وجود

... loading ...

وجود

فلسطین کی آزادی ، ممکن کب؟

جمعرات 13 مارچ 2025 فلسطین کی آزادی ، ممکن کب؟

جاوید محمود

اسرائیلی فوج نے حماس کے 7اکتوبر 2023کے حملے پر اپنی پہلی سرکاری رپورٹ جاری کر دی جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی دفاعی افواج اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے کے مشن میں ناکام رہی ۔19صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اسرائیلی فوج کی ان ناکامیوں کا ذکر ہے جن کے سبب 1200اسرائیلی ہلاک ہوئے اور حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں نے 251شہریوں کو یرغمال بنایا۔ حماس کے اس حملے کے نتیجے میں اسرائیل نے غزہ میں جنگ کا آغاز کیا جو 15ماہ تک جاری رہی ۔اس جنگ میں ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی مارے گئے جن میں اکثریت شہریوں کی ہے اور غزہ کو کھنڈرات میں بدل کر رکھ دیا۔ جنگ بندی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی تعمیر کا ایک منصوبہ پیش کیا لیکن گزشتہ دنوں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے خلاف غزہ کی تعمیر نو کے ایک متبادل منصوبے کی منظوری دی گئی۔ خیال رہے کہ ٹرمپ نے غزہ سے 20لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کی عرب ممالک میں منتقلی کا منصوبہ پیش کیا تھا ۔ٹرمپ کے منصوبے کا متبادل مصر کی طرف سے پیش کیا گیا ہے جو 91صفحات پر مشتمل ہے اس میں دلکش اماراتی ڈیزائنز ہیں۔ خیال رہے کہ عرب ممالک نے امریکی منصوبے کی مذمت کی تھی ۔سوال یہ ہے کہ کیا تباہ حال غزہ کو اس عرب حمایت یافتہ منصوبے کے ذریعے بحیرۂ روم کا دبئی بنایا جائے گا یا امریکی پلان کے تحت غزہ کو مشرقی وسطیٰ کی ساحلی تفریح گاہ بنایا جائے گا۔ واضح رہے کہ مصر نے یہ منصوبہ فلسطین اور عرب ممالک کے تعاون سے پیش کیا ہے اور اس کی بنیاد جامع عرب پلان کے طور پر غزہ کی جلد بحالی اور تعمیر نوکے حوالے سے ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام پر ہونے والی تحقیقات پر رکھی گئی ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت غزہ کے 20لاکھ سے زیادہ رہائشیوں کو اپنی اس زمین پر رہنے کا حق دیا گیا ہے جسے ان کے خاندان کی کئی نسلیں اپنا گھر کہتی ہیں ۔دوسری طرف صدر ٹرمپ کو حیرت ہے کہ فلسطینی نقل مکانی کیوں نہیں کرنا چاہیں گے ؟وہ غزہ کو ایک تباہ شدہ مقام کے طور پر بیان کرتے ہیں جسے 15 ماہ تک جنگ نے نقصان پہنچایا ہے ۔اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے 90 فیصد گھر تباہ ہو گئے ہیں یا انہیں بھاری نقصان پہنچا ہے۔ روز مرہ زندگی کی بنیادی سہولیات جیسے اسکول ہسپتال نکاسی آب کا نظام اور بجلی کی لائنز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے یا مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی بد نیتی پر مبنی کوششوں سے لڑائی کے نئے مرحلے شروع ہو سکتے ہیں جس سے استحکام کے مواقع کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ اس سے لڑائی خطے کے دیگر ملکوں میں پھیلنے گی اور یہ مشرقی وسطیٰ کی امن کی بحالی کے لیے واضح خطرہ ہے۔ چند روز قبل صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پرغزہ کی تعمیر و ترقی سے متعلق مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی ویڈیو پیش کی تھی جس پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس ویڈیو میں ٹرمپ کا مجسمہ دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اس میں ان کے قریبی اتحادی ایلون مسک ساحل پر بیٹھے سیکس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ویڈیو میں وہ اور اسرائیلی وزیراعظم نتن یا ہو دھوپ سیک رہے ہیں اور ویڈیو میں یہ جملہ درج ہے کہ ٹرمپ کا غزہ بالاخر آگیا ہے ۔قاہرہ کے ترتیب کردہ یہ تعمیر نو کے پلان میں سرسبز علاقوں اور اونچی عمارتوں کی تصاویر شامل ہیں ۔اس منصوبے کے لیے ورلڈ بینک میں استحکام و ترقی کے ماہرین اور دبئی کے ہوٹل ڈیولپرز سے مشاورت کی گئی ہے۔ اس میں ایسے شہروں سے سبق سیکھا گیا ہے جو تباہی کے بعد دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے جیسے ہیروشیما بیروت اور برلن لیکن غزہ کی تعمیر نو کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔ یہ بڑا مسئلہ ہے مصر نے تجویز دی ہے کہ جلد ازجلد بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جائے تاکہ تعمیر نو ممکن ہو سکے۔ بظاہر امیر خلیجی ریاستیں اس خطیر رقم کے لیے کچھ حصہ ادا کرنے کو تیار ہیں۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے تقریبا 50ارب ڈالردرکار ہوں گے تاہم کوئی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تب تک تیار نہیں جب تک انہیں یقین نہ ہو جائے کہ ایک اور جنگ میں تمام نئی تعمیرات کو گرا نہیں دیا جائے گا۔ دوسرا حساس پہلو یہ ہے کہ غزہ کا انتظام کس کے پاس ہوگا؟ دوسری طرف بنیامن نتن یاہو صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو دور رس قرار دیتے ہیں اور بارہا حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے لیے بھی مستقبل میں کسی بھی کردار کو مسترد کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ بین الاقوامی امن دستے تعینات کرے جو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کی سلامتی کو یقینی بنانے میں کردار ادا کریں۔ حماس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قبول کر چکی ہے کہ غزہ کو چلانے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوگا ۔تاہم یہ تنظیم اب بھی غزہ میں فوجی اور سیاسی غلبہ رکھتی ہے ۔کچھ عرب ریاستیں اسے مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔دوسروں کا خیال ہے کہ ان فیصلوں کو فلسطینیوں پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ حماس خود کہتی ہے کہ ان کے گروپ کو غیر مسلح کرنا ان کے لیے سرخ لکیر ہے ،جہاں تک صدر ٹرمپ کا تعلق ہے انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو کسی پر زبردستی مسلط نہیں کریں گے۔ لیکن پھر بھی اصرار کرتے ہیں کہ ان کا منصوبہ وہی ہے جس پر واقعی عمل کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق نا امریکہ کو ہے اورنہ ہی عرب ممالک کو،اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف فلسطینیوں کو حاصل ہے ۔جنہوں نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں۔ فلسطین کی آزادی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مفاد پرست طاقتیں اور بڑی طاقتیں اس میں مداخلت کرتی رہیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
فلسطین کی آزادی ، ممکن کب؟ وجود جمعرات 13 مارچ 2025
فلسطین کی آزادی ، ممکن کب؟

مغل شہنشاہوں سے ہندوؤں کی نفرت وجود جمعرات 13 مارچ 2025
مغل شہنشاہوں سے ہندوؤں کی نفرت

حقوق العباد اور حقیقی توبہ وجود جمعرات 13 مارچ 2025
حقوق العباد اور حقیقی توبہ

شام:تشدد کی نئی لہر کے پیچھے کس کا ہاتھ وجود جمعرات 13 مارچ 2025
شام:تشدد کی نئی لہر کے پیچھے کس کا ہاتھ

جب اورنگزیب نے مندروں کو جائیدادیں عطاکیں! وجود بدھ 12 مارچ 2025
جب اورنگزیب نے مندروں کو جائیدادیں عطاکیں!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر