... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
ا مریکی صدر ٹرمپ کا یوکرین جیسے دوست ملک کے سربراہ کو روس جیسے دشمن کی ناز برداری کی خاطرذلیل کردینے نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا۔یوکرینی صدر والدیمیر زیلنسکی کی قصرِ ابیض میں ٹیلی ویژن کیمرے کے سامنے رسوائی ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ ہے کہ جس کا تصور محال تھا۔ عالمی رہنماوں کے درمیان اختلافات فطری ہیں۔ ان کی گفتگو میں گرما گرمی بھی ہوجاتی ہوگی لیکن وہ سب بند دروازوں کے پیچھے ہوتا ہے ۔ عوام کے سامنے یا تو انہیں ظاہر نہیں کیا جاتا یا رفع دفع کردیا جاتا ہے ۔ زیلنسکی کا اوول دفتر سے نکال دیا جانا امریکہ کے نیٹو سے نکل جانے جیسا ہے ۔ عالمی سیاست پر اس کے ویسے ہی اثرات پڑیں گے جیسے خلافتِ عثمانیہ سے ترکی کے دستبردار ہوجانے سے پڑے تھے ۔ وہ مسلمانوں کی مغلوبیت کا آغاز تھا اور یہ مغرب کے زوال کی ابتداء ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ چین جیسا طاقتورحریف امریکی برتری کو چیلنج کررہا ہے امریکہ کو یوروپی حمایت کی ضرورت سب سے زیادہ ہے ۔ ٹرمپ نے سنسکرت کے محاورہ ‘وناش کالے ویپریت بدھی’ کی مصداق خود اپنے پیروں پر کلہاڑی چلا دی۔
پچھلے دو ہفتوں کے اندر نیٹو میں شامل ممالک کو دو جھٹکے لگے اور دونوں کا مرکز و محور یوکرین روس تنازع تھا ۔ پہلے تو یوکرین کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور حفاظتی کونسل میں دو متضاد قراردادیں منظور ہوئیں جن میں اس اتحاد کے ممالک مخالف سمتوں میں نظر آئے ۔ جنرل اسمبلی میں یوروپی ممالک کے ذریعہ پیش کردہ قرار داد میں روس کو حملہ آور بتایا گیا تو امریکہ اس کی مخالفت میں جارحیت کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ اقوام متحدہ میں یوکرین کی علاقائی وحدت کی حمایت کے لیے قرارداد پر ووٹنگ ہوئی تو اس کے حق میں 93 ووٹ آئے ۔ جبکہ 16 ممالک نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا اور 65 غیر جانبدار بن گئے ۔پہلے مرحلے میں امریکہ بھی ماسکو کے ساتھ قرارداد کا مخالف تھا۔ اس کو راضی کرنے کے لیے ترمیم شدہ متن لایا گیا تب بھی امریکہ نے اس کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کیا۔ اس کے بعد جب حفاظتی کونسل میں امریکہ نے تجویز پیش کی تو اس کے متن سے علاقائی وحدت کے الفاظ مٹا دیئے گئے ۔ یوروپی ممالک نے اس کی حمایت نہیں کی اور دس کے مقابلے صفر ووٹ سے وہ قرار داد بھی منظور ہوگئی۔ اس طرح مغربی ممالک کی پھوٹ کھل کر سامنے آگئی۔
اقوام متحدہ میں جس روز یہ تماشا چل رہا تھا فرانس کے صدر ایمینوئل میکرون امریکہ میں تھے ۔ صدر ٹرمپ نے ان پر دھونس جمانے کی کوشش کی تو بات بگڑنے لگی ۔ ٹرمپ کا الزام تھا کہ یوروپ نے یوکرین کے معاملے میں اپنی ذمہ داری نہیں ادا کی۔ اس الزام کی تردید کرتے ہوئے میکرون نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں ٹوکا اور کہا کہ یہ بات غلط ہے ۔ یوروپ نے جنگ کا 65 فیصد خرچ اٹھایا ہے ۔ صدر ٹرمپ اپنی اس ذلت کا بدلہ میکرون سے نہیں لے سکے لیکن زیلنسکی جیسے کمزور سربراہ کودبانے کی کوشش کی ۔ اس پر روس کے علاوہ دنیا کے سارے رہنما یوکرین کی حمایت میں آگئے ۔ روس کے سابق صدر دمتری میدودوف نے خوش ہوکر کہا کہ امریکی صدر نے زیلنسکی کو زور دارتھپڑا مارا ہے ، ان کے سامنے یہ سچ بولا گیا ہے کہ وہ تیسری عالمی جنگ چاہتے ہیں ۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے زیلنسکی کو نیو نازی رہنما قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے واشنگٹن میں قیام کے دوران اپنے غضب ناک رویے سے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ایک غیر ذمہ دار جنگجو کے طور پر عالمی برادری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ ایک یہودی رہنما کے لیے نازی کے لقب سے بڑی گالی کوئی اور نہیں ہوسکتی ۔ انہوں نے کہاٹرمپ اور وینس کا تصادم کے دوران زیلنسکی کو مارنے سے خود کو روکنا ایک معجزہ ہے حالانکہ امریکہ کے ذریعہ روس کی ایسی زبردست حمایت کسی کرامت سے کم نہیں ہے ۔
روس کا اس نعمتِ غیر مترقبہ پر پھولا نہیں سمانا تو خیر فطری ہے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے یوکرینی ہم منصب ولادومیر زیلنسکی کے درمیان تکرار نے مؤخر الذکر کو اچانک زیرو سے ہیرو بنا دیا ۔ زیلنسکی نے اپنی جرأتمندی سے نہ صرف وائٹ ہاوس کو فائٹ ہاوس میں تبدیل کردیا بلکہ بیک وقت ٹرمپ اور وینس کو گھر میں گھس کر مارا۔ ٹرمپ نے جب اپنی شیخی بگھارتے ہوئے کہا کہ بیوقوف بائیڈن نے تمہیں کئی بلین ڈالر دئیے تو جواب میں زیلنسکی نے کہہ دیا کہ وہ آپ کا صدر تھا۔ یعنی اگر تم اپنے صدر کی عزت نہیں کرتے تو کسی اور کی کیا کروگے ؟ اسی طرح جب دونوں صدور کی بات چیت کے دوران وینس نے مداخلت کرکے ٹرمپ کا موقف سمجھانے کی کوشش اور ان کے ملک کی بربادی کا بے سرا راگ الاپا تو زیلنسکی نے ان سے سوال کردیا کیا آپ کبھی یوکرین آئے ہیں؟ اس پر وینس کے چہرے پرہوائیاں اڑنے لگیں ۔ انہوں نے کہا میں یوکرین گیا تو نہیں ہوں مگر میں نے رپورٹس دیکھی ہیں۔ اس پر زیلنسکی کا کہنا تھا ایک بار آکے دیکھیے گویا کہہ رہے ہوں ہوا میں تیر ما رنے کے بجائے بولنے سے پہلے دیکھیے پھر بولیے۔
سچ تو یہ زیلنسکی نے دونوں بڑے میاں اور چھوٹے میاں کو چاروں خانے چِت کردیا۔امریکہ کے صدر ٹرمپ نے دنیا کو بتانے کی خاطر کہ وہ کس قدر دلیر ہیں اور اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے کہ وہ کیسے اپنے مدمقابل کو رسوا کرتے یہ تماشا ٹیلیویژن کیمرے کے سامنے کیا لیکن داوں الٹا پڑگیا۔ یہ سب اگر بند کمرے میں ہوتا اور کوئی گھر کا بھیدی اس راز کو فاش کرتا تو کسی کو یقین نہیں آتا مگر اپنے آپ کو رسوا کرنے کا انتظام خود ٹرمپ نے کروایا اوپر سے یہ احمقانہ دعویٰ بھی کردیا کہ وہ ایک اچھا ٹی وی شو ہے ۔ یہ بات تو درست ہے کہ ‘حقیقی بگ باس شو’ بہت دلچسپ تھا مگر اس میں سے زیلنسکی نام کا سابق کامیڈین ہیرو بن کر باہر آیا اور اپنے آپ کو رستم زماں سمجھنے والا ٹرمپ ولن بن گیا۔ نائب صدر وینس کی حالت ایک ایسے کامیڈین کی تھی جس کی اداکاری پر ہنسی کے بجائے رونا آتا ہے ۔ ساری دنیا کے سامنے ٹرمپ اور وینس کے احمق جوڑی نے امریکہ کو ذلیل کردیا اور خود امریکہ کے اندر بھی تنقید کا نشانہ بن گئے ۔
امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ اوول آفس میں لفظی جنگ کے بعد یوکرین کے صدر ولادومیر زیلنسکی نے شکریہ تو ادا کیا مگر معافی مانگنے سے انکار کردیا ۔ ان کا کہنا تھا چونکہ انہوں نے کوئی غلطی کی ہی نہیں کہ اس لیے وہ کسی قسم کی معافی کے پابندنہیں ہیں ۔ ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ امریکی صدر اور اس کے عوام کا احترام کرتے ہیں ، امریکہ اور یورپ ہمارا دوست ، روس اور پوتن ہمارے دشمن ہیں۔ یعنی امریکہ سے مرعوب ہوئے بغیر روس کے تعلق سے انہوں نے اپنے غیر متزلزل موقف کو پیش کردیا ۔ یہ یوکرینی عوام کے دل کی آواز ہے ۔ زیلنسکی یوکرین کیلئے امریکی حمایت کو اہم قرار دیتے ہیں مگر حفاظتی ضمانتوں کے بغیر امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں جبکہ ٹرمپ فوری جنگ بندی پر اصرار کررہے تھے ۔ زیلنسکی کے لیے یہ تجویز اس لیے ناقابلِ قبول تھی کیونکہ ان کے مطابق پچھلے گیارہ سالوں میں پوتن پچیس بار وعدہ خلافی کر چکے ہیں۔
ٹرمپ کا سارا زور اس بات پر تھا چونکہ زیلنسکی جنگ ہار رہے ہیں اس لیے انہیں سپر ڈال دینا چاہیے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ثابت کرتے کہ روس حق پر ہے اور زیلنسکی ناحق لڑ رہے ہیں۔ بصورتِ دیگر ان کو کہنا چاہیے تھا حالانکہ تم ہار رہے ہو مگر ہم تمہارے ساتھ ہیں اس لیے اپنے حق کے لیے لڑتے رہو ۔ ٹرمپ کا یہ بزدلانہ موقف کسی سُپر پاور کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا تھا۔ ٹرمپ بھول گئے کہ بلی کو اگر دروزہ بند کرکے مارا جائے تو وہ پلٹ کر جھپٹ پڑتی ہے ۔ زیلنسکی نے یہی کیا اور وہ اپنے عوام کی نظروں میں شیر بن گئے ۔ زیلنسکی کی مدت کار پچھلے سال ختم ہوگئی مگر انہوں نے جنگ کے بہانے مارشل لا لگاکر انتخاب ملتوی کردئیے ۔ اسی لیے ٹرمپ ان کو نااہل اور آمر قرار دے کر استعفیٰ دینے کے لیے کہہ دیا تھا ۔ ٹرمپ کے مطابق زیلنسکی کی مقبولیت میں 4 فیصد کمی آگئی ہے ۔ اس لیے انہیں نئے الیکشن کی طرف جانا چاہیے ۔ اس دخل اندازی پر اعتراض کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا تھا ‘یہ اعداد و شمار ٹرمپ کو روس نے فراہم کیے ہیں۔’ روس پچھلے سال مئی سے یوکرین میں نئے انتخابات کا مطالبہ کرتا رہا ہے مگر اب اسے امریکہ کے اعلیٰ ترین سطح سے غیر متوقع تائید مل گئی ۔ ویسے تازہ سروے میں 57 فیصد نے زیلنسکی کی حمایت کی اور 37 فیصد نے ان کے خلاف رائے دی ۔ لیکن ٹرمپ کی حماقت کے بدولت ان مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا ہوگا اوروہ بڑے آرام سے الیکشن جیت جائیں گے ۔ ٹرمپ نے زیلنسکی کو نقصان پہنچانے کے چکر میں ان کا بھلا کردیا۔