... loading ...
ریاض احمدچودھری
کشمیری عوام یقیناً اور بلا مبالغہ دنیا کی بہادر اور انتہائی دلیر قوموں میں سرفہرست ہیں کیونکہ گزشتہ چوہتر برسوں سے بھارتی سامراج مکا، بنیے اور بھارت کی ساڑھے سات لاکھ ظالم و سفاک فوج کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ کشمیر کا فیصلہ صرف اور صرف اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں منظور ہونے والی قراردادوںپر عمل درآمد کر کے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ ان قراردادوں کو بھارتی وزیر اعظم نہرو نے اور دنیا کے دیگر ممالک نے بھی تسلیم کیا تھا۔ مسئلہ کشمیر کے تصفیے کیلئے کسی نہ کسی موقع پر کشمیریوں کو مذاکرات میں شریک ہونا پڑے گا۔ بلکہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس مسئلے کے اصل فریق کشمیری عوام ہیں اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ حل کو ویٹو یا قبول کردیں۔ ہر دو صورتوں میں ان کی رائے کو مقدم سمجھنا ہوگا۔ اس صورتحال میں کسی متفقہ حل کی تلاش کیلئے ممکنہ حل پر مباحثہ مفید ہوگا۔ جس سے تینوں فریقوں پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کو اپنے اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنا ہوگی۔ جامع مذاکرات میں بھارت مسئلہ کشمیر پر اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرے۔ اپنی افواج کو مقبوضہ علاقے سے بلا کر ریاست کی حیثیت تبدیل کرنے پر آمادگی ظاہر کرے تبھی کسی متفقہ حل تک پہنچنا آسان ہوگا۔
خطہ کشمیر جتنا خوبصورت و حسین اور سرسبز و شاداب ہے بھارتی حکمرانوں کے دل اتنے ہی سیاہ اور تاریک سخت اور بنجر ہیں۔ بھارت حکمرانوں نے پورے خطہ کو عملاً جیل بنا کر رکھا ہے۔ قید تو قید ہوتی ہے۔ چاہے زندان میں ہو یا سونے کے پنجرے میں۔ سوکشمیری بھی اپنے وطن اور اپنے گھر میں ہونے باجود قیدیوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ کشمیریوں کو اس بات پر حیرانی نہیں ہوئی کہ حکومت بھارت نے کس طرح ان کے حقوق پر پھر ایک بار شب خون مارا بلکہ حیرانی اس بات پر ہے کہ جن سیاست دانوں نے بھارت کا پرچم گذشتہ سات دہائیوں سے ہاتھوں میں لے رکھا تھا وہ پرچم لے کر حراست میں رکھے گئے اور جب شیخ عبداللہ کے صاحبزادے اور تین بار ریاست کے وزیر اعلی فاروق عبداللہ کو نیشنل چینل پر روتے ہوئے دکھایا گیا تو اس سے اگرچہ ان کے کارکنوں میں ان کے لیے ہمدردی کا جذبہ امڈ آیا وہیں آزادی پسند مسلم آبادی میں ان کے خلاف نفرت کا ایک طوفان امڈ پڑا اور موجودہ حالات کے لیے ان کو اور ان کے خاندان کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
بھارت کے پاس ریاست جموں و کشمیر پر اپنا فوجی اور آمرانہ تسلط جاری رکھنے کے لیے جو آخری دلیل ہے وہ یہ کہ ‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس’ چونکہ میرا قبضہ ہے، میرے پاس فوجی اور مادی قوت اور طاقت ہے۔ جو لوگ میرے قبضہ کو غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر جمہوری اور انسانی آزادی کے خلاف بتاتے ہیں۔ وہ قوت، طاقت، فوج، اسلحہ اور مادی ساز و سامان کے لحاظ سے کمزور ہیں۔ اس لیے ان کی دلیل تسلیم نہیں کی جائے گی۔اسی آخری دلیل کے سہارے بھارت اس وقت ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں دندناتا پھر رہا ہے۔ وہ ظلم و جبر اور بربریت و سفاکیت کی تمام حدود کو پھلانگ چکا ہے۔ بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے بھارتی صحافی کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر بھارت کو ہرا نہیں سکتا لیکن یہ اسے کھا جائے گا۔ ہندو قوم پرستی یوگوسلاویہ اور روس کی طرح بھارت کے ٹکڑے ٹکرے کر سکتی ہے۔ بھارت کی موجودہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے تاہم مجھے امید ہے کہ بھارتی عوام بالآخر نریندر مودی اور بی جے پی کی فسطائیت کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ بھارتی عوام جس گڑھے میں گرے ہوئے ہیں وہ اس سے باہر نکل رہے ہیں۔ بھارتی عوام پر بھروسہ ہے اور انہیں یقین ہے کہ بھارت تاریک سرنگ سے ضرور نکلے گا۔
گزشتہ پانچ برسوں میں بھارت نے ایک بلوائی ملک کے طور پر شناخت پائی ہے۔ دن دیہاڑے سڑکوں اور چوراہوں میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں اور دلتوں کو سرعام کوڑے مارے۔ تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اس عمل کی ویڈیو یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دی۔ کشمیری بھارت کا حصہ کیوں بننا چاہیں گے۔ آزادی وہی ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ آزادی وہی ہے جو انہیں حاصل ہونی چاہیے۔ بھارت میں جمہوریت محض دکھاوا ہے۔ پولیس’ عدلیہ’ فوج اور تعلیمی اداروں پر ہندو انتہا پسندوں کا قبضہ ہے۔ مودی خود بھی آر ایس ایس کا حصہ ہیں۔ مودی نے بطور وزیراعظم اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔
بھارت کی ہندو انتہاپسند قوم پرست بی جے پی حکومت کا 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرنے کا فیصلہ غیر قانونی ہے اور اس کا ایسا کرنے کا فیصلہ کشمیر کے ورثے کو پارہ پارہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ مودی کی پالیسی کا مقصد کشمیر کی مذہبی اور ثقافتی شناخت اور ریاست میں صدیوں پرانی ہم آہنگی اور رواداری کو فرقہ وارانہ بنانا ہے تاکہ بی جے پی حکومت کے ہندوتوا منصوبے کے مقاصد کو آگے بڑھایا جا سکے۔ بنیادی طور پر ہندوستان کی پالیسی ڈیموگرافک تبدیلی لانے کے لیے بنائی گئی ہے۔تاکہ نئے ڈومیسائل قوانین کے ساتھ اس پالیسی کو حاصل کیا جائے جس نے آرٹیکل 35A کی جگہ لے لی۔ ان قوانین کے ساتھ بھارت نے جموں کشمیر کی سرزمین کی خرید و فروخت کو ہندوستانیوں کے لیے کھول دیا ہے۔ غیر قانونی الحاق کے بعد سے کچھ ہی برس میں تقریباً 40 لاکھ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کسی نہ کسی بہانے سے جاری کیے گئے اور وزیر اعظم مودی کی انتہاپسند قوم پرست بی جے پی 2024 کے عام انتخابات میں اتری۔وہ الگ بات ہے کہ کشمیریوں نے اسے دن میں تارے دکھا دیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔