وجود

... loading ...

وجود

جبرکے ہاتھوں مرنے والے کی روحیں کبھی سکون نہیں پاتی!

هفته 12 اپریل 2025 جبرکے ہاتھوں مرنے والے کی روحیں کبھی سکون نہیں پاتی!

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔

پراگ میں پیتل سے بنے مجسمے ایک ترتیب میں رکھے گئے ہیں ۔نڈھال ، سر تسلیم خم ، پر یشان حال اور شکستہ بدن ، پہلا مجسمہ صحیح سالم مگر آگے یہ ہی شخص کٹتے کٹتے معدوم ہوجاتاہے۔ آخر میں اس شخص کاصرف پائوں رہ جاتاہے ۔ان مجسموں کے خا لق اوبرام زوک ہیں ، یہ مجسمے ماضی میں چیک ری پبلک میں ہونے والی جبر کی کہانی سنارہے ہیں ۔دو لاکھ سے زیادہ افراد گرفتار ہوئے اور 4500جیلوں میں دم توڑ گئے۔ تقریبا ایک لاکھ 70ہزار افراد کو جلا وطن کیاگیا۔ 248 افراد کو پھانسیاں اور 327کو فرار ہونے کی کوشش کے دوران گولیاں ماری گئیں ۔جبر کی کہانی نہ گونگی ہوتی ہے اور نہ ہی لنگڑی۔ وہ نہ صرف بولتی رہتی ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ چلتی بھی رہتی ہے ۔وہ کہانی چاہے قبل از مسیح کی ہو یاماضی قریب کے یا موجود ہ دورکی ، وہ اپنا سفر برابر جاری رکھتی ہے اور اپنی کہانی سناتی رہتی ہے اس کو روک دینا انسان کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ اس کہانی کے کردار کبھی نہیں مرتے ہیں وہ برابر اپنی کہانی سناتے رہتے ہیں برابر روتے رہتے ہیں ۔برابر چلاتے اور چیختے رہتے ہیں ۔اس لیے کہ ان کی تکلیف اور اذیت ختم ہی نہیں ہوپاتی ہے ۔ یہ سفر اس وقت تک اسی طرح جاری رہے گا جب تک وقت مرنہیں جائے گا اور جب تک وقت مر نہیں جائے گا اور جب وقت کو موت آجائے گی تب و ہ کردار خدا کے سامنے اپنی اپنی کہانی سنائیں گے۔ خدا کے سامنے روئیں گے اور پھر خدا جو فیصلہ سنائے گا وہ سب جاننے والے جانتے ہیں، جبر کے ہاتھوں مرنے والوں کی روحیں کبھی سکون نہیں پاتی ہیں، وہ اس جگہ منڈلاتی رہتی ہیں ۔اسی لیے ان جگہوں پر ایک ایسی وحشت اور دہشت طاری ہوتی ہے کہ انسان کادل وہاں سے دو ربھاگ جانے کو کرتاہے ۔
آئیں ہم اپنی جبر کی کہانی سنتے ہیں ہمارے سماج میں جبر سے مرنے والوں کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہے ۔وہ سب انسان بے وقت ، بے موت مار دئیے گئے بغیر کسی جرم اور گناہ کے وہ موت کی سزا کے حق دار قرار دئیے گئے ۔ موت کی یہ کہانی آج بھی ہمارے سماج کے شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں باربار دہرائی جارہی ہے۔ ہر محلے ، ہر گلی کو چے میں معصوم ، بے گنا ہ ، بے سبب بغیر کسی جرم کے بغیر کسی بات پر بغیر کسی قصور کے موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں۔ کوئی بھوک اور غربت کی وجہ سے کوئی بے روزگاری کی وجہ سے ،کوئی بیماری کے سبب ،کوئی روٹی کی وجہ سے، کوئی انتہاپسندی ، عدم مساوات کے ہاتھوں ، کوئی ظلم اور ناانصافی کے ہاتھوں قبر میں سلایا جارہاہے اور موت بانٹنے والے یہ سو چے سمجھے اور جانے بغیر کہ انہیں اپنی ایک ایک زیادتی ، ناانصافی ، ظلم و ستم کاحساب دنیامیں ہی دینا ہوگا ، مسلسل موت تقسیم کرنے میں مگن ہیںجب خدا کسی کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلیتاہے تو یقین جانووہ انسان عذاب میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ ایسے عذاب میں جو مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا۔ فرعون اور قارون کو مرے صدیاں بیت چکی ہیں ، ہلاکو خان ، ہٹلر ، مسولینی ، شاہ فرانس کو مرے سالوں ہو چکے ہیں لیکن وہ آج بھی عذاب کی قید میں ہیں ۔ یاد رکھیںجب کسی کانام سن کر کسی انسان کو کراہت آجائے ۔ انسان بے اختیار کسی کو بددعا کرنے لگ جائے ۔اس کے دل سے آہ و بکا کی چیخیں نکلنا شروع ہوجائیں تو یقین کرلو اس پر عذاب جاری ہے ۔ میرے ملک کے با اختیاروں ، طاقتوروں ، سرمایہ داروں ، جاگیر داروں ، امر اتمہیں دیکھ کر یا تمہارا ذکر سن کر ملک کے ناداروں ، بے کسوں ، بے بسوں ، غریبوں ، بھوکوں، بیماروں کے دل سے تمہارے لیے بددعائیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ آہ و بکائوں کا سلسلہ شروع ہوجا تاہے۔ ہاتھ خود بخود آسمان کی طرف اٹھ جاتے ہیں ، مدر ٹریسا نے ایک بار کہا تھا ” ان بیس برسوں میں لوگوں کے در میان رہ کر کام کرنے کے دوران میں اس بات کا زیادہ احسا س ہوا ہے کہ کسی انسان کا غیر ضروری ہوجانا ایسی خراب بیماری کے برابر ہے انسان کو جس کا کبھی تجربہ بھی نہیں ہوسکتا۔ انہیں یقین ہے کہ آج کل کی خراب ترین بیماری کوڑھ یا تپ دق نہیں بلکہ یہ احساس ہے کہ اس کی اب کسی کو ضرورت نہیں رہی جس کو ہر شخص بے یارو مددگا ر چھوڑدے ”۔ 1969کا نوبیل امن حاصل کرنے والے ادارے International Labor Organization کے منشور میں کہاگیا ہے ” اگر آپ امن کے خواہش مند ہیں تو انصاف کا شت کیجئے ، مگر ساتھ ہی ساتھ ایسے کھیت بھی تیار کیجئے جن میں زیادہ روٹی پیدا کی جاسکے ورنہ امن باقی نہیں رہے گا”۔ یہ اعتراف کہ بھوک اور سماجی بد نظمی ایک دوسرے سے منسلک ہیں نئی بات نہیں۔ عہد نامہ عتیق میں اس کا ثبوت موجود ہے ” اور یہ سب تو گذر جائے گا مگر جب وہ بھوکے ہوں گے تو وہ خود کو خراب کریں گے اور اپنے بادشاہ اور اپنے خدا کو بدعا ئیں دیں گے ” ۔ FAO کے پہلے ڈائریکٹر جنرل اور نوبیل انعام یافتہ لارڈ جان بائیڈآدر کے کے مشہور الفاظ تھے ” امن بھوکے شکم پر تعمیر نہیں کیاجاسکتا ” جس ماحول میں مفلسی ور محرومیوں کا راج ہو وہ امن کے لیے کبھی ساز گار نہیں ہوتا جہاں تعلیم کی اور آگاہی کی کمی ہو وہاں امن فروغ نہیں پاتا ، جبر و تشدد ، ناانصافی اور استحصال امن کے لیے زہر قاتل ہوتے ہیں مفلسی کا دکھ امیر کو کھٹاتا ہے اور مفلسی کی نجات امیر کو بڑھاتی ہے ۔اس لیے آج جو لو گ پاکستان میں طاری موت جیسی خاموشی پر مطمئن ہیں۔ ان سے زیادہ ناسمجھی کی مخلوق دنیا میں کوئی اور نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر جب کروڑو ں انسانوں میں یہ احساس اپنی جگہ بنالے کہ وہ سب کے سب غیر ضروری ہیں تو ایسے انسان چلتی پھرتی بارودی سرنگیں بن جاتے ہیں جو کہیں بھی پھٹ سکتی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جبرکے ہاتھوں مرنے والے کی روحیں کبھی سکون نہیں پاتی! وجود هفته 12 اپریل 2025
جبرکے ہاتھوں مرنے والے کی روحیں کبھی سکون نہیں پاتی!

امریکہ نے ایران کو جنگ کی دھمکی دے دی! وجود هفته 12 اپریل 2025
امریکہ نے ایران کو جنگ کی دھمکی دے دی!

اس سے زائد کچھ نہیں وجود هفته 12 اپریل 2025
اس سے زائد کچھ نہیں

غزہ کانوحہ وجود هفته 12 اپریل 2025
غزہ کانوحہ

فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے میں پاکستان کردار ادا کرے وجود جمعه 11 اپریل 2025
فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے میں پاکستان کردار ادا کرے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر