... loading ...
حمیداللہ بھٹی
صدر ٹرمپ کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہاجا سکتا مگر یوکرینی صدر کو جس طرح زرائع ابلاغ کی موجودگی میں آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے، یہ کسی کے وہم وگمان میں نہ تھاکیونکہ یوکرین کوآج جن مصائب کا سامنا ہے اِس میں امریکی مقتدرہ اور دفاعی تنظیم نیٹو کااہم کردارہے جنھوں نے روس سے طے شدہ معاہدوں سے انحراف کیااور مشرقی یورپ تک نہ صرف نیٹو کی رُکنیت وسیع کی بلکہ فوجی دستوں کی تعیناتی کے ساتھ جدید ہتھیار بھی نصب کردیے جس پر روس نے احتجاج کیااور معاہدوں کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی لیکن جواب میں غیرسنجیدگی کامظاہرہ کیاگیا اوریوکرین کو تھپکی سے باورکرایاگیا کہ یہ دبوچنے کا اچھا موقع ہے ۔اگروہ روس سے ٹکراجائے تو نیٹو میں شامل تمام ممالک ساتھ دیں گے ۔قبل ازیں مبہم یقین دہانیوں پر یوکرین نے غیر جوہری ملک بننے کا احمقانہ فیصلہ کیا تھا ۔یادرہے کہ روس کے تہائی جوہری ہتھیاریوکرین کے پاس تھے جوہری صلاحیت سے محرومی کے بعدجب یوکرین یورپی یونین میں شامل ہونے اور نیٹو رُکنیت حاصل کرنے کی کوششوں سے باز نہ آیا توروس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیااور اُس نے براہ راست حملہ کر دیا مگر تھپکی دینے والے کسی ملک نے ہتھیار دینے کے سوایوکرین کی فوجی مدد نہ کی اب جبکہ یوکرین کے کئی اہم علاقوں پر روس کا قبضہ ہے تواصل فریقین کی بجائے روس سے امریکہ تیسرے ملک میںخود مذاکرات کررہا ہے اور نہ صرف روس کی تمام شرائط تسلیم کرنے پر تیار ہے جس پر یوکرینی قیادت رنجیدو پریشان ہے ۔
یوکرین چاہتا ہے کہ جنگ بندی کے متعلق ہونے والی گفتگومیں اُسے بھی شامل کیاجائے اِس کے لیے وہ مقبوضہ علاقوں سے دستبردار ہونے کے ساتھ نیٹو کی رُکنیت نہ لینے کی یقین دہانی کرانے پربھی تیارہے مگر امریکہ چاہتا ہے کہ یوکرین اُس کے کہنے پرغیر مشروط جنگ بندی کرے اورکسی قسم کی دفاعی یقین دہانی طلب کرنے کی بجائے اپنی قیمتی معدنیات امریکہ کو دینے کا معاہدہ کرلے مذکورہ اختلافات ہی دونوں صدور میں تلخی اور گرما گرمی کا باعث بنے۔
47سالہ ولادیمیرزیلنسکی سابقہ اداکار ہیں خوش شکل اور خوش لباس زیلنسکی کوبخوبی معلوم ہے کہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور اُن کے دل جیتنے کے لیے کچھ منفرد کرنا ہوتا ہے روس سے براہ راست ٹکرائو سے گریزکرنے والی اپنے ملک کی قیادت کو ڈرپوک کہہ کر اور یوکرین کو دنیاکا عظیم ترملک بنانے جیسی باتوں سے ہی وہ لوگوں میں مقبول ہوکر صدر منتخب ہوئے مگر منصب سنبھال کر روس کو للکارناغلطی تھی کیونکہ جوہری ہتھیاروں سے محرومی کے بعدایک دیوہیکل ہمسائے سے الجھنے کاکوئی جواز نہ تھا اگر زیلنسکی یورپ اور امریکہ سے تجارتی اور دفاعی تعلقات بڑھانے تک رہتے اور نیٹو رُکنیت کی ضدنہ کرتے تو روس شایدحملہ نہ کرتااب تین برس سے جو ہورہا ہے وہ دنیا کو معلوم ہے مگر امریکہ اور مغربی ممالک محض تماشائی ہیں امریکہ تو پھر بھی بقول اُس کے پانچ سو ارب ڈالردفاعی امداد دے چکا ہے مغربی ممالک کی تو امدادبھی قرض کی صورت میں ہے جس کا ایک ہی مطلب ہے کہ یوکرین کواستعمال کرنے کے بعد بیچ منجھدارچھوڑ دیاگیا ہے۔
79 سالہ ٹرمپ نے جب کہا کہ آپ کے پاس پتے نہیں ہیں تو زیلنسکی کا جواب میں پتے کھیلنے نہیں آیا کی بجائے یہ بنتا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کی صورت میں کھیل کے پتوں سے تو آپ نے ہمیں محروم کردیا اور جس جنگ بندی کا حکم دے رہے ہو یہ آپ نے ہی تو شروع کرائی ہے ۔جوبائیڈن دور میں زیلنسکی کا اہلیہ سمیت بے مثال استقبال کے ساتھ کانگرس سے خطاب کا موقع دیا گیا مقصد یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنا کر افواج روس کی سرحد کے پاس تعینات کراناتھا مگر ٹرمپ نے امریکی ایجنڈا یکسر بدل دیاہے جس کا زیلنسکی ادراک نہ کرسکے اب امریکہ قیمتی معدنیات ہتھیانے کے لیے جنگ ختم کرانا چاہتا ہے تاکہ امداد ی لاگت بمع منافع وصول کی جا سکے اور امریکہ اول کے عوض ٹرمپ اپنے مغربی اتحادیوں کو بھی کھونے پر تیار ہیں جس سے نیٹو کا مستقبل مخدوش ہو سکتاہے ۔
زیلنسکی کو کچھ مغربی ممالک اب بھی تھپکی دے رہے ہیں ۔قبل ازیں بھی تھپکی دیکر ہی اُنھیںجنگ میں دھکیلا گیا اور اب شکست دیکھ کردوری اختیارکرنے لگے ہیں جبکہ یوکرین کوامریکہ تین حصوں میں تقسیم کرنے کامطالبہ کرنے لگاہے اور زیلنسکی کو مجبور کیا جارہا ہے کہ صرف ایک حصہ اپنے پاس رکھے صدر زیلنسکی کا رویہ سفارتی آداب کے مطابق تھا یا نہیں لیکن اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہتک آمیز رویے کے باوجود ایک طاقتور ملک کے صدر کو اُس کے گھر بیٹھ کر انھوں نے دلیرانہ جواب دیا جب میزبان کو سفارتی آداب کا احساس نہ رہے تو مہمان بھی پاسداری کا پابندنہیں رہتا ٹرمپ کا کہنا ہے کہ زیلنسکی جسے ایک ہزار ڈالر کا سوٹ پہننے کا سلیقہ نہیں اِس بے وقوف کو پوٹن سنجیدہ لیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ رجیم چینج سے روس نواز صدر ہٹا کر امریکہ نواز زیلنسکی صدر منتخب ہوئے نیز روسی سرحد پر میزائل نصب کرنے کی سہولت کے عوض یوکرین کو نیٹو کی رُکنیت دینے کی پیشکش نہ کی جاتی تو یہ خطہ جنگ کامیدان ہرگزنہ بنتا ۔
اب یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ یوکرین تنازع پر مغرب جزوی تقسیم اور امریکہ الگ روش پر گامزن ہے اور یورپ میں عالمی اتحاد اور دفاعی اخراجات بڑھانے کی سوچ جنم لے چکی ہے کچھ جذباتی یورپی رہنما امریکہ کے بغیر براعظم کے تحفظ کی بات کرتے ہیںیہ تقسیم روس کے لیے بہترین ہے اسی لیے اُس کے خیال میں ٹرمپ عقلمند اور یورپ جنگ کو طول دینا چاہتا ہے مگر زیلنسکی کو اقتدار سے الگ کرناکسی کے لیے آسان نہیں رہا کیونکہ تمام تر دبائو کے باوجود وہ یوکرینی مفادکے محافظ رہنما بن کراُبھرے ہیں یوکرین کی معدنی ذخائر اُس کی بدقسمتی بن چکے ہیںہیںالیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے والی گریفائٹ برآمد کرنے میں اُس کا دنیامیں پانچواں نمبر پر ہے بیٹریاں بنانے والی لیتھیئم ، جہاز اور پاورسٹیشنز بنانے میں استعمال ہونے والی ٹائٹینیم سمیت دیگر سترہ قسم کی معدنیات کے بھی وسیع ذخائر ہیں جن پر امریکہ کی نظریں ہیں ویسے تو روس کی طرف سے بھی یوکرین سے چھینے گئے علاقوں میں موجودمعدنیات تک امریکہ کو رسائی دینے کی پیشکش ہے لیکن امریکی قیادت تقریباً مفت کے لالچ میں ہے اسی لیے شکست خوردہ یوکرین کو نوچناچاہتی ہے تاکہ نایاب معدنیات کے حوالہ سے مستقبل میں چین کی محتاجی نہ رہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چین دنیا کے پچھتر فیصد کے قریب معدنی ذخائرکوکنٹرول کرتا ہے تجارتی مسابقت کی وجہ سے اُس نے گزشتہ ستمبرمیں امریکہ کو کچھ معدنیات برآمد کرنے پر پابندی لگا دی تھی جس کی وجہ سے امریکہ کے لیے ناگزیر ہو گیا ہے کہ چین پر انحصار کم کرتے ہوئے متبادل تلاش کرے بدقسمتی سے یوکرین متبادل دستیاب ہے اسی لیے جنگ تنازع پر معدنیات حاوی نظر آنے لگی ہیں۔