفع بخش ہوں امریکی ٹیرف کے بعد تو یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ چند ایک ملک پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے مفاد میں نئی تجارتی حکمتِ عملی بنائی جائے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا دوروزہ سرکاری دورہ بیلا روس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اِس دورے سے دوطرفہ تعلقات کو نئی جہت ملے گی کیونکہ تجارت،دفاع سمیت الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور غذائی تحفظ کے معاہدے طے پائے ہیں ۔ڈیڑھ لاکھ پاکستانی ہنر مندوں کوبیلا روس بھجوانے پر بھی اتفاق کیا گیا ۔گزشتہ برس نومبر میں بیلا روس کے صدر الیگزینڈرلوکاشنکو نے 68رُکنی وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا وفد میں کاروباری افراد کے ساتھ اہم صنعت کاربھی شامل تھے ۔یہ وہ وقت تھا جب غیر ملکی صدر کی آمد کا خیال کیے بغیر تحریکِ انصاف نے اپنے بانی کی رہائی کے لیے حکومت پر دبائو بڑھاتے ہوئے اسلام آبادپر چڑھائی کردی جس سے خطرہ پیداہوگیا کہ شایدسیاسی عدمِ استحکام کی وجہ سے مہمان صدرکا دورہ ناکام رہے اور وابستہ توقعات پوری نہ ہو سکیں مگر سویلین اور مقتدرہ نے یکسو ہو کر نہ صرف دارالحکومت کا امن و سکون بحال کیا بلکہ اچھی مہمان نوازی بھی کی جس سے تواقعات سے بڑھ کر نتائج ملے ۔صرف پانچ ماہ بعد ہی شہباز شریف کا دورہ بیلا روس ثابت کرتا ہے کہ دونوں ممالک وسیع شراکت داری پر متفق ہیں اور اِس دوران کسی رکاوٹ کوخاطر میں نہ لانے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ اِس حوالے سے دونوں ممالک میں ایک روڈ میپ پر اتفاق ہو چکا ہے ۔امکان ہے کہ جلدہی دونوں میں بڑا تجارتی معاہدہ ہوسکتاہے جس سے دونوں ملک ایک دوسرے کے مزیدقریب آجائیں گے ۔
روس سے الگ ہونے والے اکثر ممالک کے پاس گرم پانیوں کی کوئی بندرگاہ نہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستانی بندرگاہیں اُن کی ضرورت پورا کرسکتی ہیں۔ پاکستان کا شمارایسے اولیں ممالک میں ہوتا ہے جنھوں نے روس سے علیحدہ ہونے والے بیلا روس کو 1991 میں ایک الگ اور خودمختار ملک تسلیم کیا لیکن دونوں ممالک کا تجارتی حجم کچھ زیادہ نہیں ۔محض پانچ کروڑ ڈالرز کے قریب ہے ۔2023 میں پاکستان نے بیلا روس کو سواتین لاکھ ڈالرز کا سامان بیچا جبکہ دوکروڑڈالرز کا سامان درآمد کیا۔دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ ہیں۔ علاقائی تجارت کے فروغ جیسے معاہدوں کا حصہ ہونے کے باوجود دوطرفہ تجارت کا حجم بہت کم ہے لیکن جتنابھی ہے تجارتی توازن بیلا روس کے حق میں ہے پاکستان سے بیلا روس پھل،گوشت،جوتے ،چمڑا،سرجیکل سامان،فوٹو گرافی کا سامان اور اناج کی مختلف اقسام درآمد کرتا ہے۔ گوشت اور سرجیکل سامان کی برآمدات میں معمولی سی کوشش سے خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔ بیلا روس سے پاکستان ٹریکٹر اور اُس سے متعلقہ پُرزہ جات سمیت مختلف قسم کی مشینری درآمد کرتا ہے ۔اب تو الیکٹرک بسوں اور ٹریکٹروں کی مشترکہ تیاری کے معاہدے طے پا چکے ہیں جس سے مزید تجارتی توازن بیلا روس کے حق میں ہوجائے گا گزشتہ چند برسوں کے دوران بیلا روس کی پاکستان کو برآمدات میں کمی ہوئی ۔اِس کے باوجود اب بھی پاکستانی برآمدات کے مقابلے میں زیادہ ہیں نئی تجارتی منڈیوں کا پاکستان کو تبھی فائدہ ہو سکتا ہے جب پاکستان کے پاس وافر برآمدی سامان ہو جو موجودہ حالات میں مشکل ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ چینی سامان کی طرح پاکستان دیگر ممالک کے سامان کی منڈی بننے جارہا ہے اِس طرح ملک کے معاشی مسائل کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ اگر پاکستان کے معاشی ارسطو سوچتے ہیں کہ برآمدی خسارے پر وہ ہُنر مند افرادی قوت بھجواکر قابو پالیں گے تو یہ ممکن نہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان برآمدی مصنوعات بڑھاکر تجارتی خسارہ ختم کرے۔
اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان کو اہم محل وقوع کی وجہ سے کوئی ملک نظر انداز نہیں کر سکتا۔ خشکی میں گھرے ممالک کے لیے پاکستان کی بندرگاہیں بہت اہم ہیں لیکن تجارتی راہداری دیکر محصولات حاصل کرنے کے ساتھ جب تک پاکستان اپنی برآمدات میں معقول اضافہ نہیں کرتا تب تک معاشی مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا قرضوں کے بوجھ کو ختم کرنے کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے۔ عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں بیلا روس سے طے پانے والے معاہدے بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن یہ اُس وقت تک بے فائدہ رہیں گے جب تک برآمدات میں اضافہ نہیں ہوتا۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک کو غیر ملکی سامان کی منڈی بنانے کی بجائے پیداواری شعبے کی استعداد میں اضافے پر توجہ دے اور ہُنر مند افرادی قوت کو بیرونِ ملک بھیجنے کی حوصلہ افزائی نہ کرے بلکہ ملکی صنعتوں کورواں رکھنے کے لیے تعلیمی نصاب میں ایسی تبدیلیاں لائے جس سے ہُنر مندتعلیم کو فروغ ملے موجودہ حالات میں تو ملکی صنعتوں کے لیے بھی ہُنر مندافرادی قوت کا فقدان ہے ۔اِس کے باوجود اگر بیرونِ ملک بھیجنے کی حوصلہ افزائی کی گئی تو خدشہ ہے کہ بہتر آمدن کے خواب کو تعبیردینے کے لیے سبھی ہُنرمند بیرونِ ملک جانے کی تگ ودومیں لگ جائیں گے جس سے ملکی صنعتوں کاپہیہ جام ہوسکتاہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں! وجود بدھ 16 اپریل 2025
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں!

پاک بیلا روس معاہدے وجود بدھ 16 اپریل 2025
پاک بیلا روس معاہدے

بھارت میں اقلیتیں مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں وجود بدھ 16 اپریل 2025
بھارت میں اقلیتیں مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں

ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد کی وفات وجود منگل 15 اپریل 2025
ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد کی وفات

وقف ایکٹ کی مخالفت کرنے والوں پر شکنجہ وجود منگل 15 اپریل 2025
وقف ایکٹ کی مخالفت کرنے والوں پر شکنجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر