وجود

... loading ...

وجود

مایوسی کفر ہے ۔۔۔

بدھ 12 مارچ 2025 مایوسی کفر ہے ۔۔۔

ب نقاب۔۔۔۔ایم آر ملک

اپنے عہد کے عروج کے تناظر میں انسان ہمہ وقت حالات کی راسیں اپنی دسترس میں رکھنے کا خواہاں ہوتا ہے مگر زوال کے عہد کو عروج کے تناظر میں دیکھنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے ؟کیونکہ عروج کے اختتام اور زوال کے ابتدائی عہد میں انسان اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے حالات کا رخ اور عوامی حمایت کو اپنی سمت موڑنے میں وقتی طور پر تو کامیاب ہو جاتا ہے مگر تاحدِ نظر زوال کی ایسی بساط بچھی نظر آتی ہے جس کا آخری سرا نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے مگر انسان حقیقت کے ادراک کے باوجود اپنے عروج کے سراب میں ہچکولے کھا رہا ہوتا ہے ۔
حالات کے تناظر میں یہ تمہید مجھے تحریک انصاف کے اُن ورکروں کیلئے باندھنا پڑی ہے جو مایوس اور بد دل ہیں مجھے ان ورکروں سے کہنا ہے کہ رہزنوں میں آپ گھرے ہوں اور آپ کی پگ محفوظ رہے یہ نہیں ہو سکتا ۔
ڈھوکڑی پہاڑ کی اوٹ میں ایک پسماندہ گائوں ہے جس کی ٹیڑھی گلیاں زگ زیگ کی شکل میں نظر آتی ہیں ۔ملک حق نواز سپرو اور ملک ناصر کی طرف سے مجھے ہنگامی حالت اُس اکٹھ میں شرکت کا حکم صادر ہوا تھا جو گائوں کے بزرگوں نے بلا رکھا تھا ۔پگڈنڈیوں کے سفر میں دوستوں کے ہمراہ ہم ملک ناصر کے دارہ پر پہنچے ۔خوشاب کے دیہی علاقوں میں دارے بنے ہوئے ہیں جہاں سردیوں کی کہر آلود اور یخ بستہ راتوں میں رات گئے تک گائوں کے بزرگ اپنی محفلیں جماتے ۔دارا آج بھی کئی قبیلوں کی مشترکہ بیٹھک ہے ،قیام گاہ ہے جہاں غمی اور خوشی کے وقت یہ بزرگ جمع ہوتے ہیں ۔اکثر اوقات زندگی کے اہم فیصلے ان داروں پر ہوتے ہیں ۔وقت ہرجائی اور ناہنجار ہو گیا ہے ۔ دکھوں کو بانٹنا اب رسم بھی نہیں رہی۔ دوسروںکیلئے زندہ رہنے کا تصور بھی حیرت لگتا ہے مگر خوشاب کے دیہی علاقوںمیں جہاں زندگی بنیادی سہولیات کو ترستی ہے یہ روایت شاید بدستور موجود ہے ۔تاہم زمانہ بدلا ،روایات مر گئیں ۔انسان انسان سے کٹ گیا ۔داروں پر بیٹھنے والے بھی اب اپنا چلن بدلنے لگے ہیں یا وہ نسل ناپید ہوتی جارہی ہے جس سے ان داروں کا ماحول مہکتا تھا ۔ایک بزرگ کا کہنا آج بھی سچ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دور میں ان داروں پر رات گئے تک آگ جلتی تھی اور اس آگ کے گرد جب بزرگ بر اجمان ہوتے تو نئی نسل اُن کی عمر رفتہ کو سنتی ،اُن کے عملی تجربہ کو لیکر اپنی آئندہ زندگی کا سفر متعین کرتی تب آگ خاموش تھی اور اُس کے گرد بیٹھنے والے بولا کرتے تھے ۔اب اُس آگ کے گرد بیٹھنے والے خاموش ہو گئے ہیں آگ ٹی وی کی شکل میں بول رہی ہے ۔
اُس روز ڈھوکڑی میں ملک ناصر کے دارا پر نئی ڈھوکڑی اور پرانی ڈھوکڑی کے بزرگوں کا اکٹھ تھا ۔وہ بزرگ جن کی اکثریت باریش تھی اور جن کے سروں پر سفید پگڑیاں نسل در نسل چلنے والے مہاڑ کے قدیم کلچر کی عکاسی کر رہی تھی دارا پر قطاروں کی شکل میں موجود تھے ۔با با ڈی ایم اعوان مرحوم ، ملک ناصر کا دادا جس کی عمر رفتہ شہر کے عوام کی خدمت کرتے گزری ایک میزبان کی حیثیت سے اپنی نشست پر بر اجمان تھا۔ دن بھر کا تھکا ہارا سورج مغرب کی اوٹ میں اپنے سرخ چہرے کے ساتھ غروب ہو رہا تھا ۔ دارا پر زندگی کی سانسوں کے باوجود ایک سناٹا تھا ۔جو یقینا نسل نو کی طرف سے ان بزرگوں کے احترام و ادب کا متقاضی تھا ۔اچانک اس سناٹے کو ملک حق نواز سپرو کی آواز نے چیرا کہ ”نوجوان نسل اب صدیوں کے اُس طوق ِ غلامی کو گلے سے اُتار پھینکنا چاہتی ہے جو اس فرسودہ نظام نے ہمیں تحفے میں دیا ہے ہم ایک تبدیلی کی خواہش کے ساتھ میدان ِ عمل میں نکلے ہیں ،عمران کی قیادت میں ہم عوام کے سامنے اپنی ترجیحات کے ساتھ جانا چاہتے ہیں ” اس سے قبل کہ ملک حق نواز اپنی بات کا تسلسل جاری رکھتا اچانک ایک بزرگ کی آواز نے محفل کو اپنی جانب متوجہ کر لیا یہ ملک فتح خان نمبر دار تھے۔ جن کا موقف بڑا واضح تھا کہ میں اگر اس دارا پر نوجوان نسل کو سننے کیلئے آیا ہوں تو میرے ساتھ دائیں ،بائیں ،آمنے ،سامنے بیٹھے میرے ہم عمر دوست صرف میرے موقف کی تائید میں میرے ساتھ موجود ہیں ۔سفید ریش اور سفید دستاروں والے دوستوں ماسٹر امیر نواز ، ملک خالقداد ،ملک شوکت حیات جھانبہ ، ملک افضل ،ملک اقبال کے سر ملک فتح خان کی تائید میں خم ہوگئے ۔ملک فتح خان نمبر دار نے کہا کہ ہم اپنی دستار نوجوان نسل کے سر پر رکھ رہے ہیں آج ہم معترض ہیں کہ نئی نسل صلاحیتوں میں ہم سے آگے ہے ،اب فلاح کے فیصلوں کی رسی ملک حق نواز ،سرفراز مبارکھی ،ملک ناصر ،فیاض زمانی ۔لیاقت جھانبہ جیسے نوجوان لیکر چلیں گے اور ان کے عوامی فیصلوں کو ہماری تائید حاصل ہوگی ۔
محفل بر خاست ہونے سے قبل بادلوں کی گڑ گڑاہٹ میں تیزی آرہی تھی ۔جب ہم ملک حق نواز سپرو کے ڈیرہ پر پہنچے تو آسمانی آنکھ نے برسنا شروع کر دیا، رات گئے بارش کا زور ٹوٹا ،بارش تھمی تو ملک حق نواز کے ہمراہ میں نے رخت ِ سفر باندھا ،میں کبھی نہ سلجھنے والے ریشم میں اُلجھا ہوا تھا بہت سے سوالات تھے جو گڈ مڈ ہورہے تھے ،تب چُکی میں پہاڑ سے گرنے والے اُس پانی نے میری الجھن کو دور کر دیا جو اپنے شدید ریلے کے ساتھ ہر آنے والی گاڑی کو خوف زدہ کر رہا تھا ۔میں سوچنے لگا کہ8فروری کے الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ عوام سے بعید نہیں ، بیلٹ پیپرز چھینے گئے ،پریزائیڈنگ ٹھپے لگاتے رہے ،ناجائز مقدمات کا نہ تھمنے والا سلسلہ چل نکلا اور 85ء سے شریف برادران کی گود میں پل کر جوان ہونے والی بیورو کریسی نے جعلی نتائج بنا کر فارم 45کے بجائے فارم 47پر جتوادیا ، لیکن اس کے باوجود تبدیلی کا منہ زور ریلا مخالفین کو چکی کے پانی کی طرح خوف زدہ کئے ہوئے ہے جو شہروں سے نکل کر ڈھوکڑی جیسے پسماندہ گائوں کی گلیوں میں آپہنچا ہے کہ بزرگوں نے اپنی دستاریں نئی نسل کے سروں پر رکھ کر موروثی سیاست کی دیوار میں دراڑیں ڈالنا شروع کر دی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جب اورنگزیب نے مندروں کو جائیدادیں عطاکیں! وجود بدھ 12 مارچ 2025
جب اورنگزیب نے مندروں کو جائیدادیں عطاکیں!

کشمیری عوام بھارتی حکومت اور فوج کے مظالم کا شکار وجود بدھ 12 مارچ 2025
کشمیری عوام بھارتی حکومت اور فوج کے مظالم کا شکار

مایوسی کفر ہے ۔۔۔ وجود بدھ 12 مارچ 2025
مایوسی کفر ہے ۔۔۔

امریکا ، دہشت گردی اورپاکستانی عوام وجود منگل 11 مارچ 2025
امریکا ، دہشت گردی اورپاکستانی عوام

بھارت پر امریکی ٹیکس عائد وجود منگل 11 مارچ 2025
بھارت پر امریکی ٹیکس عائد

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر