وجود

... loading ...

وجود

اتحاد و استقامت ۔۔یوکرین اور غزہ کا فرق

منگل 18 مارچ 2025 اتحاد و استقامت ۔۔یوکرین اور غزہ کا فرق

ڈاکٹر سلیم خان

جس طرح گھنٹی بجتی نہیں ہے بجائی جاتی ہے اسی طرح دنیا جھکتی نہیں ہے جھکائی جاتی ہے ۔ اس کا تازہ مظاہرہ اس وقت ہوا جب دو دن قبل قصرِ ابیض میں آئرش وزیرِ اعظم مائیکل مارٹن سے ملاقات کے دوران ایک سوال کے جواب میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا، ”کوئی بھی کسی فلسطینی کو غزہ سے نہیں نکال رہا”۔ بس پھر کیا تھا حماس کے عہدیدارحازم قاسم نے اس بیان کو سراہتے ہوئے کہا،”اگر امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات غزہ کے لوگوں کی نقلِ مکانی کے کسی بھی خیال سے دستبرداری کی نمائندگی کرتے ہیں تو ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم (حماس) مطالبہ کرتے ہیں کہ قابض اسرائیل کو جنگ بندی معاہدے کی تمام شرائط پر عمل درآمد کرنے کا پابند بنا کر اس پوزیشن کو مزید تقویت دی جائے ”۔ امریکی صدر کے اس گھوم جاو نے اسرائیل کے ان خوابوں کو چکنا چور کردیا جو وہ حماس سے پیچھا چھڑانے اور فلسطینیوں نے نجات حاصل کرنے کی خاطر دیکھ رہا تھا۔ آج کل جس طرح اسرائیلی ایوان پارلیمان میں ہاتھا پائی کی ویڈیو وائرل ہورہی ہیں اور عدالت کے اندر نیتن یاہو کو جیسے رسوا کیا جارہا ہے اس سے اسرائیل کا وہ جعلی وقار مٹی میں مل گیا جس کی لوگ مثالیں دے کر قسمیں کھایا کرتے تھے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ تو خیر پہلے بھی کہہ چکے ہیں گوکہ ان کا منصوبہ بہتر ہے مگر وہ اس کو زبردستی نہیں تھوپیں گے اور آگے چل کر لوگ خود اس کی افادیت کا اعتراف کر لیں گے لیکن یہ شیخ چلی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا ۔ فی الحال چونکہ غزہ کے علاوہ یوکرین کا معاملہ بھی عالمی سطح پر زیرِ بحث ہے اس لیے ان دونوں کا موازنہ بین الاقوامی سیاست کو سمجھنے میں مددگار ہوسکتا ہے ۔ روس اور یوکرین فی الحال بلیوں کی مانند ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور امریکہ بندر نما ثالثی کرکے یوکرینی قیمتی معدنیات کے ذخائز پر ہاتھ صاف کرنے میں کامیاب ہورہا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روایت شکنی کے لیے مشہور ہیں ۔ انہیں غیر روایتی انداز سودے بازی کرنے کی پرانی عادت ہے ۔ پچھلی مدت کار میں انہوں نے افغانستان کے اندر اپنی فوج کی موجودگی میں قطر کے اندر طالبان سے بات چیت شروع کردی تھی اور افغانی صدر حامد کرزئی حیرت دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے تھے ۔ آگے چل کر اس کا نتیجہ یہ نکلا کر انہیں بے آبرو ہوکر اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔
ٹرمپ نے اس بار حکومت سازی کے بعد یوکرین کو کنارے کرکے روس سے مذاکرات کا آغاز کردیا اوربیچارے زیلینسکی بھی کرزئی کی طرح منہ تکتے رہے ۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے دفتر بلا کر کیمرے سامنے زیلینسکی رسوا کیا ۔ اس کے سبب عالمی پیمانے پر خصوصاً یوروپ میں زیلینسکی کے تئیں ہمدردی کی ایک لہر چل گئی اور ان کی خوب پذیرائی ہوئی ۔ امریکہ سے لوٹتے وقت ہنگری اور سلواکیہ کے علاوہ کہ جو جنگ کے بجائے بات چیت کے ذریعہ امن کے خواہاں ہیں پورا یوروپ زیلینسکی کے ساتھ کھڑا تھا ۔ عالمی و یورپی رہنماؤں نے بیانات جاری کرکے یوکرینی صدر کی حمایت کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ امریکہ سے خار کھائے بیٹھے کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو سے لے کر برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر تک اور یورپی یونین کے سربراہوں میں ارسولا وان ڈیر لیین، انتونیو کوسٹا یا بلاک کے اعلیٰ سفارت کار کاجا کالس تک سب ان کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آرہے تھے ۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون،جرمن رہنما اور ممکنہ چانسلر فریڈرش مارس،سبکدوش ہونے والے چانسلر اولاف شولز ،ہالینڈ کے وزیر اعظم ڈک شوف،پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک اورہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز یہاں تک کہ چین کے خلاف قواد اتحاد میں شامل آسٹریلیا کے وزیر اعظم انٹونی البانیز نے بھی امریکہ کے بجائے یوکرین کی حمایت کا اعلان کردیا تھا۔ ان سب نے یوکرین کے لئے غیر متزلزل حمایت کے ساتھ روس کو جارح قرار دیا ۔دنیا بھر کے مختلف رہنماوں نے اپنے اپنے منفرد انداز میں حمایت کا الگ الگ جواز پیش کیا ۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ زیلینسکی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں، ناروے کے وزیر اعظم یوناس گاہر اسٹوئرے بولے کہ آزادی کی جدوجہد میں ناروے یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے ۔فرانسیسی صدر میکرون نے یوکرینی اور امریکی ہم منصبوں کو ٹیلی فون کرکے کہا ہے کہ ہم سب کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا۔ یہ نصیحت ٹرمپ کے لیے تھی کیونکہ انہوں نے ادب واحترام کی ساری حدود و قیود کو پامال کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔
نیٹو کے سربراہ مارک روٹے کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ کو یوکرین میں دیرپا قیام امن کیلئے اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔مارک روٹے نے یوکرینی صدر سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے تعلقات کی بحالی کے لئے کوئی راستہ تلاش کرنے پر زور دیا مگر پھر یوکرین کے لیے ایک بلین ڈالر کی مدد کا اعلان بھی کردیا۔ بیچارے ہندوستان کی حالت قابلِ رحم تھی کیونکہ اس بابت وزیر اعلیٰ جئے شنکر نے جو کہا وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ یوکرینی وزیر اعظم ولادیمیر زیلینسکی کی جرأتمندی کو برطانیہ اور دیگر یوروپی ممالک نے تو خوب سراہا مگر اپنی پارلیمان میں ان کو ارکان کی حمایت نہیں مل سکی ۔ ذلت ورسوائی کے باوجود ایوان کی زبردست اکثریت امریکی تجویز کو قبول کرنے کے حق میں تھی ۔ اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ جنگ سے تھک چکے ارکان پارلیمان امن کی بڑی سے بڑی قیمت چکانے کے لیے تیار ہیں۔اس کے بعد جب یوکرین اور امریکہ کے درمیان دوسرے مرحلے کے مذاکرات جدہ میں شروع ہوئے تو یوکرینی صدر کا تحفظ و سلامتی کے تیقن پر اصرار ختم ہوگیا۔ ان اہم مذاکرات کے بعد، امریکی وزیر خارجہ نے اخبارنویسوں کو بتایا کہ یوکرین نے امریکی تجویز پر 30 دن کی جنگ بندی کو تسلیم کر لیا ہے اور روس کو اپنا پہلے نمبر کا دشمن کہنے والے زیلینسکی نے فوری طور مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی ہے ۔یوکرین کے اس طرح سپر ڈال دینے پر جس کو امریکی مثبت ردعمل کہہ رہے ہیں امریکہ کے ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرین کے لیے فوجی امداد کی بحالی کا اعلان کردیا۔ یہ نہایت مضحکہ خیزفیصلہ ہے کیونکہ جب یوکرین روس سے لڑ رہا تھا تو امداد بند کردی گئی تھی مگر اب جبکہ وہ جنگ بندی پر راضی ہوگیا ہے تو اسے ہتھیاروں کی فراہمی بحال کردی گئی ۔ ٹرمپ کا اس جنگ کے خاتمے کی امید ظاہر کرنے کے باوجود اسلحہ فراہم کرنا بتاتا ہے کہ ان کا ذہن صاف نہیں ہے ۔ٹرمپ نے پہلے تو اتحادیوں کو حیران کرتے ہوئے کیئف پر شدید دباؤ ڈالا اور ماسکو سے روابط بڑھائے ، جس کے نتیجے میں یوکرینی حکام سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے لیے آئے اورازخود فضائی اور سمندری حملوں پر جزوی جنگ بندی کی پیشکش کردی۔
امریکی صدر نے جس طرح یوکرین کو نظر انداز کرکے روس کے ساتھ پہلے دور کی مذاکرات کی اسی مانند اسرائیل کو درکنار کرکے حماس سے بات چیت شروع کردی ۔ حماس کی قیادت کے سیاسی مشیر طاہر النونو نے گذشتہ ہفتے قطری دارالحکومت میں واشنگٹن سے بے مثال، براہِ راست مذاکرات کی تصدیق کی۔ اس دوران غزہ میں حماس کے زیرِ حراست دوہری شہریت کے حامل ایک امریکی اسرائیلی کی رہائی پر توجہ مرکوز کی گئی۔ طاہر نے مزید انکشاف کیا کہ حماس کے رہنماؤں اور امریکی قیدیوں کے تعلق سے مذاکرات کار ایڈم بوہلر کے درمیان ملاقاتوں میں جنگ کے خاتمے کے لیے مرحلہ وار معاہدے پر عمل درآمد پر بھی بات ہوئی ۔ اس دوران جب امریکی صدر نے غزہ سے فلسطینیوں کی مستقل نقلِ مکانی کی تجویز سے واضح دستبرداری کا اعلان کیا تو اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے حماس کے ترجمان حازم قاسم نے ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ ”انتہائی صہیونی حق” کے نظرئیے کی ہم آہنگی سے گریز کریں۔امریکہ کی حماس سے براہِ راست بات چیت سے پورا اسرائیل چراغ پا ہوگیاکیونکہ اس کو بھی وہی جھٹکا لگا تھا جو پہلے یوکرین اور پھر یوروپ کو لگا۔
ایڈم بوہلر کے بیانات سے اسرائیلی حکام میں شدید بے چینی پیداہو گئی اور سٹرٹیجک امور کے وزیر رون ڈرمر نے ان مذاکرات کے حوالے سے بوہلر پر سخت تنقید کی۔اسرائیلی حکام کی جانب سے امریکہ اور حماس کے درمیان مذاکرات پر تنقید کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذاکرات کار ایڈم بوہلر نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے حکام کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیلی پالیسی کے تحت نہیں بلکہ امریکی مفادات کے تحت کام کر رہی ہے ۔ امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ایڈم بوہلر نے نہایت واضح انداز میں کہا کہ ‘ہم امریکہ ہیں، ہم اسرائیل کے دلال( ایجنٹ) نہیں ہیں’۔ایڈم بوہلر کے مذاکرات کا مقصد بنیادی طور پر غزہ میں قید امریکی یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانابتایا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ چند ہفتوں میں اس حوالے سے اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ایک اسرائیلی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایڈم بوہلر نے انکشاف کیا کہ حماس کے سامنے 5 سے 10 سال کے لیے جنگ بندی کی تجویز پیش کی گئی ہے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ حماس نے اس پر باضابطہ طور پر اتفاق نہیں کیا جو ناممکن ہے ۔ یوکرین اور غزہ کے درمیان یہ فرق ہے کہ یوروپ نے متحد ہوکر یوکرین کی خاطر خواہ حمایت نہیں کی اور وہ اندر سے ٹوٹ گیا نیزنتیجتاً یوکرین کے یہودی وزیر اعظم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس بیچ نیٹو سیکریٹری جنرل نے ہتھیار بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اعتراف کرلیا یوروپ کافی ہتھیار تیار نہیں کر رہاہے اور وہ روس و چین کے مقابلے میں پچھڑ گیا ہے ۔ اس کے برعکس مسلم ممالک نے متحد ہوکر غزہ حمایت کی اور اندر ہی اندر مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے جس سے امریکہ کو جھکنا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بلوچوں کے حقوق اور دہشت گردی! وجود منگل 18 مارچ 2025
بلوچوں کے حقوق اور دہشت گردی!

جعلی ویڈیوز کے ذریعے بھارتی میڈیا کا زہر وجود منگل 18 مارچ 2025
جعلی ویڈیوز کے ذریعے بھارتی میڈیا کا زہر

اتحاد و استقامت ۔۔یوکرین اور غزہ کا فرق وجود منگل 18 مارچ 2025
اتحاد و استقامت ۔۔یوکرین اور غزہ کا فرق

اندرکی تاریکیاں وجود پیر 17 مارچ 2025
اندرکی تاریکیاں

ہولی پر فساد کرانے کی سازش ناکام وجود پیر 17 مارچ 2025
ہولی پر فساد کرانے کی سازش ناکام

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر