... loading ...
عطا تبسم
کراچی، پاکستان کا معاشی مرکز، حالیہ برسوں میں سیاسی کشیدگی اور ترقیاتی مسائل کا سامنا کر رہا ہے ۔متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پیپلز پارٹی (پی پی پی) شہر کی دو سیاسی جماعتیں ہیں،کراچی پر قبضے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ کراچی عجیب شہر ہے ، یہاں مینڈیٹ کسی کا ہے ، اور منتخب کوئی اور ہے ، یہاں رہنے والے شہری علاقوں کے ہیں، لیکن کراچی کے وسائل اور حکومت پر کوئی اور لوگ بٹھا دیئے گئے ہیں۔ یہاں عوام نے ووٹ جن نمائندوں کو دیے، وہ باہر ہیں، اور اسمبلیوں میں کچھ دوسروں کو نمائندگی دے کر بٹھا دیا گیا ہے ۔ اب شہر کی بلدیات پر بھی وہ جماعت قابض ہے ،جو عوامی تائید اور ووٹوں سے محروم ہے ۔کراچی قیادت سے محروم ہے ، اور اس شہرمیں کسی قیادت کو پنپنے نہیں دیا جارہا ہے ۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر، حافظ نعیم الرحمان، سے ایک امید بندھی تھی کہ وہ شہر کو ایک اچھی قیادت دیں گے ۔ دس برس کی محنت کے بعد اب حافظ نعیم الرحمان جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کے منصب پر فائز ہیں۔ فروری 2024 میں ہونے والے قومی اسمبلی انتخابات میں، کراچی کی 22 نشستوں میں سے ایم کیو ایم نے 15اور پیپلز پارٹی نے 7نشستیں حاصل کرلی تھیں۔ کیسے حاصل کیں؟ اس پر بات کرنا بھی فضول ہے ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ فارم 47 والے بھی اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ ووٹ لے کر منتخب ہوکر آئے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے کارکنوں کے درمیان جھگڑے ہوئے ، گولیاں چلیں ایک 12سالہ لڑکا جاں بحق ہوا۔ لیکن صلح کرانے والوں نے انھیں ”انسان بنو”کی جھڑکی دے کر ایک ساتھ بٹھا دیا۔جولائی 2024میں، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان ایک دوسرے پر تنقید کا جو سلسلہ جاری ہوا ہے ، اس میں تیزی آرہی ہے ۔ ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی پر شہری سندھ کے نوجوانوں کے حقوق سلب کرنے کا الزام عائد کیا، جبکہ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے اندرونی اختلافات کو اجاگر کیا۔اس بارے میں ممتاز تجزیہ کار اور صحافی وجیہ احمد صدیقی سے میں نے پوچھا کہ جھگڑا کیا ہے ؟
کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی کشیدگی اور اختلافات شہر کی ترقی اور امن و امان کی صورتحال پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔ وجیہ اس اہم مسئلہ کی طرف نشاندہی کر رہے ہیں کہ پاکستان کی وفاقی اور پنجاب حکومتوںمیں مسلم لیگ ن کی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ان دنوں اپنے ہی ووٹوں سے بنائی گی، وفاقی اور صوبائی حکومت پر تنقید کے نشتر برسا رہی ہے ۔اگرچہ پیپلز پارٹی کا پہلے دن سے یہ رویہ رہا ہے کہ وہ حکومتی امور اور پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن کی حمایت کے باوجود گاہے گاہے ایسے بیانات جاری کرتی رہتی ہے جس سے وہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ عوامی مفادات کی محافظ ہے ۔لیکن اب ان کی سیاسی حکمت عملی وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی ہے ۔ اس معاملے کا آغاز صوبہ پنجاب میں ہتک عزت بل کے صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے سے ہوا جس کو روکنے کے لیے تو پیپلزپارٹی نے کوئی کوشش نہیں کی لیکن اس بل کے منظور ہو جانے کے بعد اس پر تنقید شروع کر دی۔ پھر جب یہ بل حتمی منظوری کے لئے گورنر ہاؤس بھیجا گیا تو پیپلز پارٹی کے گورنر پنجاب سردار سلیم رخصت پر چلے گئے ۔جب اس قانون کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہوا تو پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس بل کے حوالے سے ان کی جماعت پیپلز پارٹی سے مشاورت نہیں کی گئی۔پیپلز پارٹی یہ بیانیہ بجٹ اجلاس میں بھی لے آئی ۔ اس کے سینئر رہنما سید خورشید احمد شاہ نے شکایت کی کہ بجٹ کے معاملے پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف نے شرائط طے کی ہیں تو حکومت کو ہمیں اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ بعد میں وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نے آصف زرداری کے ساتھ وفاقی بجٹ، چین کے دورے اور ملک کی مجموعی معاشی اور مالی صورت حال پر تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ پیپلز پارٹی عوام کے لیے کچھ اور ایوانوں کے اندر کچھ کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے اور جب شرجیل میمن، شیری رحمان، خورشید شاہ حکومت پر تنقید کر ر ہے ہوتے ہیں تو اعلیٰ قیادت بند کمروں میں دوسرے معاملات طے کر رہی ہوتی ہے ؟ حال ہی میں دریائے سندھ سے چھ نہروں کے نکالنے پر پیپلز پارٹی کے احتجاج میں بھی یہی پالیسی کارفرما ہے ۔ صدر زرداری نے اس منصوبے کی منظوری دی ہے ۔ لیکن قوم پرستوں کے احتجاج پر پیپلز پارٹی بھی رسمی احتجاج کر رہی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے گریڈ ایک سے 15 تک کی نوکریوں میں اندرون سندھ سے ہزاروں بھرتیاں کی ہیں۔ یہ نوکریاں فروخت بھی کی گئی ہیں۔ خالد مقبول کہتے ہیں کہ یہ 50 ہزار نوکریاں شہری سندھ کے نوجوانوں کے حقوق پر ڈاکہ ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی نورا کشتی چلتی رہتی ہے ، دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتی ہیں اور پھر کچھ وقت کے بعد خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ سلسلہ گذشتہ 20 سال سے جاری ہے ۔ اور اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک ان کے سرپرست ان کا ساتھ دیتے رہیں گے ۔