وجود

... loading ...

وجود

وقف ایکٹ کی مخالفت کرنے والوں پر شکنجہ

منگل 15 اپریل 2025 وقف ایکٹ کی مخالفت کرنے والوں پر شکنجہ

معصوم مرادآبادی

 

وقف ترمیمی قانون کے خلاف مسلمانوں کا غم وغصہ بڑھتا ہی چلاجارہا ہے ۔ کشمیر سے کنیا کماری تک مسلمان سراپا احتجاج ہیں اور وہ اس قانون کو واپس لینے تک احتجاج جاری رکھنے کا قصد کئے ہوئے ہیں۔ ملک کی سبھی ریاستوں میں مظاہرے اور احتجاجی دھرنے ہورہے ہیں۔گزشتہ جمعہ کو بھی نماز جمعہ کے بعد ممبئی، کلکتہ، لکھنؤ، حیدرآباد، سری نگر اور جے پور میں مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس قانون کو واپس لے جس سے مسلمانوں کے دستوری و مذہبی حقوق پامال ہوئے ہیں۔مظاہرین نے اس سیاہ قانون کی واپسی تک احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ واضح رہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے پہلے مرحلہ میں 10/اپریل سے 7/جولائی 2025 تک مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف ملک گیر احتجاج کو دیکھ کر2020میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شروع کی گئی بے نظیر مہم کی یاد آتی ہے ، جس نے حکومت کے ہاتھ پاؤں پھلا دیئے تھے اور اس تحریک کو کچلنے کے لیے اس نے تمام غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات کا سہارا لیا تھا۔ اب ایک بار پھر سرکاری مشنری اسی انداز میں سرگرم دکھائی دے رہی ہے ۔
ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ان لوگوں کو لاکھوں روپے کے نوٹس جاری کئے گئے ہیں جنھوں نے وقف ترمیمی بل کے خلاف اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کرتے ہوئے پرامن احتجاج کیا تھا۔سرکاری مشنری اور پولیس کے ہاتھ اس حدتک پھولے ہوئے ہیں کہ اس نے ان لوگوں کو بھی نہیں بخشا ہے جنھوں نے الوداع کی نماز میں اپنے بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھی تھیں۔ مغربی یوپی کے شہر مظفر نگر میں ایسے 300لوگوں کو نوٹس بھیج کرکہا گیا ہے کہ وہ آئندہ 16/اپریل کو عدالت میں حاضر ہوں۔ اتنا ہی نہیں ان لوگوں کو دودو لاکھ روپے کے مچلکہ کا بھی پابند کیا گیا ہے ۔ان لوگوں پر ماحول خراب کرنے ، دوسروں کو اکسانے اور امن کو بگاڑنے جیسے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔واضح رہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مسلمانوں سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے الوداع کی نماز اپنے بازوؤں پر کالی پٹی باندھ کر ادا کریں۔اس اپیل کا ملک گیر سطح پر اثر ہوا، لیکن اب اترپردیش پولیس نے ایسے لوگوں پر شکنجہ کسنا شروع کردیا ہے جنھوں نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کی اپیل پر عمل کرتے ہوئے اپنے بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھی تھیں۔متاثرین کا کہنا ہے کہ انھوں نے کسی قسم کے تشدد یا اشتعال انگیزی میں حصہ نہیں لیا، اس کے باوجود ان کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے ۔ پولیس نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ معروف سماجی کارکن عظمیٰ پروین اور مشہور شاعر منور رانا مرحوم کی بیٹی سمیہ رانا کو بھی دس دس لاکھ کا نوٹس دیا گیا ہے ۔سمیہ رانا نے جب اس غیرآئینی نوٹس کو وصول کرنے سے انکار کیا تو اسے واٹس ایپ کے ذریعہ ان تک پہنچایا گیا۔ سمیہ رانا کا کہنا ہے کہیوپی پولیس کی تانا شاہی حد سے تجاوز کرچکی ہے ۔نوٹس پوری طرح غیرقانونی اور غیرآئینی ہے ، ہم اس کے خلاف ہائی کورٹ جائیں گے ۔سبھی جانتے ہیں کہ وقف ترمیمی ایکٹ کے معاملے میں گیند اب ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے پالے میں ہے ۔سپریم کورٹ میں اب تک اس بل کے خلاف ایک درجن سے زائد عرضیاں دائر کی جاچکی ہیں، جنھیں قبول کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے آئندہ 15/اپریل کی تاریخ مقرر کی ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ایکٹ کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں پر حکومت نے کیوٹ داخل کرکے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں کسی بھی قسم کا حکم جاری کرنے سے پہلے اس کا موقف بھی سناجائے ۔
حکومت اس متنازعہ قانون کو نافذ کرنے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک زور لگارہی ہے ۔ نہ صرف سرکاری مشنری اس میں پوری طرح سرگرم ہے بلکہ سنگھ پریوار کی مختلف تنظیمیں بھی اس کام میں مصروف ہیں۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی طرح یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ حکومت نے وقف ایکٹ میں ترمیم کرکے مسلمانوں کے حق میں انقلابی قدم اٹھایا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ خود وزیراعظم نریندر مودی نے ایک انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ ”وقف (ترمیمی) ایکٹ سماجی انصاف کی سمت میں ان کی سرکار کی طرف سے اٹھایا گیا ایک ٹھوس قدم قراردیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘وقف کا پرانا قانون 2013میں زمین مافیاؤں اور انتہا پسند مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ میں اس موضوع پر ہوئی بحث کے دوران’تشٹی کرن’کی سیاست دیکھنے کو ملی۔”وزیراعظم نے اسی پر ہی بس نہیں کیا بلکہ انھوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ ‘1947میں ملک کی تقسیم کے پیچھے بھی اسی طرح کا رویہ تھا، جب کانگریس کے کچھ لیڈروں نے کٹر پنتھی نظریہ کو بڑھاوا دیا، حالانکہ عام مسلمان اس سے متفق نہیں تھے ۔”
وزیراعظم کے مذکورہ بیان پر ایک طویل تبصرہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ انھوں نے ایک ہی سانس میں کئی ایسی باتیں کہی ہیں جو کسی بھی طرح درست نہیں ہیں۔ ہم یہاں صرف ان کے اس بیان کا جواب دینا چاہیں گے جس میں انھوں نے 2013 کے وقف ترمیمی ایکٹ کو انتہاپسند مسلمانوں اور زمین مافیا کو خوش کرنے والی بات کہی ہے ۔ 2013کے وقف ایکٹ میں جو ترمیمات کی گئی تھیں ان میں اور موجودہ ترمیمات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ ترامیم وقف سے متعلق تمام لوگوں سے صلاح ومشورہ کرکے کی گئی تھیں جبکہ وقف ایکٹ 2025پوری طرح ایک جابرانہ ایکٹ ہے جس میں نہ تو مسلمانوں کے کسی گروپ سے کوئی صلاح مشورہ کیا گیا ہے اور نہ ہی وقف کے ماہرین سے کوئی رائے لی گئی ہے ۔ یہ ایک طرح سے مسلمانوں پر تھوپا گیا جابرانہ قانون ہے جس میں وقف کی روح پوری طرح فنا کردی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے پورے ملک میں مسلمان اس ایکٹ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ حکومت ان لوگوں کوہر ممکن طریقہ سے ہراساں کرنے کی کوشش کررہی ہے جو اس جابرانہ قانون سازی کے خلاف پرامن احتجاج کررہے ہیں۔ملک کا قانون ہر شہری کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے جمہوری طریقوں سے پرامن احتجاج کرے ، لیکن بی جے پی سرکاروں میں جمہوریت کا کس حدتک گلا گھونٹ دیا گیا ہے ، اس کا اندازہ اترپردیش سرکار کے ان جابرانہ اقدامات سے ہوتا ہے ، جو وہ وقف ایکٹ کے خلاف بلند ہونے والی آوازوں کو کچلنے کے لیے کررہی ہے ۔گویا اس ملک میں اب اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا بھی ایک جرم ہوگیا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی جمہوری ملک میں نہیں بلکہ کسی آمریت کے باشندے ہیں جہاں سانس لینے کے لیے بھی حکومت کی اجازت درکار ہوگی۔
گزشتہ چندروز کے دوران اترپردیش پولیس اور سرکاری مشنری کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیں تو واضح ہوگا کہ ہم ایک تاریک سرنگ میں داخل ہوچکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے درست ہی کہا ہے کہ اترپردیش میں قانون کی حکمرانی کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے ۔ حالانکہ سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ پولیس مظالم سے متعلق ایک دوسرے مقدمہ میں آیا ہے ، لیکن اگر آپ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والوں کے ساتھ اترپردیش پولیس کے ظالمانہ اور قطعی غیر جمہوری اقدامات کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ وہاں پولیس واقعی پوری طرح بے لگام ہوچکی ہے اور اس نے قانون اور آئین کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد کی وفات وجود منگل 15 اپریل 2025
ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد کی وفات

وقف ایکٹ کی مخالفت کرنے والوں پر شکنجہ وجود منگل 15 اپریل 2025
وقف ایکٹ کی مخالفت کرنے والوں پر شکنجہ

زعفرانی لینڈ مافیا :مندر، مسجد،گرجا اور بودھ وہار کو خطرہ وجود پیر 14 اپریل 2025
زعفرانی لینڈ مافیا :مندر، مسجد،گرجا اور بودھ وہار کو خطرہ

بھارت میں وقف قوانین کے خلاف ملک گیر تحریک وجود پیر 14 اپریل 2025
بھارت میں وقف قوانین کے خلاف ملک گیر تحریک

عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے وجود اتوار 13 اپریل 2025
عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر