... loading ...
رفیق پٹیل
پاکستان دہشت گردی کی کارروائیوں کی عالمی فہرست میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے ،یہ فہرست دہشت گردی کے واقعات، اس میں ہونے والی اموات،زخمیوں کی تعداد اور یرغمال بنائے جانے والوں کے اعدادوشمار کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس نے مرتّب کی ہے ۔پاکستان کا یہ مقام پاکستان کی معیشت اور حکومت کی ساکھ کے لیے انتہائی خطرناک ہے اوملک میں ناقص حکمرانی کا واضح ثبوت ہے ۔پاکستان کے بارے میں امریکا نے نئی سفری ہدایات جاری کی ہیں اور امریکی شہریوں کو متنبہ کیا گیا ہے کے وہ پاکستان جانے کے بارے میں ازسر نو جائزہ لیں۔ خصوصاً خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے سفر سے گریز کریں یا بہت زیادہ احتیاط کریں ۔حکومت مخالف مظاہروں سے دور رہیں۔ امریکا ،مغرب اور دنیا بھر کے ممالک نے ستمبر 2011 میں نیویارک کے ٹریڈ ٹاور پر حملوں کے بعد دہشت گردی کے واقعات کا انتہائی سختی سے نوٹس لیاتھا اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے جنگ سمیت دیگر اقدامات میں اضافہ کردیا تھا۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
امریکا اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے ہرممکن اقدامات کرتا ہے جس کی وجہ سے سفری ہدایات جاری ہوتی رہتی ہیں ۔امریکی شہریوں نے دہشت گردی کے واقعات کا سراغ لگانے میں امریکی حکومت کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ ستمبر 2011 کے سانحے میں بھی سراغ لگانے میں امریکی شہریوں نے مدد کی تھی جو اس بات کامظہر ہے کہ عوام کی حمایت اور مدد دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسی طرح دیگر ممالک بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنے ملک کی اندرونی حفاظت پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں۔اقوام متّحدہ کے مطابق دہشت گردی سے مقابلے کے لیے قانون کی حکمرانی بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک عوام کی شراکت بھی دہشت گردی سے بچائو کا موثر ذریعہ ہے جبکہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سے امن ، استحکام، خوشحالی اور ترقّی کے اہداف بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ امریکا اس کی اہم مثال ہے ۔تقریباً دوسو سال قبل امریکی بابا ئے قوم الیگزینڈرہملٹن ،جیمز میڈیسن اور جان جے نے امریکی آئین کی ترویج، توثیق اور منظوری کے لیے تواتر سے مسلسل مضامین تحریر کیے جو فیڈرلسٹ پیپرز کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔
الیگزینڈر ہملٹن امریکا کے پہلے وزیر خزانہ تھے ،جیمزمیڈیسن چوتھے امریکی صدر تھے اسی طرح جان جے امریکا کے پہلے چیف جسٹس تھے ،الیگزینڈر ہملٹن نے آزاد عدلیہ کی تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے ڈی فیڈ رلسٹ نمبر78 میں تحریر کیا کہ وفاقی عدالتیں عوام اور قانون سازوں کے درمیان ایک ایسا ڈھانچہ اور نظام ہے جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ عوامی نمائندے آئین اور پارلیمانی حدود کے تحت دیے گئے اختیارات کے دائرے میں رہیں۔امریکی آئین ہی بنیادی امریکی قانون ہے جو عوامی امنگوں اور روایات کا ترجمان ہے عدالت کی ذمّہ داری ہے کہ وہ آئین اور کانگریس کے منظور کردہ قوانین کی تشریح کرے ،ایسا کوئی قانون جو آئین سے متصادم ہواس کافیصلہ آئین کی روح اور عوامی امنگوں کے مطابق طے کیا جائے گا۔امریکا کا جمہوری نظام محض اکثریت کی بنیاد پر نہیں ہے بعض معاملات میں اکثریت کی بنیاد پر مداخلت نہیں کی جاسکتی ۔مثال کے طور پر مذہب اور عقیدے کی آزادی،آزادی اظہار اور مساوات وغیرہ کو تحفظ حاصل ہے۔ امریکی آئین کا بنیادی تصور عوام کی آزادی اور ان کے جائز حقوق کاتحفظ ہے ،جس کی وجہ سے امریکا دنیا کی بہت بڑی معاشی اور دفاعی طاقت ہے ۔امریکا کی نئی حکومت اورصدر ٹرمپ نے امریکی معیشت کی بہتری اور عالمی سطح پرامریکی اثر و رسوخ میں اضافہ کے لیے سابقہ امریکی حکومت کے برعکس دنیا بھر میں تنازعات کے خاتمے کے اقدامات شروع کیے ہیں۔ اور امریکی معیشت کو مستحکم کرنے اور امریکا کو اولیت دینے کے لیے اقدامات کاآغاز کردیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کی کوشش ہے کہ وہ اپنے اقتدا ر کو دوام دینے کے لیے امریکی حمایت حاصل کرے تاکہ موجودہ نظام غیر معینہ مدت تک جاری رہے، حکومت کی کوشش یہ بھی ہے کہ خود حکومت کی پاکستان کے عوام کی حمایت سے محرومی کے باوجود امریکی حکومت براہ راست نہ سہی بالواسطہ اسے جائز تصور کرلے ۔امریکا پاکستان میں جمہوریت کی بحالی،عدلیہ کی آزادی ، میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کی بحالی پر زور نہ دے۔
حکمرانوں کی اس خواہش کے برعکس پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت ملک میں جمہوری نظام اورعدلیہ کی آزادی چاہتی ہے ۔موجودہ برسراقتدار جماعتیں عوامی حمایت سے روز بروز محروم ہورہی ہیں۔ امریکا میں مقیم امریکن پاکستانیوں کی بھاری اکثریت کا مسلسل مطالبہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو بحال کیا جائے ۔موجودہ برسراقتدار سیاسی جماعتیں اور مقتدرہ عوامی حمایت کی محرومی اور قانون کی حکمرنی نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کی روک تھا م سے محروم ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہر سطح پر عوام کاتعاون اور قانون کی حکمرانی ضروری ہے۔ عوام کی نفرت کا شکار دنیا کی کوئی بھی حکومت دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کر سکتی، عدم استحکام کا شکا ر کوئی بھی ملک اگر دہشت گردی کی کارروائیوں کی زد میں ہوگا جہاں حکومت بھی عوامی مینڈیٹ سے محروم ہو وہ کسی صورت بھی دہشت گردی کے خلاف متوقع کامیابی حاصل نہیں کرسکتا ہے ۔پاکستانی حکومت اور فیصلہ ساز قوتیں جب تک اس حقیقت سے بھاگتی رہیں گی کہ اندرونی استحکام کے لیے جمہوریت ،آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی انتہائی لازم ہیں۔عدم استحکام اور انتشار برقرار رہے گا، جمہوریت ،آزاد عدلیہ اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی صورت میں خود عوام دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے متحرک ہو جائیں گے۔ معاشی اور سیاسی استحکام بھی ہوگا۔ دیگر صورت میں دہشت گردی کی روک تھام کا محض دکھاوا تو ہو سکتا ہے، دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ۔پاکستان کو اندرونی انتشار سے بچانے کو اولیت دینی ہوگی۔ عوام پہلے ہی مہنگائی بے روزگاری ، بدعنوانی اور لاقانونیت سے پریشان ہیں حکمران عوام میں جانے کے قابل نہیں ہیں، حکمراں جماعتوں کے کئی رہنمائوں کی دولت اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جائیدادوں کے جائز ہونے کے بارے میں میڈیاکی رپورٹس میں با ر بار شکوک وشبہات ظاہر کیے گئے ہیں اور اب تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا ۔آج بھی آزادانہ سروے کرالیا جائے تو اندازہ ہوجا ئے گا کہ عوام کی رائے موجودہ حکومت اور حکمرانوں کے بارے میں کس قدر منفی ہے۔ عوامی حمایت سے محروم حکومت کی جانب سے میڈیا کو قابو میں کرکے ، عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگا کر دلوں پر حکمرانی نہیں کی جا سکتی ۔ملک تیز رفتاری سے سیاسی اور معاشی طورپر مزید غیر مستحکم ہورہا ہے ۔اخلاقی زوال بھی معاشرے کی تبا ہی کا باعث ہے یہ محض ایک خوش فہمی ہوسکتی ہے کہ سب اچھا ہے ،دنیا اسے کسی صورت نہیں تسلیم کرے گی۔ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے یقینااہمیت رکھتا ہے لیکن اسے طویل عرصے تک لا قانیت کا شکار رکھنا خطے کے لیے خطرناک نتائج کا با عث بن سکتاہے۔ ایک جمہوری اور قانون پسند معاشرہ ہی پاکستانی ریاست ، اس کے عوام اور دنیا کے اہم ممالک کے مفاد میں ہے ۔سیا سی اومعاشی استحکا م کا بھی اس کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے۔