... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارتی پولیس نے مقبوضہ کشمیر میں درجنوں کتاب فروش دکانوں پر چھاپے مار کر 650 سے زائد کتابیں ضبط کر لیں۔ یہ کارروائی بھارتی فوج کی جانب سے اظہارِ رائے اور علمی آزادی کو دبانے کے تسلسل کا حصہ قرار دی جا رہی ہے۔ضبط کی جانے والی کتابوں میں نامور اسلامی اسکالر اور جماعت اسلامی کے بانی ابو الاعلیٰ مودودی کی تصانیف شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کو بھارت نے پہلے ہی غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔چھاپے گزشتہ جمعے کو سرینگر میں شروع کیے گئے، جس کے بعد دیگر علاقوں میں بھی یہ کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔ سرینگر پولیس کے مطابق یہ چھاپے ایک ”معتبر اطلاع” پر مارے گئے، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ کالعدم تنظیم کی نظریاتی کتابیں خفیہ طور پر فروخت اور تقسیم کی جا رہی ہیں۔پولیس کے مطابق مجموعی طور پر 668 کتابیں ضبط کی گئی ہیں۔
یہ کتابیں زیادہ تر نئی دہلی میں قائم ”مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز” کی جانب سے شائع کی گئی تھیں، جو جماعت اسلامی کی ہندوستانی شاخ سے وابستہ ہے۔ بھارتی پولیس نے الزام لگایا کہ یہ کتابیں قانونی ضوابط کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور ان کے حامل افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔فروری 2019 میں بھارتی حکومت نے جماعت اسلامی پر پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی تھی، جسے بعد ازاں 2024 میں مزید پانچ سال کے لیے بڑھا دیا گیا۔ اگست 2019 میں مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختاری کو ختم کر دیا تھا، جس کے بعد انسانی حقوق کی پامالیوں میں تیزی آ گئی۔جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے بھارتی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کتابوں کی ضبطی ”غیر منصفانہ، غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی” ہے۔ جماعت کے مطابق یہ کتابیں قانونی طور پر دہلی میں شائع ہوتی ہیں اور اگر حکومت کو کوئی تحفظات ہیں تو وہ قانونی تحقیقات کرے، لیکن اس طرح نظریات کو دبانے کا عمل غیر منطقی اور جانبدارانہ ہے۔
کشمیری حریت رہنما اور وادی کے چیف مفتی عمر فاروق نے اس کریک ڈاؤن کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ”اسلامی کتب پر پابندی عائد کرنا نہایت ہی قابل مذمت اور مضحکہ خیز ہے۔” ”خیالات پر پہرہ بٹھانے کی کوشش کرنا اور کتابوں کو ضبط کرنا آزادی اظہار کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، خاص طور پر اس دور میں جب تمام معلومات ورچوئل دنیا میں آسانی سے دستیاب ہیں۔”واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف 1947 سے مزاحمت جاری ہے، اور اب تک لاکھوں کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔1989 میں جب کشمیری مزاحمت مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوئی تو حزب المجاہدین نے جماعت اسلامی کی عسکری ونگ ہونے کا اعلان کیا تھا، تاہم جماعت اسلامی نے بعد میں اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں اور اس نے کبھی مسلح کارروائی کی حمایت نہیں کی۔بھارتی فورسز کی جانب سے اسلامی نظریات کو دبانے کے اس اقدام کو عالمی سطح پر بھی شدید تنقید کا سامنا ہے، لیکن مودی حکومت کی آمرانہ پالیسیوں کے باعث مقبوضہ وادی میں آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
کٹھ پتلی وزیرِ اعلیٰ عمر فاروق نے اس حرکت کی مذمت کرتے ہوئے اسے دباؤ کا ہتھ کنڈا قرار دیا ہے۔ یہ کتب تو انٹر نیٹ پر بھی موجود ہیں۔خطے میں رہنے والے بہت سے کشمیریوں اور تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے 2019ء میں ریاستی خود مختاری ختم کرنے سے شہری آزادیوں پر قدغن لگی ہے۔مقبوضہ جموں کشمیر میں اسلامی کتب ضبط کر نے پر شدید احتجا ج جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دارالحکومت سری نگر سے شروع ہونے والا چھاپوں کا سلسلہ مقبوضہ کشمیر کے دیگر علاقوں میں پھیل گیا ہے۔مسلم رہنماؤں نے اس اقدام کو مذہبی لٹریچر پر بلا جواز حملہ قرار دیا ہے۔مقبوضہ ریاست میں پولیس نے بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ایک کالعدم تنظیم کے نظریات پھیلانے والی کتب کے خلاف یہ کارروائی کی جا رہی ہے، تاہم مقامی کتب فروشوں نے اس دعوے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔کل جماعتی حریت کانفرنس نے مقبوضہ کشمیرمیں شہری آزادیوں پر قدغن اور صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کئے جانے پراقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کی تشویش کا خیرمقدم کیا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر کے سیکرٹری جنرل ایڈوکیٹ پرویز شاہ نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں پر بھارت کو جواب دہ بنائے جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ترقی کے مودی حکومت کے ترقی کے دعوے بے نقاب ہو گئے ہیں اور ضلع کشتواڑ میں سڑکوں اور علاج معالجے کی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایک حاملہ خاتون کو مجبوراً سڑک پر بچے کو جنم دینا پڑا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے مودی کی بھارتی حکومت کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دینے پر نیشنل کانفرنس پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ کشمیری عوام کے حق میں آواز بلند نہ کرنے پر نام نہاد وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگست 2019ء کے بعد کشمیریوں کو ان کے اختیارات اور حقوق سے محروم کیا گیا ہے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔