... loading ...
جاوید محمود
اسرائیلی فوج نے حماس کے 7اکتوبر 2023کے حملے پر اپنی پہلی سرکاری رپورٹ جاری کر دی جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی دفاعی افواج اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے کے مشن میں ناکام رہی ۔19صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اسرائیلی فوج کی ان ناکامیوں کا ذکر ہے جن کے سبب 1200اسرائیلی ہلاک ہوئے اور حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں نے 251شہریوں کو یرغمال بنایا۔ حماس کے اس حملے کے نتیجے میں اسرائیل نے غزہ میں جنگ کا آغاز کیا جو 15ماہ تک جاری رہی ۔اس جنگ میں ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی مارے گئے جن میں اکثریت شہریوں کی ہے اور غزہ کو کھنڈرات میں بدل کر رکھ دیا۔ جنگ بندی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی تعمیر کا ایک منصوبہ پیش کیا لیکن گزشتہ دنوں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے خلاف غزہ کی تعمیر نو کے ایک متبادل منصوبے کی منظوری دی گئی۔ خیال رہے کہ ٹرمپ نے غزہ سے 20لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کی عرب ممالک میں منتقلی کا منصوبہ پیش کیا تھا ۔ٹرمپ کے منصوبے کا متبادل مصر کی طرف سے پیش کیا گیا ہے جو 91صفحات پر مشتمل ہے اس میں دلکش اماراتی ڈیزائنز ہیں۔ خیال رہے کہ عرب ممالک نے امریکی منصوبے کی مذمت کی تھی ۔سوال یہ ہے کہ کیا تباہ حال غزہ کو اس عرب حمایت یافتہ منصوبے کے ذریعے بحیرۂ روم کا دبئی بنایا جائے گا یا امریکی پلان کے تحت غزہ کو مشرقی وسطیٰ کی ساحلی تفریح گاہ بنایا جائے گا۔ واضح رہے کہ مصر نے یہ منصوبہ فلسطین اور عرب ممالک کے تعاون سے پیش کیا ہے اور اس کی بنیاد جامع عرب پلان کے طور پر غزہ کی جلد بحالی اور تعمیر نوکے حوالے سے ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام پر ہونے والی تحقیقات پر رکھی گئی ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت غزہ کے 20لاکھ سے زیادہ رہائشیوں کو اپنی اس زمین پر رہنے کا حق دیا گیا ہے جسے ان کے خاندان کی کئی نسلیں اپنا گھر کہتی ہیں ۔دوسری طرف صدر ٹرمپ کو حیرت ہے کہ فلسطینی نقل مکانی کیوں نہیں کرنا چاہیں گے ؟وہ غزہ کو ایک تباہ شدہ مقام کے طور پر بیان کرتے ہیں جسے 15 ماہ تک جنگ نے نقصان پہنچایا ہے ۔اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے 90 فیصد گھر تباہ ہو گئے ہیں یا انہیں بھاری نقصان پہنچا ہے۔ روز مرہ زندگی کی بنیادی سہولیات جیسے اسکول ہسپتال نکاسی آب کا نظام اور بجلی کی لائنز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے یا مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی بد نیتی پر مبنی کوششوں سے لڑائی کے نئے مرحلے شروع ہو سکتے ہیں جس سے استحکام کے مواقع کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ اس سے لڑائی خطے کے دیگر ملکوں میں پھیلنے گی اور یہ مشرقی وسطیٰ کی امن کی بحالی کے لیے واضح خطرہ ہے۔ چند روز قبل صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پرغزہ کی تعمیر و ترقی سے متعلق مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی ویڈیو پیش کی تھی جس پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس ویڈیو میں ٹرمپ کا مجسمہ دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اس میں ان کے قریبی اتحادی ایلون مسک ساحل پر بیٹھے سیکس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ویڈیو میں وہ اور اسرائیلی وزیراعظم نتن یا ہو دھوپ سیک رہے ہیں اور ویڈیو میں یہ جملہ درج ہے کہ ٹرمپ کا غزہ بالاخر آگیا ہے ۔قاہرہ کے ترتیب کردہ یہ تعمیر نو کے پلان میں سرسبز علاقوں اور اونچی عمارتوں کی تصاویر شامل ہیں ۔اس منصوبے کے لیے ورلڈ بینک میں استحکام و ترقی کے ماہرین اور دبئی کے ہوٹل ڈیولپرز سے مشاورت کی گئی ہے۔ اس میں ایسے شہروں سے سبق سیکھا گیا ہے جو تباہی کے بعد دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے جیسے ہیروشیما بیروت اور برلن لیکن غزہ کی تعمیر نو کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔ یہ بڑا مسئلہ ہے مصر نے تجویز دی ہے کہ جلد ازجلد بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ تعمیر نو ممکن ہو سکے۔ بظاہر امیر خلیجی ریاستیں اس خطیر رقم کے لیے کچھ حصہ ادا کرنے کو تیار ہیں۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے تقریبا 50ارب ڈالردرکار ہوں گے تاہم کوئی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تب تک تیار نہیں جب تک انہیں یقین نہ ہو جائے کہ ایک اور جنگ میں تمام نئی تعمیرات کو گرا نہیں دیا جائے گا۔ دوسرا حساس پہلو یہ ہے کہ غزہ کا انتظام کس کے پاس ہوگا؟ دوسری طرف بنیامن نتن یاہو صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو دور رس قرار دیتے ہیں اور بارہا حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے لیے بھی مستقبل میں کسی بھی کردار کو مسترد کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ بین الاقوامی امن دستے تعینات کرے جو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کی سلامتی کو یقینی بنانے میں کردار ادا کریں۔ حماس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قبول کر چکی ہے کہ غزہ کو چلانے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوگا ۔تاہم یہ تنظیم اب بھی غزہ میں فوجی اور سیاسی غلبہ رکھتی ہے ۔کچھ عرب ریاستیں اسے مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔دوسروں کا خیال ہے کہ ان فیصلوں کو فلسطینیوں پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ حماس خود کہتی ہے کہ ان کے گروپ کو غیر مسلح کرنا ان کے لیے سرخ لکیر ہے ،جہاں تک صدر ٹرمپ کا تعلق ہے انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو کسی پر زبردستی مسلط نہیں کریں گے۔ لیکن پھر بھی اصرار کرتے ہیں کہ ان کا منصوبہ وہی ہے جس پر واقعی عمل کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق نا امریکہ کو ہے اورنہ ہی عرب ممالک کو،اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف فلسطینیوں کو حاصل ہے ۔جنہوں نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں۔ فلسطین کی آزادی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مفاد پرست طاقتیں اور بڑی طاقتیں اس میں مداخلت کرتی رہیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔