وجود

... loading ...

وجود

کشمیریوں کا اظہارِ رائے اور علمی آزادی کو دبانے کا تسلسل

جمعه 07 مارچ 2025 کشمیریوں کا اظہارِ رائے اور علمی آزادی کو دبانے کا تسلسل

ریاض احمدچودھری

بھارتی پولیس نے مقبوضہ کشمیر میں درجنوں کتاب فروش دکانوں پر چھاپے مار کر 650 سے زائد کتابیں ضبط کر لیں۔ یہ کارروائی بھارتی فوج کی جانب سے اظہارِ رائے اور علمی آزادی کو دبانے کے تسلسل کا حصہ قرار دی جا رہی ہے۔ضبط کی جانے والی کتابوں میں نامور اسلامی اسکالر اور جماعت اسلامی کے بانی ابو الاعلیٰ مودودی کی تصانیف شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کو بھارت نے پہلے ہی غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔چھاپے گزشتہ جمعے کو سرینگر میں شروع کیے گئے، جس کے بعد دیگر علاقوں میں بھی یہ کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔ سرینگر پولیس کے مطابق یہ چھاپے ایک ”معتبر اطلاع” پر مارے گئے، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ کالعدم تنظیم کی نظریاتی کتابیں خفیہ طور پر فروخت اور تقسیم کی جا رہی ہیں۔پولیس کے مطابق مجموعی طور پر 668 کتابیں ضبط کی گئی ہیں۔
یہ کتابیں زیادہ تر نئی دہلی میں قائم ”مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز” کی جانب سے شائع کی گئی تھیں، جو جماعت اسلامی کی ہندوستانی شاخ سے وابستہ ہے۔ بھارتی پولیس نے الزام لگایا کہ یہ کتابیں قانونی ضوابط کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور ان کے حامل افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔فروری 2019 میں بھارتی حکومت نے جماعت اسلامی پر پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی تھی، جسے بعد ازاں 2024 میں مزید پانچ سال کے لیے بڑھا دیا گیا۔ اگست 2019 میں مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختاری کو ختم کر دیا تھا، جس کے بعد انسانی حقوق کی پامالیوں میں تیزی آ گئی۔جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے بھارتی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کتابوں کی ضبطی ”غیر منصفانہ، غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی” ہے۔ جماعت کے مطابق یہ کتابیں قانونی طور پر دہلی میں شائع ہوتی ہیں اور اگر حکومت کو کوئی تحفظات ہیں تو وہ قانونی تحقیقات کرے، لیکن اس طرح نظریات کو دبانے کا عمل غیر منطقی اور جانبدارانہ ہے۔
کشمیری حریت رہنما اور وادی کے چیف مفتی عمر فاروق نے اس کریک ڈاؤن کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ”اسلامی کتب پر پابندی عائد کرنا نہایت ہی قابل مذمت اور مضحکہ خیز ہے۔” ”خیالات پر پہرہ بٹھانے کی کوشش کرنا اور کتابوں کو ضبط کرنا آزادی اظہار کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر اس دور میں جب تمام معلومات ورچوئل دنیا میں آسانی سے دستیاب ہیں۔”واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف 1947 سے مزاحمت جاری ہے، اور اب تک لاکھوں کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔1989 میں جب کشمیری مزاحمت مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوئی تو حزب المجاہدین نے جماعت اسلامی کی عسکری ونگ ہونے کا اعلان کیا تھا، تاہم جماعت اسلامی نے بعد میں اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں اور اس نے کبھی مسلح کارروائی کی حمایت نہیں کی۔بھارتی فورسز کی جانب سے اسلامی نظریات کو دبانے کے اس اقدام کو عالمی سطح پر بھی شدید تنقید کا سامنا ہے، لیکن مودی حکومت کی آمرانہ پالیسیوں کے باعث مقبوضہ وادی میں آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
کٹھ پتلی وزیرِ اعلیٰ عمر فاروق نے اس حرکت کی مذمت کرتے ہوئے اسے دباؤ کا ہتھ کنڈا قرار دیا ہے۔ یہ کتب تو انٹر نیٹ پر بھی موجود ہیں۔خطے میں رہنے والے بہت سے کشمیریوں اور تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے 2019ء میں ریاستی خود مختاری ختم کرنے سے شہری آزادیوں پر قدغن لگی ہے۔مقبوضہ جموں کشمیر میں اسلامی کتب ضبط کر نے پر شدید احتجا ج جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دارالحکومت سری نگر سے شروع ہونے والا چھاپوں کا سلسلہ مقبوضہ کشمیر کے دیگر علاقوں میں پھیل گیا ہے۔مسلم رہنماؤں نے اس اقدام کو مذہبی لٹریچر پر بلا جواز حملہ قرار دیا ہے۔مقبوضہ ریاست میں پولیس نے بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ایک کالعدم تنظیم کے نظریات پھیلانے والی کتب کے خلاف یہ کارروائی کی جا رہی ہے، تاہم مقامی کتب فروشوں نے اس دعوے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔کل جماعتی حریت کانفرنس نے مقبوضہ کشمیرمیں شہری آزادیوں پر قدغن اور صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کئے جانے پراقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کی تشویش کا خیرمقدم کیا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر کے سیکرٹری جنرل ایڈوکیٹ پرویز شاہ نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں پر بھارت کو جواب دہ بنائے جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ترقی کے مودی حکومت کے ترقی کے دعوے بے نقاب ہو گئے ہیں اور ضلع کشتواڑ میں سڑکوں اور علاج معالجے کی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایک حاملہ خاتون کو مجبوراً سڑک پر بچے کو جنم دینا پڑا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے مودی کی بھارتی حکومت کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دینے پر نیشنل کانفرنس پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ کشمیری عوام کے حق میں آواز بلند نہ کرنے پر نام نہاد وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگست 2019ء کے بعد کشمیریوں کو ان کے اختیارات اور حقوق سے محروم کیا گیا ہے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیریوں کا اظہارِ رائے اور علمی آزادی کو دبانے کا تسلسل وجود جمعه 07 مارچ 2025
کشمیریوں کا اظہارِ رائے اور علمی آزادی کو دبانے کا تسلسل

کیا پاکستان ایک اور جنگ کا ایندھن بن سکتا ہے! وجود جمعه 07 مارچ 2025
کیا پاکستان ایک اور جنگ کا ایندھن بن سکتا ہے!

بھارتی مداخلت سے کینیڈین جمہوری عمل متاثر وجود جمعرات 06 مارچ 2025
بھارتی مداخلت سے کینیڈین جمہوری عمل متاثر

یوکرین تنازع پر معدنیات حاوی وجود جمعرات 06 مارچ 2025
یوکرین تنازع پر معدنیات حاوی

جنگل راج کو چھوڑو اپنے منگل راج کی بات کرو! وجود جمعرات 06 مارچ 2025
جنگل راج کو چھوڑو اپنے منگل راج کی بات کرو!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر