... loading ...
ریاض احمدچودھری
جعفر ایکسپریس پر حملے سے متعلق بھارتی میڈیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے جعلی ویڈیوز بنا کر زہر اگلنے لگا۔ دفاعی ماہرین نے کا کہنا ہے کہ بھارتی ٹی وی چینلز نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی خبر عالمی سطح پر کالعدم قرار دی گئی دہشت گرد تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بریک کی۔ بھارتی ٹی وی چینلز حسبِ روایت مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے بنی ویڈیوز، پرانی ویڈیوز اور تصاویر کا سہارا لے کر پروپیگنڈا کرتے رہے۔
ایک جعلی ویڈیو 2022 کی ایک فلم کے سین کا حصہ ہے، جسے جعفرایکسپریس حملے سے ملایا جارہا تھا۔ بھارتی میڈیا کے اس بے بنیاد پروپیگنڈے میں بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ مخصوص سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھرپور طریقے سے حصہ لے رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا ریسکیو آپریشن میں مصروف افواجِ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کررہا ہے۔
جعفر ایکسپریس پر حملے کی خبر کالعدم تنظیم بی ایل اے کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بریک ہوئی، جسے بھارتی اکاؤنٹس نے پھیلایا۔ اْس کی عبارت بی ایل اے اور را کے آلہ کار لکھ رہے ہیں، پاکستان مخالف طاغوتی قوتیں غیر ملکی آقاؤں کے ہاتھوں استعمال ہو کر ملک کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرکے اپنے ہی ملک کی منفی تصویر کشی کر رہی ہیں۔ بھارتی میڈ یا پاکستان کے خلاف مسلسل جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔ اس پروپیگنڈے میں بھارتی اخبارات بھی اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے متعلق عالمی سطح پر بھارتی میڈیا نے اتنا شور مچایا کہ گماں ہونے لگا کہ دنیا ایک چلتے ہوئے ٹائم بم کے اوپر رکھی ہے جو کسی بھی وقت پھٹے گا اور دنیا تباہ ہو جائے گی۔ کہا گیا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار عنقریب دہشت گردوں کے قبضے میں چلے جائیں گے اور یورپی اقوام صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی۔ حالانکہ بھارت میں یہ حال ہے کہ وہاں یورینیم کباڑیے کے ہاں فروخت ہو رہا ہے اور بھارتی ایٹمی ہتھیار برائے فروخت ہیں۔
یہ آج کی بات نہیں شروع دن ہی سے بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف اول فول بکتا رہا ہے۔ گورداس پور تھانے پر حملہ ہو یا ممبئی دھماکے،بھارت اپنے ملک میں ہونے والے کسی بھی سانحے کا الزام پاکستان پر لگانے کا عادی ہے۔ حتیٰ کہ بھارتی پولیس پاکستان کی طرف سے جانے والا کوئی کبوتر بھی پکڑ لے تو اسے جاسوس قرار دے دیتی ہے۔الزام تراشی کی اس خصلت میں بھارتی میڈیا ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے اور اپنے سیاستدانوں کے رہنماء کے طور پر کام کرتا ہے۔
بھارتی میڈیا اور ٹی وی چینلز کا تو یہ حال ہے کہ چند سال قبل بھارت کے ممتاز ٹی وی چینل نے حافظ سعید کے بیٹے سے متعلق جھوٹی خبر چلائی۔ خبر کی تصدیق کیے بغیر بریک کرتے رہے۔ چھ مہینے پرانی ویڈیو کو تازہ ویڈیو قرار دے کر پاکستان پر بے بنیاد الزامات کی بھرمار کردی۔بھارتی میڈیا نے الزام لگایا کہ حافظ سعید کے بیٹے طلحہ سعید نے 5 فروری 2017ء کو ایک جلسے میں کشمیری عوام کو اکسایا۔بھارتی میڈیا کے مطابق طلحہٰ سعید نے کہا کہ کشمیری عوام داؤد ابراہیم اور برہان وانی کی طرح بھارت کے خلاف جہاد کریں۔ ساتھ ہی بھارتی میڈیا نے زہریلا پروپیگنڈا کیا کہ یہ ویڈیو پاکستان میں ہونے والے جلسے کی ہے۔ تعصب کی آگ میں اندھا ہونے والا بھارتی میڈیا اگر تحقیق کی زحمت کرتا تو اسے معلوم ہوجاتا کہ یہ ویڈیو پاکستان کی نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے کلگام کی تھی ۔صحافت کی اخلاقیات سے عاری بھارتی میڈیا کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ ویڈیو 5 فروری 2017ء کی نہیں بلکہ یکم ستمبر 2016ء کی تھی جو یو ٹیوب پر 16 ستمبر 2016ء کو اپ لوڈ کی گئی تھی۔اسی طرح نعرے لگانے والا شخص بھی طلحہ سعید نہیں تھا مگر ریٹنگ کی دوڑ میں اپنی ساکھ کھونے والے بھارتی میڈیا کو یہ سامنے کی چیزیں نظر نہیں آئیں اور سنی سنائی بات پر گلا پھاڑ پھاڑ کر پاکستان کے خلاف چلانا شروع کر دیا۔
بھارتی میڈیا کا ایک اور کارنامہ سن لیجئے۔ اودھم پور سے گرفتار نوجوان کو پاکستانی ظاہر کرنے کیلئے بھارتی میڈیا اور حکام کئی دن تک واویلا کرتے رہے۔ بھارتی میڈیا نے اسے اجمل قصاب ٹو کا نام دے دیا اور پھر حد کر دی گئی کہ جب گرفتار نوجوان کو فیصل آباد کا رہائشی ظاہر کیا جانے لگا لیکن بھارتی میڈیا کو ایک بار پھر اس وقت منہ کی کھانا پڑی جب ادھم پور سے گرفتار نوجوان مقبوضہ کشمیر کا ہی رہائشی نکلا۔ گرفتار نوجوان کا نام نوید تھا جو ذہنی معذور اور ضلع کولگام کا رہنے والا تھا۔ حقائق سامنے آنے پر بھارتی خفیہ ایجنسی این آئی اے نے گرفتار نوجوان کو سری نگر منتقل کر دیا ۔ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا آ رہا ہے۔ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کسی بھی واقعے کا الزام فوری طور پر پاکستان پر لگانا درست نہیں۔آئی ایس پی آر کی وضاحت کے بعد پاکستان کو بدنام کرنے کی بھارتی میڈیا کی ایک اور بھونڈی کوشش کا پردہ چاک ہوگیا اور سچائی کی روشنی نے بھارتی میڈیا کا سیاہ چہرہ بے نقاب کر دیا۔