وجود

... loading ...

وجود

ٹرمپ ٹیرف کے اثرات

بدھ 09 اپریل 2025 ٹرمپ ٹیرف کے اثرات

حمیداللہ بھٹی

ٹرمپ ٹیرف نے دنیا کی معیشت و تجارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اِس کے اثرات مستقبل میں بھی طویل عرصے تک محسوس ہوتے رہیں گے۔ خود امریکی معاشرہ بھی ٹیرف کے حوالے سے تقسیم ہے کیونکہ معیاری اور سستے غیر ملکی سامان کی دستیابی اب ناممکن ہوجائے گی جبکہ عالمگیری اثرات کی بات کی جائے تو کئی ممالک کی معیشتیں بُری طرح متاثر ہو سکتی ہیں لیکن اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ حالات کاادراک کرتے ہوئے ٹرمپ پنے طرزِعمل پر نظر ثانی کرلیں گے تودرست نہیں کیونکہ ایسا ہونے کی ہلکی سی رمق تک نظر نہیں آتی۔ خیر کچھ ممالک جوابی ٹیرف لگا رہے ہیں تو کچھ ممالک جو امریکی دبائو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھے۔ وہ تبدیل شدہ حالات کے مطابق حکمتِ عملی بنانے میں مصروف ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے تاکہ اپنی معیشت و تجارت کو کسی بڑے نقصان سے بچایا جا سکے۔
امریکی صدر کی جانب سے ایک سوسے زائد ممالک کی درآمدات پر بھاری محصول عائد کیا جانا دنیا کے لیے ایک مشکل چیلنج ضرور ہے۔ لیکن یہ ایساچیلنج نہیں جو حل نہ ہو سکے بہتر جواب یہ ہے کہ متبادل کی تلاش پر سنجیدگی سے غور کیاجائے ۔یہ درست ہے کہ پچاس ریاستوں پر مشتمل اور 34 کروڑ نفوس کامسکن ہونے کی وجہ سے خوشحال امریکہ دنیا بھر کے لیے ایک پُرکشش ملک ہے۔ ہجرت کی بڑی وجہ بھی یہی عوامل ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال بارہ لاکھ کے قریب غیرملکی یہاں آکر آباد ہوئے۔ ملکی کرنسی ڈالرہے عالمی تجارت بھی ڈالر میں ہوتی ہے۔ لیکن اب امریکی پالیسیوں کی وجہ سے ڈالر کے بغیر عالمی تجارت کا خیال تقویت تو حاصل کررہا ہے مگر آج بھی عالمی تجارت میں ڈالر کا حصہ تہائی کے قریب ہے۔ امریکہ ایک بڑی دفاعی طاقت ہے۔ نیٹو جیسی تنظیم کی قیادت اُسے مغربی ممالک کاسرپرست ثابت کرتی ہے ۔لیکن دنیا میں ہر تنازع کا حصہ بننے کی وجہ سے گزشتہ دوعشروں سے اب اُس کی معیشت زوال کا شکار ہے جس کاحل ٹرمپ نے درآمدات پر بھاری محصولات عائد کرنے کی صورت میں تلاش کیا ہے تاکہ مقامی مصنوعات کی حوصلہ افزائی ہو نے کے ساتھ ملک کی آمدن میں نمایاں اضافہ ہو مگر ٹرمپ فیصلے سے اضطراب کا شکار دنیا امریکہ سے نہ صرف دور ہو سکتی ہے بلکہ امریکہ میں مہنگائی بھی بڑھے گی۔ جو امریکی معاشرے میں انتشار و افراتفری کا موجب ہوسکتی ہے اِس تناظر میں کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ ٹرمپ ٹیرف امریکیوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے فائدہ مند نہیں۔
پاکستانی مال کی امریکہ ایک ایسی بڑی اور پُرکشش منڈی میں شمار ہوتا ہے جس سے تجارت کا توازن ہمیشہ پاکستان کے حق میں رہتا ہے۔مالی سال 2023 میں پاکستان سے امریکہ کو5.44بلین ڈالر کی برآمدات ہوئیں جبکہ امریکہ سے درآمدات کی مالیت اِس کے نصف سے بھی کم رہی ۔گزشتہ سات عشروں سے پاکستان اپنی دفاعی ضروریات کابڑا حصہ امریکہ سے پورا کرتا ہے ۔تجارتی و دفاعی مفادات کی بنا پر ہی پاکستان نے ہمیشہ امریکی احکامات کی بجا آوری کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بھی رہا ۔مگرپاکستان سمیت دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک پر بھاری محصولات عائد کر کے ٹرمپ نے دوستانہ تعلقات کو دائو پر لگا دیا ہے۔ بلاشبہ ٹیرف سے امریکی مفادات بڑی حد تک متاثر ہو ں گے ۔29فیصد ٹیرف عائد ہونے سے امریکہ کوپاکستانی برآمدات کی حوصلہ شکنی ہونا یقینی ہے ۔لیکن اب جبکہ پاکستان دفاعی حوالے سے خود انحصاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور امریکہ کے علاوہ چین ،ترکیہ سمیت کچھ دیگرممالک سے دفاعی ضروریات پوری کرنے لگا ہے جس سے امریکی محتاجی نہ ہونے کے برابررہ گئی ہے۔ اِن حالات میںحالیہ ٹیرف امریکہ کوپاکستان کے لیے غیر اہم کر دے گااور واشنگٹن سے اسلام آبادبتدریج دور ہوسکتا ہے۔
پاکستان نے امریکی ٹیرف کے جواب میں کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کیا ،بلکہ ٹھہرائو اور تحمل کا مظاہر ہ کیا ہے۔ پاکستان کو احساس ہے کہ کوئی بھی جذباتی فیصلہ دونوں ممالک کے زوال پذیر تعلقات کوزیادہ تیزی سے ناہموار کر سکتا ہے۔ اسی لیے ٹیرف کو چیلنج کے طور پر دیکھنے کے باوجود اپنی سب سے بڑی منڈی کے ساتھ اقتصادی تعاون کو مزید گہرا کرنے کی راہیں تلاش کرنے کی جستجو میں ہے۔ اہم تزویراتی اور تجارتی شراکت دار کے وار سے محفوظ رہنے کے لیے ایک جامع جوابی منصوبے کی تیاری پرکام جاری ہے۔ اِس حوالے سے ایک ایسے ورکنگ گروپ کی تیاری کی شنید ہے جس میں سیکریٹری تجارت ،ماہرینِ تعلیم سمیت ممتاز کاروباری رہنمائوں کو شامل کیا گیا ہے تاکہ ٹیرف جیسے چیلنج کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کیے جائیںاور طویل مدتی شراکت داری کو برقراررکھنے کا راستہ تلاش کیا جائے ۔مگر اربابِ اختیار کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ٹرمپ نے تو قریب ترین اتحادی پورپی ممالک کو بھی ٹیرف عائد کرتے ہوئے نہیں بخشا۔ جنوبی ایشیا میں بھارت جو امریکی مفادات کی نگہبانی کا دعویدار ہے ،اُس پر بھی ٹیرف عائد کردیا ہے تو پاکستان سے نرمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔لہٰذا واضح اور آبرومندانہ منصوبہ بندی پر کام شروع کر دینا چاہیے۔ ہر قسم کی خوش فہمی سے نکل کر متبادل کی تلاش پر توجہ دیناہی دانشمندی ہے۔
پاکستان اپنی ٹیکسٹائل کی صنعت کی برآمدات کے حوالے سے امریکہ پر زیادہ انحصار ہے جس کے لیے حالیہ ٹیرف کسی آزمائش سے کم نہیں مگر یہ صنعت گزشتہ کئی برس سے زبوں حالی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری میں مسلسل کمی آرہی ہے ۔شاید اِسی لیے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزب نے زیادہ پریشانی کا اظہار کرنے کی بجائے توقع ظاہرکی ہے کہ ٹیرف جیسے چیلنج کے باوجود دونوں ممالک کے لیے معاشی بہتری کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ مگر وزیرِ خزانہ کے فرمودات کو مکمل طورپر حقائق پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔کیونکہ ٹرمپ ٹیرف ایسا دھکا ہے جو امریکہ سے دوست ممالک کو دور کر سکتا ہے ۔یہ موقع ہے کہ پاکستان اپنی ترجیحات کاا زسر نو جائز ہ لے اور ایک جامع حکمت عملی بنا کر ملکی معیشت و تجارت کو وسعت دے۔ امریکہ ناگزیر نہیں ۔دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جو امریکہ سے شدید اختلافات کے باوجود ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ پاکستان بھی ایک باوقار اور آزاد وخود مختار ملک کی حیثیت سے قومی مفاد کاتحفظ کرے ۔اگر ٹرمپ ٹیرف کاجواب نہیں دے سکتے تو ایک خود دار قوم کاراستہ اختیارکرنا تو مشکل نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں! وجود بدھ 16 اپریل 2025
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں!

پاک بیلا روس معاہدے وجود بدھ 16 اپریل 2025
پاک بیلا روس معاہدے

بھارت میں اقلیتیں مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں وجود بدھ 16 اپریل 2025
بھارت میں اقلیتیں مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں

ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد کی وفات وجود منگل 15 اپریل 2025
ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد کی وفات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر