... loading ...
آج کل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق پٹیل
امریکی انتخابات نے دنیا کا منظر نامہ تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستانی حکمران اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے مکمل محروم ہیں اور ہو ا میں تیر چلا رہے ۔امریکی صدر کے ایک بیان سے یہ تصور کرلینا کہ عالمی سطح پر حکومت کو پذیرائی مل گئی ہے۔ ایک خام خیالی ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ عوامی حمایت سے محروم اور عوامی نفرت کا شکار حکومت نہیں کرسکتی ہے ۔ایسی حکومت کا تسلسل دہشت گردی میں اضافہ کا باعث ہوگاجنگ کی جدید حکمت عملی میں ایک اہم حکمت عملی لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنا ہے۔ ان کی نفرت مول لینا نہیں ہے۔ فروری 2024 کے انتخابات میں دھاندلی کی دنیا بھر کے معتبر میڈیا اور مبصرین کی جانب سے نشاندہی کے بعد دنیا بھر میں بھی یہ تاثر عام ہے کہ موجودہ حکومت عوامی مینڈیٹ سے محروم ہے لہٰذا موجودہ نظام کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ملک کے اہم ادارے مقننہ ،عدلیہ اور میڈیا کو کٹھ پتلی بنادیا گیا کئی مبصّر ٹی وی پر اعلانیہ اسے مارشل لاء سے تعبیر کرتے ہیں جس میں انسانی حقوق کا خاتمہ ہو چکا عوام کے تمام حقوق غصب کرلیے گئے ہیں اگر جلد بحالی جمہوریت کے فیصلے نہ کیے تو انہیں دنیا بھر میں پابندیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
نئی امریکی حکومت کی ترجیحات سے ایک واضح اور مسلمہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ اب دنیا بھر میں عوامی حمایت سے محروم اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی پر مشتمل حکومتوں اور سیاست دانوں پرامریکا کی جانب سے سرخ کانٹا لگا یا جا رہا ہے فی ا لحال یورپ اور امریکہ کے درمیان کشیدگی ہے یہ کشیدگی دیرپا نہیں ہوگی کچھ عرصے کے بعد غالب امکان یہ ہے کہ مغربی ممالک بھی اس نئے منصوبے کو باالعموم قبول کرلیں گے اب دنیا بھر میں شفافیت اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی حکومتوں کو ہی پذیرائی ملے گی جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو دنیا کے اہم معیاری جمہوری نظام کی روح کے مطابق انتہائی محدود رکھنا لازم ہوگا انسانی حقوق کا احترام کرنا ہوگا عدلیہ کی آزادی کو فروغ دینا ہوگا ۔آزادی اظہار اور صحافت کی آزادی کو یقینی بنانا ہوگا حیرت ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو اس عالمی تبدیلی کا مکمل اندازہ نہیں ہے کہ پاکستان میں جمہوریت حقیقی معنوں میں بحال نہیں ہوئی تو مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کے اہم عہدیداروں پر بھی سرخ کانٹا لگ سکتا ہے ۔ان کی اور فرنٹ مینوں کی دولت جائیدادوں اور طرز زندگی کا آڈٹ ہوگا ، اس وقت حکمرانوں کی جانب سے جو نیم دلانہ سرگرمیاںکی جارہی ہیں ان میں نوجوانوں سے رابطے کی ایسی کوشش ہے جس کے نتائج حکومت کے لیے مزیدنقصان اوربدنا می کا باعث ہیں ۔حالیہ دنوں میں ملک کے اہم عہدیداروں کی جانب سے طالب علموں سے مکالمے کی کوشش سے آسانی سے اندازہ لگا یا جا سکتاہے کہ یہ سب کچھ گھبراہٹ کے عالم میں اس لیے کیا گیا جارہا ہے کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر حکومت پر جمہوریت کی بحالی پر زور دیا جارہا ہے ۔اس وقت پاکستان میں کالجوں، یونیورسٹیوں اور متبادل اداروں میں طلبہ و طالبات کی تعداد ساٹھ سے ستر لاکھ کے درمیان ہے اگر زور لگا کر تیس ہزار سے جبری رابطہ کیا جارہا ہے تو وہ ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ ملک میں طلبہ یونین کو بحال کرکے ان کے نما ئندوں سے مذاکرات کئے جائیںاس کے بعد کسی قسم کی برف پگھلنے کی کوئی امید ہو سکتی ہے۔ محض تصویریں بنوانے اور ٹی وی کوریج سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ سرکاری خودنمائی کی خبروں کو دیکھ کر لوگ چینل بدل لیتے ہیں نوجوان نسل کو راغب کرنے کے لیے خود کو عبدالستار ایدھی ،ادیب رضوی اور دیگر انسان دوست جیسا انسان بنا کر پیش کرنا ہوگا ۔بڑے بڑے محلات اور مال ودولت کوکسی بہت ہی معتبر خیراتی ادارے کو دے کر خود کو عام انسان کی حیثیت سے پیش کرنا ہوگا ۔دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جائیدادوں اورمال ودولت کی بنیاد پر جھوٹی شان وشوکت کے ذریعے نوجوانوں اور غریبوںکو راغب کرنا ممکن نہیں ہے نوجوان آزادانہ ماحول چاہتے ہیں جہاں وہ اپنے جذبات کابھی اظہار کر سکیں۔سخت پابندیوں ،سیکوریٹی کے لوازمات اور پروٹوکول کے ماحول میں طلبہ سے مکالمے سے مزید منفی جذبات پید ہورہے ہیں اورنتیجے میں نفر ت میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہورہا ہے۔ طالب علموں کو راغب کر نا ہے تو طلبہ یونین بحال کریںملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیںہر ادارے کو اپنے متعین کردہ حدود میں رہ کرمنصفانہ اور ایمانداری سے کا م کرنے کا طریقہ کار ہی اچھی حکمرانی کا باعث بنتاہے ۔
ایک مشہور کہاوت ہے کہ ” جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے” یعنی وہ متعین حدود سے باہر نکل کر اپنے آپ کو بے نقاب کردیتا ہے لوگوں کے سامنے آنے لگتا ہے اور لوگوں کے عتاب کا شکار ہوجاتا ہے جنرل ایوب نے فوج سے دستبردار ہوئے بغیر سیاست میں حصہ لیا 1956کے آئین کو 1958میں ختم کرکے مارشل لاء نافذ کردیا چار سال محض احکامات سے کام چلاتے رہے 1962 میں اپنا دستور نافذ کردیا جس پر حبیب جالب نے لکھا ” دیپ جس کا محلات میں جلے ۔ چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے۔ ایسے دستور کو صبح بے نورکو۔میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا ۔1967 اور1968میں گلی گلی میں ایوب خان کے خلاف نعرے لگ رہے تھے بالآخر انہوں نے اقتدا ر یحییٰ خان کے حوالے کردیا اور ملک کا بڑا حصہ مشرقی پاکستان ٹوٹ کر علیحدہ ہوگیا جو آج نسبتاً خوشحال ہے اور عوام کے حقوق بھی کافی حد تک بحال ہیں جس طرح ہمارے ملک میںبرسر اقتدار سیاسی جماعتیں عوامی خواہشات اور امنگوں کا گلا گھو نٹ کر اس نظام کو تسلسل دینے کی کوشش کر رہی ہے ۔اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہ ہوگا ۔دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی جھوٹ پر مبنی جعلی نظام کو سہارا نہیں دے سکتی ہے۔ دنیا سے اس بات کی توقع رکھنا کہ وہ مینڈیٹ چوری کو جائز قرار دے کسی صورت ممکن نہیں ہے ۔وقتی مفاد کے لیے کسی طاقت کی پذیرائی سے ملک کا نظام ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔ملک کے نظام میں اصل خرابی اندرونی ہے جو جمہوریت ،عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کے خاتمے سے پیدا ہوئی ہے ۔ دوسری خرابی موجودہ بر سر اقتدار سیاسی جماعتوں کا تیز رفتاری سے مسلسل عوامی حمایت سے محروم ہونا ہے۔ بر سراقتدار جماعتیں مردہ گھوڑوں کی شکل اختیار کر رہی ہیں ۔انہیں زندہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ حکمراں جماعتیں اپوزیشن کو کچلنے کے اقدامات کرکے مزید بدنام ہورہی ہیں عمران خان کو قید کرکے اس کے سیاسی قد میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے سیا ست میں عہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اصل بات دلو ں پر حکمرانی کی ہے اس کے لیے اچھی حکمرانی کے لوازما ت ضروری ہیں جس کی پہلی شرط غیر جانبدارانہ منصفانہ انتخابات سے قائم ہونے والی حکومت ،آزادعدلیہ اور آزاد میڈیا ہے۔ عمران خان کی زندگی کے خاتمے سے مسئلہ حل نہیں ہوگاغیر جمہوری طریقہ کار اور انسانی حقوق کی پامالی کے کینسر کو ختم نہ کیا گیا توانجام خطرناک ہوگا ملک کی اشرافیہ کو بھی سوچنا ہوگا اور جلد ہی کوئی راہ تلاش کرنی ہوگی دیگر صورت مزید نقصان کے سوا کچھ نہیںہے ۔