وجود

... loading ...

وجود

ہزاروں کشمیری بچے اغوا

اتوار 30 مارچ 2025 ہزاروں کشمیری بچے اغوا

ریاض احمدچودھری

غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں 2016اور 2022کے درمیان5,400سے زائد بچے لاپتہ ہوگئے ہیں جن میں سے 1500سے زائد کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 2016میں 1070بچے لاپتہ ہوئے جن میں 589لڑکے اور481لڑکیاں شامل تھیں۔2017 میں کل 725 بچے لاپتہ ہوئے جن میں 431لڑکے اور 294لڑکیاں شامل تھیں۔ 2018میں 800بچے لاپتہ ہوئے جن میں 384لڑکے اور 416 لڑکیاں شامل تھیں۔ 2019میں کل 661بچے لاپتہ ہوئے جن میں 306لڑکے اور 355لڑکیاں شامل تھیں۔ 2020میں 627بچے لاپتہ ہوئے جن میں 277لڑکے اور 350لڑکیاں شامل تھیں۔ 2021میں کل 723بچے لاپتہ ہوئے جن میں 280لڑکے اور 443لڑکیاں شامل تھیں۔اسی طرح 2022میں کل 821بچے لاپتہ ہوئے جن میں 319لڑکے اور 502لڑکیاں شامل تھیں۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے مقبوضہ علاقے میں لاپتہ بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوج اور اس کی ایجنسیاں ان گمشدگیوں کی ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران بچوں کو اٹھا کر بھارت میںفروخت کرتی ہیں۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ بھارتی فوج اور پیراملٹری فورسز شبانہ چھاپوں کے دوران بچوں سمیت مکینوں کو ہراساں کرتے اوران کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے مایوس ہوکر گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے بچوں کو غیر قانونی شکل میں گرفتار کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔حراست میں لئے گئے بچوں کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کو غیر قانونی نظر بندیوں میں رکھا اور ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔متاثرہ بچوں میں سے 14 سالہ 10 ویں جماعت کے طالبعلم عفان کے والد منظور احمد غنی نے کہا ہے کہ اس کے بیٹے کو دیگر قیدیوں کے ہمراہ ایک چھوٹے سے سیل میں رکھا گیا۔ رہائی کے بعد بچے کو پورے جسم میں درد محسوس ہو رہا تھا اور اس کی پشت پر زخموں کے نشان تھے۔ کئی دن تک جیل میں رہنے کے بعد بچہ شدید ڈپریشن کا شکار تھا اور ذہنی حوالے سے اس کی حالت بے حد خراب تھی۔گیارہ دن تک پولیس کی حراست میں رہنے والے 15 سالہ عمر نے بھی بتایا ہے کہ اسے مارا پیٹا گیا اور جذباتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بھارت کی نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن نامی سول سوسائٹی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے لے کر اب تک علاقے میں 13 ہزار بچوں کو حراست میں لیا ہے۔خانپھتھ کیمپ میں تعینات 29 راشٹریہ رائفلز کے فوجی سنگھ پورہ کے علاقے میں ایک گاڑی میں گشت کر رہے تھے کہ ایک بھارتی فوجی نے ایک کمسن بچی پر بے ہودہ تبصرے کیے۔ اس لڑکی نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہوئے شور مچایا۔ اسی اثنامیں، بہت سارے لوگ جمع ہوگئے اور آزادی کے حامی اوربھارتی فوج مخالف نعرے بلند کرنے شروع کردیئے۔مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ اس فوجی کوفوری گرفتارکیا جائے۔ ایک بزرگ نے کہاکہ فحش گفتگو کے بعد ، سپاہی نے اسے دھمکی بھی دی۔ ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔
کشمیریوں کی جانب سے احتجاج کے بعد ایس ڈی پی او ظفر مہدی اور چوکی آفیسر میرگنڈ پولیس چوکی محمد اشرف کی سربراہی میں پولیس ٹیم مظاہرین کو راضی کرنے کے لئے جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ ایس ڈی پی او پتن نے کہا کہ وہ اب بھی معاملے کی تصدیق کر رہے ہیں۔کہا گیا کہ اگرچہ فوج کے سپاہی نے کچھ نہیں کیا پھر بھی کمانڈنگ آفیسر نے کمال احسان کرتے ہوئے لوگوں سے معافی مانگی اور انھیں تسلی دی۔
5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد یو پی سے بی جے پی کے رہنما وکرام سنگھ سائنی نے پارٹی کارکنوں کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ ان کے وزیراعظم مودی نے کشمیر کے راستے کھول دیے، بھارتی جنتا اور خاص طور پر مسلمان لڑکوں کو خوش ہونا چاہیے کہ اب وہ گورے رنگ کی کشمیری لڑکیوں سے شادی رچا سکیں گے۔ ایسے ہی بھارتی ریاست ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھتر نے ایک جلسے میں کہا کہ ہریانہ کی آبادی میں جنس کے تناسب کو برابر کرنے کے لیے کشمیر سے گوری لڑکیاں لے آئیں گے۔ ان کی اس بات پر جلسے کے شرکا نے ایک ٹھٹھا لگایا اور تالیاں بجائیں جیسے کشمیر کی لڑکیاں نہ ہوئیں ریوڑیاں ہیں جو جب میٹھا کھانے کا جی چاہا اٹھا لائیں گے۔اس وقت دنیا میں خواتین کے حقوق کے لیے بڑے پیمانے پر آواز بلند کی جارہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں خواتین بھارتی ریاستی دہشت گردی کا انتہائی شکار ہیں۔ قابض بھارتی فورسز کشمیری خواتین کی آبروریزی کے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ آبروریزی کے واقعات کے مجرم بھارتی فوجی آزادانہ گھوم رہے ہیں۔کشمیر میں بڑھتے ہوئے مظالم کا سب سے زیادہ اثر خواتین کی مجموعی صحت پر پڑا ہے۔ جس کی وجہ سے کشمیری عورتوں میں اولاد پیدا کرنیکی صلاحیت میں کمی ہوئی ہے اور انہیں پیچیدہ نسوانی امراض لاحق ہونے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہزاروں مظلوم و بے بس کشمیری خواتین و نوجوان لڑکیاں انہیں شدید حالات سے دوچار ہیں۔
جنوبی کشمیر میں وامہ، شوپیاں کے عوام بھارتی فوج کا نشانہ ہیں۔ شمالی کشمیر میں باندی پورا، سوپور میں بھی صورت حال مختلف نہیں۔ تشدد اور دباؤ کے نت نئے طریقے متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ شوپیاں میں گرفتار 26 سالہ نوجوان کو جیپ سے باندھ کر گھسیٹا گیا۔ راشٹریہ رائفل کیمپ میں نوجوان کو برہنہ کر کے یخ بستہ پانی میں غوطے دیے گئے۔ اس کے بعد اسے ایک بد بودار سیال مادہ پینے پر بھی مجبور کیا گیا۔ایک نوجوان کو بجلی کے کھمبے سے باندھا گیا۔ نوجوان کو تشدد کے ساتھ کرنٹ بھی لگایا جاتا رہا۔ چیل پورہ، ترن کے علاقوں میں بھی ایسی کہانیاں عام ہیں۔ نہتے اور مظلوم لوگوں نے خوف کے مارے اپنے لب سی رکھے ہیں۔ پنجورا نامی گاؤں میں لوگوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لوگ ذہنی مریض بن رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے وجود پیر 31 مارچ 2025
کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے

حق کے سر پر لٹکتا ٹرمپ وجود پیر 31 مارچ 2025
حق کے سر پر لٹکتا ٹرمپ

ترکیہ میں ہنگامہ ہے برپا؛ صدر رجب طیب اردوان کے حریف کی گرفتاری وجود پیر 31 مارچ 2025
ترکیہ میں ہنگامہ ہے برپا؛ صدر رجب طیب اردوان کے حریف کی گرفتاری

ہزاروں کشمیری بچے اغوا وجود اتوار 30 مارچ 2025
ہزاروں کشمیری بچے اغوا

خواتین پر جنسی مظالم میں اضافی اور عدلیہ کا کردار؟ وجود اتوار 30 مارچ 2025
خواتین پر جنسی مظالم میں اضافی اور عدلیہ کا کردار؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر