وجود

... loading ...

وجود

اگر۔۔۔۔۔؟

جمعرات 20 مارچ 2025 اگر۔۔۔۔۔؟

ب نقاب /ایم آر ملک

میلان اٹلی کا ایک بڑا شہر ہے جس کا شمار دنیا کے گنجان آباد اور چند بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ میلان کا بجٹ ہمارے پورے ملک کے بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے، یہ شہر میٹرو پولیٹن کہلاتا ہے۔
آپ بلدیاتی نظام کے ماضی کا باب اُٹھا کر دیکھیں جس کرسی پر جنرل ریٹارڈ تنویر نقوی کے ایجاد کردہ نئے ضلعی نظام کے تحت ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ ناظمین یا بڑے شہروں میں سٹی ناظمین کو متمکن کیا گیا اِس کرسی پر میئر بیٹھا کرتا تھا اور بڑے شہروں کا کنٹرول عوام کے منتخب نمائندے میئر کے ہاتھوں میں تھا ،لوکل گورنمنٹ کے ہاتھوں تکمیل پانے والے تمام عوامی ترقیاتی منصوبہ جات کی منظوری اِن میئرز کے احکامات کی مرہون ِ منت ہوا کرتی ۔
میٹرو پولیٹن میلان بھی عوامی ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ایک میئر کے احکامات کی دسترس میں تھا جو خود نہ صرف کرپٹ تھا بلکہ اپنی کرپشن کی خاطر اُس نے ایک مخصوص گروہ رکھا ہوا تھا ،اِس کثیر الآباد شہر کے تمام ترقیاتی منصوبہ جات کی تعمیرات کے ٹھیکہ جات میئر کے منظور ِ نظر اِس گروہ کو ملتے ،چونکہ اِس گروہ کی پشت پر میئر کا ہاتھ تھا اِس لیے یہ گروہ تعمیراتی منصوبہ جات میں ناقص اور غیر میعاری مٹیریل کا دھڑلے سے استعمال کرتا اور کرپشن کی مد میںکروڑوں روپے میئر کی جیب میں جاتے، اِنہی منصوبہ جات میںمیئر کے اِس مخصوص گروہ کو ”نرسنگ ہوم ” کی تعمیر کا کنٹریکٹ ملا ،کام شروع ہوا اور چند روز میں مطلوبہ عمارت کھڑی ہو گئی۔
میئر کی ہدایت پر رشوت کی چمک پر انجینئرز آئے ،نرسنگ ہوم کی تعمیر میں استعمال ہونے والے میٹیریل کی کوالٹی کو چیک کیا اور عمارت کے اوکے ہونے کی سند جاری کردی ،نرسنگ ہوم کو تعمیر ہوئے ابھی چند روز ہوئے تھے ناقص مٹیریل اور کرپشن نے اپنا رنگ دکھایا پوری عمارت زمین بوس ہو گئی اور معصوم بچوں کی کثیر تعداد نیچے دب کر زندگی کی بازی ہار گئی، ہمارے ہاں یہ روایت نہیں مگر یورپ کے عوام آج بھی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر سراپا احتجاج ہوتے ہیں ،شاہرات پر نکل آتے ہیں میلان میں بھی انسٹی ٹیوشن نے کرپشن کے خلاف ری ایکٹ کیا، کارپوریشن کے ایک مجسٹریٹ نے از خود نوٹس لیا اور اتنے بڑے سانحہ پر میئر سے جواب طلب کرتے ہوئے لکھا کہ میئر آکر وضاحت کرے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا ؟
اٹلی کے اتنے بڑے شہر کے میئر اور کارپوریشن کے مجسٹریٹ کے اختیارات میں واضح فرق تھا نوٹس میلان کے میئر کو موصول ہوا تو اُس کا غصہ دیدنی تھا اُس نے نوٹس کو پھاڑ کر پھینک دیا اور مجسٹریٹ کو جواباً لکھا کہ مجھے نوٹس بھیجنے والے تم کون بے وقوف ہو ؟مجسٹریٹ محب ِ وطن تھا ،اخلاقی دبائو آڑے آیا تو اگلے مرحلے پر اُس نے میئر کے وارنٹ جاری کر دیئے ،میئر چونکہ کرپٹ مافیا کا ہیڈ تھا اِس لیئے غصے میں آگیا اور ایم پی سے کہا مجسٹریٹ کا ٹرانسفر کر دو، ایم پی نے ٹرانسفر کیا تو میڈیا تاک میں تھا فوراً سارا حوال میڈیا پر آگیا، میلان کے عوام کو جب میڈیا کے ذریعے اصل حقیقت کا ادراک ہوا تو مجسٹریٹ کی مدد کیلئے فوراً میلان کی شاہراہوں پر نکل آئے، سراپا احتجاج عوام کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ مجسٹریٹ کا فیصلہ مبنی بر انصاف ہے ،میئر معصوم بچوں کا قاتل ہے، اُسے سزا دی جائے، احتجاج نے تحریک کی شکل اختیار کر لی، میئر کو گرفتار کرنا پڑا اُس کا اور اُس کے گروہ کا جرم ثابت ہو گیا اور اُنہیں جیل ہو گئی۔ کرپشن کے خلاف میلان شہر سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک اِٹلی کے گلی کوچوں تک جا پہنچی ،عدلیہ کو ہمت ہوئی اور کرپشن کے جرم میں اِٹلی کے 12وزرائے اعظم اور چار سو ایم پیز پابندِ ِ سلاسل ہوئے۔یہ انسٹی ٹیوشنل ری ایکشن تھا۔
مجھے اِٹلی کے عوام کا احتجاج ،انسٹی ٹیوشنل ری ایکشن اور عدلیہ کے کٹہرے سے سزا یافتہ 12وزرائے اعظم اُس وقت یاد آئے جب 26ویں غیر آئینی ترمیم کا کلہاڑا چلا کرعدلیہ کے مد مقابل ایک جعلی عدلیہ کا وجود قائم کیا جارہا تھا ،مجھے اٹلی کے عوام کا احتجاج اس وقت یاد آیا جب فروری کے الیکشن میں عوام کی عدالت سے عبرت ناک شکست خوردہ ٹولے کو عوام کا حق خودارادیت قتل کرکے اقتدار کی کرسیوں پر بٹھایا جارہا تھا ،عوام کے مجرموں کوبادشاہت دیکر عوامی ووٹ کی طاقت کو ہوا میں اُڑا دیا گیا میں سوچنے لگا کہ عین اس وقت جب عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہی تھی خود عوام کو شاہرات پر ہونا چاہیے تھا۔ اگر عوام اس وقت سراپا احتجاج ہوتے جب 90روز میں الیکشن کرانے کے احکامات پر حکمرانوں کی طرف سے عمل درآمد نہ کرنے پرآئین پاکستان کی شکل مسخ کی گئی ،اگر عوام چادر اور چار دیواری کی پامالی ،بے گناہ افراد کو جھوٹے مقدمات پر پابند سلاسل کرنے پر شاہرات پر نکل آتے تو حالات اس نہج پر کبھی نہ پہنچتے ۔اگر موجودہ حکمرانوں کے خلاف انسٹی ٹیوشنل ری ایکشن ہوتا تو آئے روز پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ نہ ہوتا ،مہنگائی کا عفریت بیروز گاروں کی زندگیاں نہ نگلتا ،حکمران بے گناہوں کی گرفتاری پر دندناتے ہوئے نہ پھرتے ،اقتدار کی تنخواہ دار سپاہ کی طرف سے عوام کی آخری امید گاہ “عدالت عظمٰی”کے عوام دوست اقدامات پر اسے آئینی حدود میں کام کرنے کا مضحکہ خیزمشورہ نہ دیا جاتا ،اگر عوام اپنے اوپر مسلط ہونے والی 17سیٹوں والی حکمرانی اور 180سیٹیں جیتنے والی لیڈر شپ کے پابند سلاسل ہونے پر گھروں کی دہلیز پار کر لیتے تو عوامی فیصلے کی توہین کرنے کی جرات کوئی نہ کرتا ۔یہ سارے کارن محض اِس لیے ہوئے کہ اپنے حقوق کی پامالی پر عوام خاموش ہو کر بیٹھ گئے ،اور عوامی ووٹ کی طاقت کو پامال کرنے والے اقتدار کی اندھی طاقت میں عدلیہ کے ہر فیصلے کو روندتے چلے گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
زندگی کی چھوٹی خوشیوں کو بڑے دل سے منائیں وجود جمعرات 20 مارچ 2025
زندگی کی چھوٹی خوشیوں کو بڑے دل سے منائیں

اگر۔۔۔۔۔؟ وجود جمعرات 20 مارچ 2025
اگر۔۔۔۔۔؟

بھارت خواتین کیلئے غیر محفوظ ملک وجود جمعرات 20 مارچ 2025
بھارت خواتین کیلئے غیر محفوظ ملک

چولستان منصوبہ:فوائداورخدشات وجود جمعرات 20 مارچ 2025
چولستان منصوبہ:فوائداورخدشات

ڈونلڈ ٹرمپ کا معاشی جنگ کا اعلان ! وجود جمعرات 20 مارچ 2025
ڈونلڈ ٹرمپ کا معاشی جنگ کا اعلان !

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر