... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
ہر سال5مارچ کو تخفیف اسلحہ اور عدم پھیلاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصددنیا بھر میں اس بات کی آگاہی پیدا کرنا ہے کہ ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور ان کا استعمال نہ صرف عالمی امن کے لیے خطرہ ہے بلکہ انسانیت کی بقاء کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ نومبر 2024میں پاکستان نے تخفیف اسلحہ کے حوالے سے چار قراردادیں اقوام متحدہ میں پیش کیں جنھیں اقوام متحدہ کی فرسٹ کمیٹی نے منظور کرلیااس کے علاوہ پاکستان کی علاقائی تناظر میںپیش کردہ اعتماد سازی کے اقدامات کی قرارداد اورعلاقائی و ذیلی علاقائی سطح پر روائتی ہتھیاروں پر قابو پانے کی قرارداد بھی منظور کی گئی جوکہ پاکستان کی ایک اہم کامیابی ہے۔
روایتی ہتھیاروں سے لے کر جوہری ہتھیار تک نسل انسانی کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیامیں کہیں نہ کہیں ہر دو منٹ میں ایک انسانی زندگی ہتھیاروں کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہی ہے۔روایتی یا چھوٹے ہتھیاروںکے اثرات اکثر نظرانداز کردیئے جاتے ہیں حالانکہ چھوٹے ہتھیار روزانہ 700 سے زیادہ انسانی جانیں لے لیتے ہیں۔ سن 2021 میں دنیا بھر میں 40 فیصد اموات چھوٹے ہتھیاروں کے استعمال سے ہوئیں جبکہ بعض علاقوں میں یہ تعداد 70 فیصد تک ہے۔روایتی ہتھیاروں کے مقابلے میں جوہری ہتھیاروں سے نہ صرف انسان بلکہ ہر جاندار کو شدید خطرہ لاحق ہے۔عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے لیے متعدد معاہدے اور پالیسیز موجود ہیں، جیسے کہ ”جوہری عدم پھیلاؤ معاہدہ” (NPT)، جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کی تیاری، پھیلاؤ اور استعمال کو روکنا ہے۔ اس معاہدے نے دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کو محدود کرنے اور ان کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، مگر اس کے باوجود دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کا خطرہ کم نہیں ہوا ہے۔ااقوام متحدہ نے اپنے قیام کے بعد سے دنیا کوتخفیف اسلحہ اور عدم پھیلاو سے متعلق آگاہی اور اقدامات شروع کردیئے تھے۔سن 1946 میں جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر تباہ کن جوہری بمباری کی وجہ سے 200,000 سے زائد افراد کی ہلاکتوں کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی پہلی سرکاری کارروائی کرتے ہوئے جوہری توانائی سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک کمیشن قائم کیا۔ اقوام متحدہ نے دنیا کو جوہری ہتھیاروں کا نشانہ بننے سے بچانے کے لئے ایک جامع فریم ورک تیار کرتے ہوئے 28 بین الاقوامی معاہدے کئے جن کا مقصدروائتی ہتھیاروں سے لے کر جوہری ہتھیاروں کو محفوظ دائرہ کار میں لانا ہے ۔
جوہری ہتھیاروں کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: جوہری، حیاتیاتی، اور کیمیائی۔ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال پہلے ہی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں خصوصا پہلی جنگ عظیم کے دوران سن 1945 میں جوہری ہتھیاروں کی تباہ کن آزمائش نے ان ہتھیاروں کی ہولناکی کو نمایاں کر دیا۔ جوہری اسلحہ کی کمی کے لئے کی جانے والی کوششوں کے باوجود آج بھی دنیا بھر میںتقریباً 12,400 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔جوہری ہتھیاروں کے تجربات کی روک تھام سے متعلق بین الاقوامی تنظیمCTBTO کی رپورٹ کے مطابق سن 1945 سے لے کر سن 1996 کے درمیان 2,000 سے زائد جوہری ہتھیاروں کے تجربات کئے گئے جن میں سے کئی تجربات نے نے ہیروشیما بمباری سے کہیں زیادہ تباہی مچائی۔جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کا معاہدہ 2021 میں نافذ ہوا جس کے بعدجوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لئے خصوصی طور پر پہلا قانونی فریم ورک قائم کیاگیا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق عالمی فوجی اخراجات 2023 میں ریکارڈ 2.4 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئے اسی سال چھوٹے ہتھیاروں کی تشدد سے اقتصادی نقصان 22.6 بلین ڈالر تھا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ ہتھیاروں کے اخراجات کا ایک چھوٹا حصہ انسانیت کی زندگیوں کو نمایاں طور پر بہتر بنا سکتا ہے مثال کے طور پر ایک ٹینک کی قیمت سے 26,000 افراد کو ملیریا کا علاج کیا جا سکتا ہے، ایک اسٹیلتھ فائٹر کی قیمت سے 200,000 بچوں کے لیے ایک سال کی تعلیم فراہم کی جا سکتی ہے اور ایک طیارہ بردار بحری جہاز کی قیمت سے کوسٹا ریکا کے علاقے سے تین گنا بڑا حصہ دوبارہ جنگلاتی بنایا جا سکتا ہے۔ تخفیف اسلحہ اور عدم پھیلاؤ کا عالمی دن یہ بات یاد دلاتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا اور عالمی سطح پر امن قائم کرنا ہر ملک کی ذمہ داری ہے۔ دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے ہر ملک کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر اور محفوظ دنیا کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔