وجود

... loading ...

وجود

شام:تشدد کی نئی لہر کے پیچھے کس کا ہاتھ

جمعرات 13 مارچ 2025 شام:تشدد کی نئی لہر کے پیچھے کس کا ہاتھ

افتخار گیلانی

بشار الاسد کی آمرانہ حکومت کے خاتمہ کے بعد جب ایسا لگتا تھا کہ پچھلی ایک دہائی سے زائد عرصہ سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں اب عوام راحت کی سانس لیں گے کہ ساحلی علاقوں میں تشدد کے واقعات میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کئی نادیدہ قوتوں کو شام کا امن و امان اور استحکام راس نہیں آرہا ہے ۔برطانیہ میں قائم وار مانیٹرنگ گروپ کے مطابق نئی شامی حکومت کی افواج کے تقریباً 125 اہلکار بھی ہلاک ہوگئے ہیں۔ عبوری صدر احمد الشراع نے قومی وحدت اور داخلی امن کو محفوظ رکھنے کی اپیل کی ہے ۔لطاکیا کے علاوہ تشدد اللاذقیہ اور طرطوس کے صوبوں میں پھوٹ پڑا ، جو شام کے بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہیں اور ملک کی علوی اقلیت کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔مقامی صحافیوں کے مطابق پچھلے ہفتے جب اسد نواز ملیشیا نے ساحلی شہر جبیلہ اور اس کے گرد و نواح میں سکیورٹی گشت پر حملہ کیا تو اس کے جواب میں شام کے نئے حکمرانوں سے وابستہ فورسز کو تعینات کیا گیا، جس کے بعد علوی برادری کے خلاف انتقامی قتل عام کی خبریں سامنے آئیں۔جھڑپوں کا مرکز اللاذقیہ اور تارتوس تھے ، جو شام کی علوی برادری کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں، اور جو اسد کے بڑے حامی رہے ہیں۔اس سے ملحق صوبہ دروز فرقہ کا مسکن ہے ، جن کی پشت پناہی اسرائیل کرتا ہے ۔ علوی فرقہ پورے شام کی آبادی کا دس سے پندرہ فیصد ہے ، مگر اسد حکومت کے دوران چونکہ ان کو مراعات حاصل تھیں اس لیے وہ خاصے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اونچے عہدوں پر برا جمان تھے ۔ گو کہ احمد الشراع نے عام معافی کا اعلان تو کر دیا تھا، مگر اکثیرتی سنی آبادی کے ایک بڑے طبقہ میں علوی فرقہ کے خلاف لاوا پک رہا تھا۔ اسد دور کے فوج کے عہدیدار، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، نے لطاکیامیں پناہ لی ہوئی تھی۔ شامی عوام کا ایک بڑا طبقہ ان کو احتساب کے دائرے میں لانے پر دباو ڈال رہا تھا۔
علوی اکثریتی علاقے میں حالیہ مہینوں میں وقفے وقفے سے تشدد کی خبریں آرہی تھیں تاحال ایسا کوئی مرکزی گروہ سامنے نہیں آیا جو ان حملوں کی قیادت کا دعویٰ کرتا ہو۔۔ لیکن پچھلے ہفتے جو حملے سیکورٹی فورسز پر کیے گیے ، تو ایک گروہ جس نے اپنا نام ‘ملٹری کونسل فار دی لبریشن آف سیریا’ بتایا، نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ اس بیان پر ایک سابق جنرل غیث دالہ کے دستخط تھے ۔ وہ اسد حکومت میں فوج کی ایلیٹ چوتھی ڈویژن کے ایک کمانڈر تھے ۔مڈل ایسٹ کو کور کرنے والے صحافیوں کے پاس حالیہ عرصے میں کئی گروہوں کے ویڈیوز آرہے تھے ، جن میں مسلح افراد شام کی نئی قیادت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے اور حملوں کی ذمہ داری قبول کر رہے تھے ۔ تاہم آزادانہ طور پر ان کی تصدیق نہیں ہو رہی تھی۔ شام کی انٹلی جنس سروسز کے نئے سربراہ، انس خطیب کے مطابق حالیہ تشدد کے پیچھے سابق اسد حکومت کے فوجی رہنما ہیں، جو مفرور ہیں اور احتساب سے بچنا چاہتے ہیں۔ شام کی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل حسن عبدالغنی نے بتایا کہ ہزاروں عسکریت پسندوں نے اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اللاذقیہ کے علاقے المختاریہ، المزیرعہ، الزوبار اور دیگر مقامات کے علاوہ، تارتوس میں الدالیہ، طانطہ اور قداموس کے قصبوں میں کارروائیاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ان جھڑپوں کے بعد شام کے دیگر علاقوں جوابی احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں، جو حکومت کے سابق عہدیداروں کو سزا دینے اور عام معافی کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔سینئر ترک صحافی اور تجزیہ کار مہمت اوز ترک کا کہنا ہے کہ لطاکیا میں علوی فرقہ کی بغاوت یا مزاحمت متوقع تھی، مگر شامی حکومت کا اس سے نپٹنے کا طریقہ درست نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شامی حکومت نے پولیس کو بحال ومضبوط کرنے کے بجائے شہری سیکورٹی جنگجوؤں کے حوالے کی ہے ، جو کسی بھی نقطہ نظر سے صحیح نہیں ہے ۔اوز ترک جو ابھی شام کا ایک ماہ کا دورہ کرکے واپس انقرہ لوٹے ہیں کا کہنا ہے کہ سیکورٹی کی ذمہ داری ان افراد کے سپرد کی گئی، جو سابق حکومت کے خلاف انتقام کی آگ میں جلس رہے ہیں۔
بیشترعرب ممالک اور ترکیہ شام میں ایک مضبوط مرکز کے خواہاں ہیں۔ جبکہ اسرائیل اور پورپی ممالک بشمول امریکہ ایک وفاقی نظام کی وکالت کرتے ہیں، جس کے تحت شمال مشرقی شام میں کردوں کو داخلی خود مختاری دی جائے ۔ کردوں کے پاس شام کا تیس فیصد علاقہ ہے ، جبکہ وہ شام کی آبادی کا صرف دس فیصد ہیں۔ اسی طرح مغربی ممالک ساحلی علاقہ لطاکیہ وغیرہ علوی فرقہ کو اور اسرائیلی سرحد سے ملحق علاقے دروز فرقے کے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں علاقوں کو اندرونی خود مختاری دینے پر دباو ڈال رہے ہیں۔ یہ طاقتیں ایک مضبوط دمشق کو اسرائیل کے لئے خطرہ قرار دیتی ہیں۔ساحلی خطے میں جس بڑء پیمانے پر بغاوت ہوئی، اس سے لگتا ہے کہ سابق حکومت کے عہدیداروں کے پاس اسلحہ کی کمی نہیں ہے ۔ گو کہ شہری علاقوں میں اس بغاوت کو سختی کے ساتھ کچل دیا گیا ہے ، مگر پہاڑی علاقوں میں وہ سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ اوز ترک کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ ہے کہ ان علاقوں میں ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا بھی موجود ہیں، جن میں افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی شامل ہیں۔ ایران انہیں مدد فراہم کر رہا ہے ،تا کہ شام میں اس کا کردار اور اثر و رسوخ برقرار رہے ۔اب جب کہ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے ، تجزیہ کاروں جنوبی شام کے درعا کے احمد العودہ کو ایک ممکنہ خطرہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔العودہ، ایک وقت میں اسد کے خلاف بغاوت کا حصہ تھے ۔ بعد میں روس کے ساتھ معاہدے کے ذریعے اسد حکومت کے ساتھ’مفاہمت’ کر کے ان کی فورسز کو شامی فوج کے روسی حمایت یافتہ پانچویں کور میں ضم کر دیا گیا تھا۔
جب حیات التحریر الشام کی قیادت میں اپوزیشن گروپوں نے دمشق کی طرف پیش قدمی کی، تو العودہ اور ان کے جنگجوؤں نے جنوب سے دمشق کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ مگر الشراع کے پہنچنے سے قبل ہی انہوں نے دمشق کو خالی کردیا تھا۔ روس کے زیر اثر اسد حکومت نے جنوبی شام میں ان کو خود مختاری دی ہوئی تھی۔ وہ بھی اس خود مختاری کو سرنڈر کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔مزید یہ کہ اگر شام کے نئے حکمران ملک کو مؤثر طریقے سے چلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو یہ خطے میں اسلام پسند گروہوں کے لیے ایک بڑا حوصلہ افزا پیغام ہوگا۔نیویارک میں قائم سوفران گروپ کے پالیسی اور تحقیق کے ڈائریکٹر کولن کلارک کا کہنا ہے کہ یہ اخوان المسلمون جیسے گروہوں کے لیے ایک عملی نمونہ بن سکتا ہے ۔اسی لیے عوادہ جیسے شخص کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جو نہ صرف ایک معروف عسکری شخصیت ہیں بلکہ ان کے متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات بھی ہیں۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ وہ شام کے خلیفہ حفتر بن سکتے ہیںیعنی وہ مضبوط فوجی لیڈر جسے متحدہ عرب امارات اور مصر کی حمایت حاصل ہے اور جس نے لیبیا میں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کو چیلنج کیا ہوا ہے ۔
تجزیہ کاروں کے مطا بق اگر شام میں کوئی بغاوت شروع ہوتی ہے ، تو ایران سمیت متحدہ عرب امارات اورمصری صدر عبدالفتاح السیسی اس کی مدد کریں گے ، لیکن یہ اس پر منحصر ہے کہ نئی شامی انتظامیہ کتنی جلدی اور مؤثر طریقے سے استحکام قائم کرتی ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
فلسطین کی آزادی ، ممکن کب؟ وجود جمعرات 13 مارچ 2025
فلسطین کی آزادی ، ممکن کب؟

مغل شہنشاہوں سے ہندوؤں کی نفرت وجود جمعرات 13 مارچ 2025
مغل شہنشاہوں سے ہندوؤں کی نفرت

حقوق العباد اور حقیقی توبہ وجود جمعرات 13 مارچ 2025
حقوق العباد اور حقیقی توبہ

شام:تشدد کی نئی لہر کے پیچھے کس کا ہاتھ وجود جمعرات 13 مارچ 2025
شام:تشدد کی نئی لہر کے پیچھے کس کا ہاتھ

جب اورنگزیب نے مندروں کو جائیدادیں عطاکیں! وجود بدھ 12 مارچ 2025
جب اورنگزیب نے مندروں کو جائیدادیں عطاکیں!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر