وجود

... loading ...

وجود

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا جھگڑا کیا ہے؟

جمعه 11 اپریل 2025 ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا جھگڑا کیا ہے؟

عطا تبسم

کراچی، پاکستان کا معاشی مرکز، حالیہ برسوں میں سیاسی کشیدگی اور ترقیاتی مسائل کا سامنا کر رہا ہے ۔متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پیپلز پارٹی (پی پی پی) شہر کی دو سیاسی جماعتیں ہیں،کراچی پر قبضے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ کراچی عجیب شہر ہے ، یہاں مینڈیٹ کسی کا ہے ، اور منتخب کوئی اور ہے ، یہاں رہنے والے شہری علاقوں کے ہیں، لیکن کراچی کے وسائل اور حکومت پر کوئی اور لوگ بٹھا دیئے گئے ہیں۔ یہاں عوام نے ووٹ جن نمائندوں کو دیے، وہ باہر ہیں، اور اسمبلیوں میں کچھ دوسروں کو نمائندگی دے کر بٹھا دیا گیا ہے ۔ اب شہر کی بلدیات پر بھی وہ جماعت قابض ہے ،جو عوامی تائید اور ووٹوں سے محروم ہے ۔کراچی قیادت سے محروم ہے ، اور اس شہرمیں کسی قیادت کو پنپنے نہیں دیا جارہا ہے ۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر، حافظ نعیم الرحمان، سے ایک امید بندھی تھی کہ وہ شہر کو ایک اچھی قیادت دیں گے ۔ دس برس کی محنت کے بعد اب حافظ نعیم الرحمان جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کے منصب پر فائز ہیں۔ فروری 2024 میں ہونے والے قومی اسمبلی انتخابات میں، کراچی کی 22 نشستوں میں سے ایم کیو ایم نے 15اور پیپلز پارٹی نے 7نشستیں حاصل کرلی تھیں۔ کیسے حاصل کیں؟ اس پر بات کرنا بھی فضول ہے ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ فارم 47 والے بھی اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ ووٹ لے کر منتخب ہوکر آئے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے کارکنوں کے درمیان جھگڑے ہوئے ، گولیاں چلیں ایک 12سالہ لڑکا جاں بحق ہوا۔ لیکن صلح کرانے والوں نے انھیں ”انسان بنو”کی جھڑکی دے کر ایک ساتھ بٹھا دیا۔جولائی 2024میں، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان ایک دوسرے پر تنقید کا جو سلسلہ جاری ہوا ہے ، اس میں تیزی آرہی ہے ۔ ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی پر شہری سندھ کے نوجوانوں کے حقوق سلب کرنے کا الزام عائد کیا، جبکہ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے اندرونی اختلافات کو اجاگر کیا۔اس بارے میں ممتاز تجزیہ کار اور صحافی وجیہ احمد صدیقی سے میں نے پوچھا کہ جھگڑا کیا ہے ؟
کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی کشیدگی اور اختلافات شہر کی ترقی اور امن و امان کی صورتحال پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔ وجیہ اس اہم مسئلہ کی طرف نشاندہی کر رہے ہیں کہ پاکستان کی وفاقی اور پنجاب حکومتوںمیں مسلم لیگ ن کی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ان دنوں اپنے ہی ووٹوں سے بنائی گی، وفاقی اور صوبائی حکومت پر تنقید کے نشتر برسا رہی ہے ۔اگرچہ پیپلز پارٹی کا پہلے دن سے یہ رویہ رہا ہے کہ وہ حکومتی امور اور پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن کی حمایت کے باوجود گاہے گاہے ایسے بیانات جاری کرتی رہتی ہے جس سے وہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ عوامی مفادات کی محافظ ہے ۔لیکن اب ان کی سیاسی حکمت عملی وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی ہے ۔ اس معاملے کا آغاز صوبہ پنجاب میں ہتک عزت بل کے صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے سے ہوا جس کو روکنے کے لیے تو پیپلزپارٹی نے کوئی کوشش نہیں کی لیکن اس بل کے منظور ہو جانے کے بعد اس پر تنقید شروع کر دی۔ پھر جب یہ بل حتمی منظوری کے لئے گورنر ہاؤس بھیجا گیا تو پیپلز پارٹی کے گورنر پنجاب سردار سلیم رخصت پر چلے گئے ۔جب اس قانون کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہوا تو پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس بل کے حوالے سے ان کی جماعت پیپلز پارٹی سے مشاورت نہیں کی گئی۔پیپلز پارٹی یہ بیانیہ بجٹ اجلاس میں بھی لے آئی ۔ اس کے سینئر رہنما سید خورشید احمد شاہ نے شکایت کی کہ بجٹ کے معاملے پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف نے شرائط طے کی ہیں تو حکومت کو ہمیں اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ بعد میں وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نے آصف زرداری کے ساتھ وفاقی بجٹ، چین کے دورے اور ملک کی مجموعی معاشی اور مالی صورت حال پر تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ پیپلز پارٹی عوام کے لیے کچھ اور ایوانوں کے اندر کچھ کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے اور جب شرجیل میمن، شیری رحمان، خورشید شاہ حکومت پر تنقید کر ر ہے ہوتے ہیں تو اعلیٰ قیادت بند کمروں میں دوسرے معاملات طے کر رہی ہوتی ہے ؟ حال ہی میں دریائے سندھ سے چھ نہروں کے نکالنے پر پیپلز پارٹی کے احتجاج میں بھی یہی پالیسی کارفرما ہے ۔ صدر زرداری نے اس منصوبے کی منظوری دی ہے ۔ لیکن قوم پرستوں کے احتجاج پر پیپلز پارٹی بھی رسمی احتجاج کر رہی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے گریڈ ایک سے 15 تک کی نوکریوں میں اندرون سندھ سے ہزاروں بھرتیاں کی ہیں۔ یہ نوکریاں فروخت بھی کی گئی ہیں۔ خالد مقبول کہتے ہیں کہ یہ 50 ہزار نوکریاں شہری سندھ کے نوجوانوں کے حقوق پر ڈاکہ ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی نورا کشتی چلتی رہتی ہے ، دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتی ہیں اور پھر کچھ وقت کے بعد خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ سلسلہ گذشتہ 20 سال سے جاری ہے ۔ اور اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک ان کے سرپرست ان کا ساتھ دیتے رہیں گے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے وجود اتوار 13 اپریل 2025
عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے

نیا وقف قانون:اوقافی جائیدادوں پر شب خون وجود اتوار 13 اپریل 2025
نیا وقف قانون:اوقافی جائیدادوں پر شب خون

جبرکے ہاتھوں مرنے والے کی روحیں کبھی سکون نہیں پاتی! وجود هفته 12 اپریل 2025
جبرکے ہاتھوں مرنے والے کی روحیں کبھی سکون نہیں پاتی!

امریکہ نے ایران کو جنگ کی دھمکی دے دی! وجود هفته 12 اپریل 2025
امریکہ نے ایران کو جنگ کی دھمکی دے دی!

اس سے زائد کچھ نہیں وجود هفته 12 اپریل 2025
اس سے زائد کچھ نہیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر