... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
جس طرح گھنٹی بجتی نہیں ہے بجائی جاتی ہے اسی طرح دنیا جھکتی نہیں ہے جھکائی جاتی ہے ۔ اس کا تازہ مظاہرہ اس وقت ہوا جب دو دن قبل قصرِ ابیض میں آئرش وزیرِ اعظم مائیکل مارٹن سے ملاقات کے دوران ایک سوال کے جواب میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا، ”کوئی بھی کسی فلسطینی کو غزہ سے نہیں نکال رہا”۔ بس پھر کیا تھا حماس کے عہدیدارحازم قاسم نے اس بیان کو سراہتے ہوئے کہا،”اگر امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات غزہ کے لوگوں کی نقلِ مکانی کے کسی بھی خیال سے دستبرداری کی نمائندگی کرتے ہیں تو ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم (حماس) مطالبہ کرتے ہیں کہ قابض اسرائیل کو جنگ بندی معاہدے کی تمام شرائط پر عمل درآمد کرنے کا پابند بنا کر اس پوزیشن کو مزید تقویت دی جائے ”۔ امریکی صدر کے اس گھوم جاو نے اسرائیل کے ان خوابوں کو چکنا چور کردیا جو وہ حماس سے پیچھا چھڑانے اور فلسطینیوں نے نجات حاصل کرنے کی خاطر دیکھ رہا تھا۔ آج کل جس طرح اسرائیلی ایوان پارلیمان میں ہاتھا پائی کی ویڈیو وائرل ہورہی ہیں اور عدالت کے اندر نیتن یاہو کو جیسے رسوا کیا جارہا ہے اس سے اسرائیل کا وہ جعلی وقار مٹی میں مل گیا جس کی لوگ مثالیں دے کر قسمیں کھایا کرتے تھے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ تو خیر پہلے بھی کہہ چکے ہیں گوکہ ان کا منصوبہ بہتر ہے مگر وہ اس کو زبردستی نہیں تھوپیں گے اور آگے چل کر لوگ خود اس کی افادیت کا اعتراف کر لیں گے لیکن یہ شیخ چلی کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا ۔ فی الحال چونکہ غزہ کے علاوہ یوکرین کا معاملہ بھی عالمی سطح پر زیرِ بحث ہے اس لیے ان دونوں کا موازنہ بین الاقوامی سیاست کو سمجھنے میں مددگار ہوسکتا ہے ۔ روس اور یوکرین فی الحال بلیوں کی مانند ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور امریکہ بندر نما ثالثی کرکے یوکرینی قیمتی معدنیات کے ذخائز پر ہاتھ صاف کرنے میں کامیاب ہورہا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روایت شکنی کے لیے مشہور ہیں ۔ انہیں غیر روایتی انداز سودے بازی کرنے کی پرانی عادت ہے ۔ پچھلی مدت کار میں انہوں نے افغانستان کے اندر اپنی فوج کی موجودگی میں قطر کے اندر طالبان سے بات چیت شروع کردی تھی اور افغانی صدر حامد کرزئی حیرت دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے تھے ۔ آگے چل کر اس کا نتیجہ یہ نکلا کر انہیں بے آبرو ہوکر اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔
ٹرمپ نے اس بار حکومت سازی کے بعد یوکرین کو کنارے کرکے روس سے مذاکرات کا آغاز کردیا اوربیچارے زیلینسکی بھی کرزئی کی طرح منہ تکتے رہے ۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے دفتر بلا کر کیمرے سامنے زیلینسکی رسوا کیا ۔ اس کے سبب عالمی پیمانے پر خصوصاً یوروپ میں زیلینسکی کے تئیں ہمدردی کی ایک لہر چل گئی اور ان کی خوب پذیرائی ہوئی ۔ امریکہ سے لوٹتے وقت ہنگری اور سلواکیہ کے علاوہ کہ جو جنگ کے بجائے بات چیت کے ذریعہ امن کے خواہاں ہیں پورا یوروپ زیلینسکی کے ساتھ کھڑا تھا ۔ عالمی و یورپی رہنماؤں نے بیانات جاری کرکے یوکرینی صدر کی حمایت کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ امریکہ سے خار کھائے بیٹھے کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو سے لے کر برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر تک اور یورپی یونین کے سربراہوں میں ارسولا وان ڈیر لیین، انتونیو کوسٹا یا بلاک کے اعلیٰ سفارت کار کاجا کالس تک سب ان کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آرہے تھے ۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون،جرمن رہنما اور ممکنہ چانسلر فریڈرش مارس،سبکدوش ہونے والے چانسلر اولاف شولز ،ہالینڈ کے وزیر اعظم ڈک شوف،پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک اورہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز یہاں تک کہ چین کے خلاف قواد اتحاد میں شامل آسٹریلیا کے وزیر اعظم انٹونی البانیز نے بھی امریکہ کے بجائے یوکرین کی حمایت کا اعلان کردیا تھا۔ ان سب نے یوکرین کے لئے غیر متزلزل حمایت کے ساتھ روس کو جارح قرار دیا ۔دنیا بھر کے مختلف رہنماوں نے اپنے اپنے منفرد انداز میں حمایت کا الگ الگ جواز پیش کیا ۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ زیلینسکی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں، ناروے کے وزیر اعظم یوناس گاہر اسٹوئرے بولے کہ آزادی کی جدوجہد میں ناروے یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے ۔فرانسیسی صدر میکرون نے یوکرینی اور امریکی ہم منصبوں کو ٹیلی فون کرکے کہا ہے کہ ہم سب کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا۔ یہ نصیحت ٹرمپ کے لیے تھی کیونکہ انہوں نے ادب واحترام کی ساری حدود و قیود کو پامال کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔
نیٹو کے سربراہ مارک روٹے کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ کو یوکرین میں دیرپا قیام امن کیلئے اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔مارک روٹے نے یوکرینی صدر سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے تعلقات کی بحالی کے لئے کوئی راستہ تلاش کرنے پر زور دیا مگر پھر یوکرین کے لیے ایک بلین ڈالر کی مدد کا اعلان بھی کردیا۔ بیچارے ہندوستان کی حالت قابلِ رحم تھی کیونکہ اس بابت وزیر اعلیٰ جئے شنکر نے جو کہا وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ یوکرینی وزیر اعظم ولادیمیر زیلینسکی کی جرأتمندی کو برطانیہ اور دیگر یوروپی ممالک نے تو خوب سراہا مگر اپنی پارلیمان میں ان کو ارکان کی حمایت نہیں مل سکی ۔ ذلت ورسوائی کے باوجود ایوان کی زبردست اکثریت امریکی تجویز کو قبول کرنے کے حق میں تھی ۔ اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ جنگ سے تھک چکے ارکان پارلیمان امن کی بڑی سے بڑی قیمت چکانے کے لیے تیار ہیں۔اس کے بعد جب یوکرین اور امریکہ کے درمیان دوسرے مرحلے کے مذاکرات جدہ میں شروع ہوئے تو یوکرینی صدر کا تحفظ و سلامتی کے تیقن پر اصرار ختم ہوگیا۔ ان اہم مذاکرات کے بعد، امریکی وزیر خارجہ نے اخبارنویسوں کو بتایا کہ یوکرین نے امریکی تجویز پر 30 دن کی جنگ بندی کو تسلیم کر لیا ہے اور روس کو اپنا پہلے نمبر کا دشمن کہنے والے زیلینسکی نے فوری طور مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی ہے ۔یوکرین کے اس طرح سپر ڈال دینے پر جس کو امریکی مثبت ردعمل کہہ رہے ہیں امریکہ کے ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرین کے لیے فوجی امداد کی بحالی کا اعلان کردیا۔ یہ نہایت مضحکہ خیزفیصلہ ہے کیونکہ جب یوکرین روس سے لڑ رہا تھا تو امداد بند کردی گئی تھی مگر اب جبکہ وہ جنگ بندی پر راضی ہوگیا ہے تو اسے ہتھیاروں کی فراہمی بحال کردی گئی ۔ ٹرمپ کا اس جنگ کے خاتمے کی امید ظاہر کرنے کے باوجود اسلحہ فراہم کرنا بتاتا ہے کہ ان کا ذہن صاف نہیں ہے ۔ٹرمپ نے پہلے تو اتحادیوں کو حیران کرتے ہوئے کیئف پر شدید دباؤ ڈالا اور ماسکو سے روابط بڑھائے ، جس کے نتیجے میں یوکرینی حکام سعودی عرب میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے لیے آئے اورازخود فضائی اور سمندری حملوں پر جزوی جنگ بندی کی پیشکش کردی۔
امریکی صدر نے جس طرح یوکرین کو نظر انداز کرکے روس کے ساتھ پہلے دور کی مذاکرات کی اسی مانند اسرائیل کو درکنار کرکے حماس سے بات چیت شروع کردی ۔ حماس کی قیادت کے سیاسی مشیر طاہر النونو نے گذشتہ ہفتے قطری دارالحکومت میں واشنگٹن سے بے مثال، براہِ راست مذاکرات کی تصدیق کی۔ اس دوران غزہ میں حماس کے زیرِ حراست دوہری شہریت کے حامل ایک امریکی اسرائیلی کی رہائی پر توجہ مرکوز کی گئی۔ طاہر نے مزید انکشاف کیا کہ حماس کے رہنماؤں اور امریکی قیدیوں کے تعلق سے مذاکرات کار ایڈم بوہلر کے درمیان ملاقاتوں میں جنگ کے خاتمے کے لیے مرحلہ وار معاہدے پر عمل درآمد پر بھی بات ہوئی ۔ اس دوران جب امریکی صدر نے غزہ سے فلسطینیوں کی مستقل نقلِ مکانی کی تجویز سے واضح دستبرداری کا اعلان کیا تو اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے حماس کے ترجمان حازم قاسم نے ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ ”انتہائی صہیونی حق” کے نظرئیے کی ہم آہنگی سے گریز کریں۔امریکہ کی حماس سے براہِ راست بات چیت سے پورا اسرائیل چراغ پا ہوگیاکیونکہ اس کو بھی وہی جھٹکا لگا تھا جو پہلے یوکرین اور پھر یوروپ کو لگا۔
ایڈم بوہلر کے بیانات سے اسرائیلی حکام میں شدید بے چینی پیداہو گئی اور سٹرٹیجک امور کے وزیر رون ڈرمر نے ان مذاکرات کے حوالے سے بوہلر پر سخت تنقید کی۔اسرائیلی حکام کی جانب سے امریکہ اور حماس کے درمیان مذاکرات پر تنقید کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذاکرات کار ایڈم بوہلر نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے حکام کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیلی پالیسی کے تحت نہیں بلکہ امریکی مفادات کے تحت کام کر رہی ہے ۔ امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ایڈم بوہلر نے نہایت واضح انداز میں کہا کہ ‘ہم امریکہ ہیں، ہم اسرائیل کے دلال( ایجنٹ) نہیں ہیں’۔ایڈم بوہلر کے مذاکرات کا مقصد بنیادی طور پر غزہ میں قید امریکی یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانابتایا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ چند ہفتوں میں اس حوالے سے اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ایک اسرائیلی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایڈم بوہلر نے انکشاف کیا کہ حماس کے سامنے 5 سے 10 سال کے لیے جنگ بندی کی تجویز پیش کی گئی ہے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ حماس نے اس پر باضابطہ طور پر اتفاق نہیں کیا جو ناممکن ہے ۔ یوکرین اور غزہ کے درمیان یہ فرق ہے کہ یوروپ نے متحد ہوکر یوکرین کی خاطر خواہ حمایت نہیں کی اور وہ اندر سے ٹوٹ گیا نیزنتیجتاً یوکرین کے یہودی وزیر اعظم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس بیچ نیٹو سیکریٹری جنرل نے ہتھیار بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اعتراف کرلیا یوروپ کافی ہتھیار تیار نہیں کر رہاہے اور وہ روس و چین کے مقابلے میں پچھڑ گیا ہے ۔ اس کے برعکس مسلم ممالک نے متحد ہوکر غزہ حمایت کی اور اندر ہی اندر مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے جس سے امریکہ کو جھکنا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔