... loading ...
جاوید محمود
ڈونلڈ ٹرمپ کی پوری شخصیت کو تین لفظوں میں یوں سمویا جا سکتا ہے، منفرد، مقبول، متنازع۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی سیاسی تاریخ میں ان جیسا کوئی کردار آج تک سامنے نہیں آیا جنہوں نے سیاست کرنے الیکشن لڑنے اور حکومت کرنے کے انداز ہی کو بدل ڈالا ہے اور ان کے قریبی ساتھی بھی نہیں جانتے کہ وہ اگلے لمحے کیا فیصلہ کر بیٹھیں گے؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت سنبھالتے ہی صدارتی آرڈر کے تحت امیگریشن کی روک تھام کے لیے ایسے اقدامات کا اعلان کیا جس کے تحت کوئی بھی تارکین وطن امریکہ میں نظر نہ آئے ۔ابھی ان اقدامات پر زور شور سے عمل جاری ہے، اسی دوران انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ غیر ملکیوں کو ملک میں مستقل رہائش دینے کے لیے گولڈن ویزا متعارف کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کے اس اعلان نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس ا سکیم کے تحت دولت مند غیر ملکی افراد امریکی شہریت بھی حاصل کر سکیں گے اورغیر ملکی شہری یا مزید دولت مند اور کامیاب ہوں گے۔ وہ یہاں بہت سارا پیسہ خرچ کریں گے۔ بہت سارا ٹیکس بھریں گے اور بہت سارے لوگوں کو ملازمتیں دیں گے ۔اس کے علاوہ انہوں نے امریکہ کے موجودہ اے بی فائو سرمایہ کاری ویزہ پروگرام منسوخ کر دیا ہے۔ 1990میں اے بی فائو ویزا ایسے غیر ملکیوں کے لیے شروع کیا گیا تھا جو کسی ایسی کمپنی میں 10لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کریں جن میں کم از کم 10 ملازمین کو ملازمت فراہم کی جائے۔ ایسے افراد کو اس کے بدلے فوری طور پر گرین کارڈ مل جاتا ہے۔ عام طور پر گرین کارڈ کے خواہش مند افراد کو مستقل رہائش حاصل کرنے کے لیے کئی کئی سال کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اے بی فاؤ پروگرام بے معنی اور فراڈ قرار دیا ہے اور اس کے ذریعے کم قیمت پر گرین کارڈ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے صدر نے اس بے مقصد کارڈ کی جگہ اے بی فائو پروگرام ہی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق گولڈ کارڈ ویزا ان افراد کو مل سکتا ہے جن کے پاس کافی ڈالر ہیں ۔انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس کے ذریعے نوکریوں میں اضافہ کرنے کی شرط ہوگی یا نہیں۔ کامرس سیکریٹری کے مطابق امیدواروں کو تصدیق کے مراحل سے گزرنا پڑے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ بہترین ورلڈ کلاس گلوبل شہری ہیں ۔اس پروگرام میں ملنے والے ویزوں کے حوالے سے کوئی حد متعین نہیں کی گئی اور ٹرمپ کا کہنا ہے کہ حکومت ایک کروڑ ویزے بیچ سکتی ہے۔ تاکہ قومی خسارے میں کمی لائی جا سکے۔ اس ویزا کی درخواست جمع کروانے کی فیس 50لاکھ ڈالر ہوگی۔ ٹرمپ کے مطابق ان کی انتظامیہ اس بارے میں مزید سے آگاہ کرے گی جب یہ ویزے فروخت ہونا شروع ہوں گے۔
گولڈن ویزا دنیا بھر میں خاصے عام ہیں۔ برطانیہ، ا سپین اور یونان جیسے مالک بھی یہ ویزہ فروخت کیے جاتے ہیں اور کچھ ممالک جیسے مالٹا مصر اور اردن میں تو اپ کو اس سرمایہ کاری کے عوض براہ راست شہریت مل جاتی ہے متحدہ عرب امارات میں گولڈن ویزا پروگرام کے تحت مجموعی طور پر 100 ارب درہم تک کی مالیت کی سرمایہ کاری کرنے والے 6800سرمایہ کاروں کو گولڈن کارڈ جاری کیا گیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گولڈن کارڈ کا مقصد متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کاری کرنے والی بین الاقوامی اہمیت کی بڑی کمپنیوں کے مالکان اہم شعبے کے پیشہ وروں سائنس کے میدان میں کام کرنے والوں محققوں کو اور باصلاحیت طلبہ کو متحدہ عرب امارات کی ترقی میں شامل اور متوجہ کرنا ہے۔ ماہرین کے مطابق عام طور پر گولڈن ویزا پروگرام اس لیے متنازع ہوتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعے منی لانڈرنگ کی جا سکتی ہے یا فراڈ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان کی وجہ سے بڑے شہروں میں گھروں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے ۔ان خدشات کے باعث متعدد یورپی ممالک جن میں برطانیہ نیدرلینڈ اور یونان شامل ہیں نے گزشتہ چند سالوں کے دوران اپنے گولڈن ویزا پروگرام بند کر دیے تھے۔ آسٹریلیا کی جانب سے غیر ملکی تاجروں کے لیے گولڈن ویزا پالیسی کا آغاز کیا گیا تھا لیکن چونکہ نتائج اچھے نہیںآئے، اس لیے امیگریشن پالیسی میں ترمیم کے بعد اسے منسوخ کر دیا گیا۔ پہلے ہی گڈن ویزا کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا استعمال بدعنوان اور سود پر رقم دینے والے لوگ کر رہے ہیں۔ آسٹریلیا کے گولڈن ویزے کے حصول کے لیے کسی غیر ملکی سرمایہ کار کو کم از کم 3.3ملین ڈالر جو کہ تقریبا 27 کروڑ 44 لاکھ انڈین اور 50کروڑ سے زیادہ پاکستانی روپے کے برابر کی سرمایہ کاری درکار تھی۔ تحقیقات کے بعد آسٹریلین حکومت نے محسوس کیا کہ یہ پالیسی اپنا مقصد حاصل نہیں کر پا رہی ہے، اس تمام صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ گولڈن ویزا پروگرام میں کس حد تک کمیاب ہوتی ہے۔ امریکہ سمیت درجنوں ممالک کی ترقی اور کامیابی کی بنیادی وجہ با صلاحیت لوگوں کا خون پسینہ شامل ہوتا ہے، اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے جس ترقی میں دنیا بھر سے آئے ہوئے باصلاحیت تارکین وطن کا خون پسینہ شامل ہے۔ پیو ریسرچ سینٹرتھینک ٹینک کے تجزیے کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن امریکہ میں بسنے والے کل تارکین وطن آبادی کا تقریبا 23 فیصد ہیں۔ تقریبا ًایک کروڑ 10لاکھ جن میں سے 40لاکھ کا تعلق میکسیکو سے ہے، انسٹیٹیوٹ ان ٹیکسیشن اینڈ اکنامک پالیسی کی ایک تحقیق کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن نے 2022 میں وفاقی ریاستی اور مقامی ٹیکسوں کی مد میں تقریبا 100 ارب ڈالر ادا کیے اگر امریکہ کی حالیہ تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تارکین وطن یا ان کے بچوں کی ایک بڑی تعداد آگے چل کر معروف کاروباری افراد بنی ہے۔ آمدنی کے لحاظ سے 500سب سے بڑی امریکی کمپنیوں کی سالانہ فہرست فورچون 500 کا تقریبا 45 فیصد تارکین وطن یا ان کے بچوں کی طرف سے قائم کیا گیا تھا اورتارکین وطن نے 55فیصد امریکی ا سٹارٹ اپس قائم کیے ہیں جن کی مالیت ایک ارب ڈالر یا اس سے زیادہ ہے۔ تارکین وطن نے عالمی تیکنیکی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور ان میں سے بہت سے ابتدائی طور پر بین الاقوامی طالب علموں کے طور پر امریکہ آئے تھے۔ ایسوسی ایشن اف انٹرنیشنل ایجوکیٹرز کے مطابق 2022 سے 2023 کے تعلیمی سال میں 10 لاکھ سے زائد بین الاقوامی طالب علموں نے امریکی معیشت میں 40 ارب ڈالر کا حصہ ڈالا اور ٹیوشن اور رہائش کے اخراجات کے ذریعے 3 لاکھ 68 ہزار سے زائد ملازمت کے مواقع پیدا کیے۔ امریکی معیشت میں تارکین وطن کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے ،ٹرمپ انتظامیہ کو دنیا بھر کے ان ممالک سے جنہوں نے گولڈن ویزا پروگرام متعارف کرایا تھا اور انہیں بری طرح ناکامی ہوئی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گولڈن ویزا پروگرام کا امریکہ میں کامیاب ہونے کا امکان کم ہے ،اس کی بنیادی وجہ اس کی فیس 50لاکھ ڈالر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔