... loading ...
جاوید محمود
۔۔۔۔۔
امریکہ سے
حکومت پاکستان نے سابق وزیراعظم عمران خان کو گرفتار کر کے بڑی سیاسی غلطی کی ہے، اس بات سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے حکومت نے چھ فٹ دو انچ عمران خان کو گرفتار کر کے ان کا سیاسی قد ہمالیہ کی اونچائی تک پہنچا دیا ہے جہاں اب ان کا پہنچنا ناممکن ہے ۔ عمران خان کی سیاسی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی گرفتاری پر عالمی سطح پر آوازیں اٹھ رہی ہیں اقوام متحدہ کی ورکنگ کمیٹی ہو یا ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ کی سینیٹ ہو یا کینیڈا کی پارلیمنٹ آسٹریلیا ہو یا آئرلینڈ ،برطانیہ ہو یا سپین ،دنیا بھر سے عمران خان کی حمایت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں اوراور ان کے ساتھ جیل میں ہونے والے سلوک پر مذمت کی جا رہی ہے۔ اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ عمران خان نے تین کھلے خطوط لکھ کردنیا کی توجہ پی ٹی آئی کے کارکنان پر ہونے والے مظالم کی طرف دلائی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ اخبارات اور جریدوں میں عمران خان کے شائع ہونے والے آرٹیکل کو دنیا بھر میں پزیرائی ملی ہے۔
حال ہی میں ٹائم میگزین میں شائع ہونے والا عمران خان کا آرٹیکل عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنا ہے جس میں انہوں نے ان اہم موضوعات کی طرف توجہ دلائی جس کا تعلق پاکستان کے بہتر مستقبل سے ہے۔ عمران خان نے اس آرٹیکل میں لکھا ہے کہ میں اس بات پر غور کرتا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ ہنگامہ خیز اور آزمائشی دور کیا رہا ہے ،یہ خلوت خانے میں قید سے میں آمرانہ حکمرانی میں جکڑی ہوئی قوم کی دل دہلادینے والی حقیقت کا گواہ ہوں ۔پھر بھی ہر چیزکے باوجود میں پاکستانی عوام کی لچک اور انصاف کے لیے ان کے اٹل عزم پر اپنے یقین پر ثابت قدم ہوں۔ میرے خلاف سیاسی بنیادوں پر لگائے گئے الزامات جمہوریت کے لیے میری لڑائی کو خاموش کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ۔لیکن یہ جدوجہد میرے اکیلے کی نہیں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے زوال کے دور رس نتائج ہیں۔ عدم استحکام کا شکار پاکستان علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ تجارت میں خلل ڈالتا ہے اور عالمی جمہوری اقدار کو کمزور کرتا ہے۔ دنیا کو اس بحران کی عجلت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ نہ صرف پاکستان کے مستقبل کے لیے بلکہ جنوبی ایشیا اور اس کے آگے کے استحکام کے لیے ایک ایسے ملک میں جمہوری آوازوں کو دبانا جو علاقائی اوردر حقیقت عالمی سلامتی کے لیے اہم ہے، جیسا کہ پاکستان ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے جس سے ان تمام لوگوں کو تشویش ہونی چاہیے ،جو آزاد اور منصفانہ طرز حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں ۔یہ گزشتہ سال بے مثال جبر لے کر آیا ہے۔ میری سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کے خلاف ظالمانہ کریک ڈاؤن نے دنیا کوچونکا دیا ہے۔ بین الاقوامی حقوق کے گروپوں اور اقوام متحدہ نے فوجی عدالتوں میں من مانی حراستوں اور سیاسی طور پر چلنے والے مقدمات کودستاویز کیا ہے، آج تک پی ٹی آئی کے 103 کارکنوں اور عہدے داروں کو ان عدالتوں میں سزا سنائی گئی ہے جو کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے کنونشنز جیسے بین الاقوامی معاہدے برائے شہری اور سیاسی حقوق یا آئی سی سی پی آر کے تحت پاکستان کے وعدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ یورپی یونین برطانیہ اور امریکہ سمیت عالمی برادری نے ان آزمائشوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔یہ مسائل عام پاکستانیوں کو متاثر کرتے ہیں ۔پاکستان کو یورپی یونین کے ساتھ اپنی ترجیحی تجارتی حیثیت کھونے کا خطرہ ہے ۔ایسا اقدام جس سے ہماری معیشت خاص طور پر ٹیکسٹائل سیکٹر تباہ ہو جائے گا اس کے باوجود پاکستان میں اقتدار میں رہنے والے اپنی لاپرواہی کا راستہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میرے اور میرے ساتھی پی ٹی آئی پارٹی کارکنوں کے بارے میں من گھڑت بیانیوں اور بے بنیاد پروپیگنڈے سے پاکستان کی حیثیت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ دنیا کو اس پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ پاکستان میں داخلی طور پر جمہوریت ختم ہونے کے ساتھ ہی خیبرپختونخوا اور بلوچستان جیسے خطوں میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے۔ یہ حادثاتی طور پر نہیں ہوا اور نہ ہی یہ محض موقع ہے ،ان اہم سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے بجائے پاکستانی فوج کے وسائل کو پی ٹی آئی جیسے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی مہم کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ عدلیہ انصاف کے لیے ایک محافظ بننے کے بجائے اسے کم کر دیا گیا ہے جسے میں سیاسی ظلم و ستم کا آلہ سمجھتا ہوں۔ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں اب پی ٹی آئی کے حامیوں سے بھری پڑی ہیں جن پرمضحکہ خیز الزامات ہیں۔ گھروں پر چھاپے مارے گئے خاندانوں کو دہشت زدہ کر دیا گیا ۔یہاں تک کہ خواتین اور بچوں کو بھی اس وحشیانہ جبر سے نہیں بچایا گیا ۔ہمارے سوشل میڈیا رضاکاروں، ڈائسپورا میں حامیوں اور کارکنوں کے خاندانوں کو ہراساں اور اغوا کیا گیا ہے۔یہ سب اختلاف رائے کو خاموش کرنے کی کوشش میں ہیں۔ میری پارٹی نے نومبر کے آخر میں اسلام آباد میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے 12 حامیوں کودستاویز کیا ہے۔ ملک کی قیادت کے بارے میں میرے تحفظات کے باوجود بشمول انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بارے میں جس نے انہیں اقتدار د لایا میں نے پی ٹی آئی کی قیادت کو مزید تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے موجودہ حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کا اختیار دیا۔ ہمارا ایجنڈا واضح تھا ۔پی ٹی آئی پارٹی کے کارکنوں اور غیر مسلح مظاہرین پر حملوں کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن ہم نے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ جواب میں مجھے پی ٹی آئی کے لیے مبہم سیاسی جگہ کے بدلے نظر بندی کی پیشکش کی گئی لیکن میں نے اسے یکسر مسترد کر دیا۔ دریںاثنا پارلیمنٹ کو اس حد تک محدود کر دیا گیا ہے جسے میں اور میری پارٹی آمرانہ پالیسیوں کے لیے ربڑ اسٹیمپ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ عدالتی آزادی کو روکنے، اظہار رائے کی آزادی کو دبانے اور اختلاف رائے کو مجرمانہ بنانے کے لیے قانون سازی کو بغیر بحث کے آگے بڑھایا گیا ہے ، سیاسی اختلاف کو اب ریاست مخالف سرگرمی کا لیبل لگا دیا گیا ہے جس کی سزا جبری گمشدگیوں اور انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کی آخری نشانیاں مٹ چکی ہیں۔ پارلیمنٹ سے آگے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف سید عاصم منیر فوج کی آئینی حدود کو تسلیم کریں اور ان کا احترام کریں ۔صرف ایسا کرنے سے ہی پاکستان ایک حقیقی جمہوری نظام کے تحت ترقی کی منزل طے کر سکتا ہے جس نے عوام کے لیے منتخب کیا ہو، تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں آمریتیں وقتی ہوتی ہیں لیکن وہ جو نقصان پہنچاتی ہیں وہ نسلوں تک رہتا ہے، جو ان کو مسلط کرتی ہیں ۔ان سب کوختم کر دیتی ہیں ہماری قوم کا مستقبل جمہوریت کو برقرار رکھنے پرمنحصر ہے ۔ اسے دبانے پر نہیں ۔اس کے باوجود ان تاریک دوروں کے باوجود پاکستانی عوام کبھی زیادہ بیدار نہیں ہوئے، وہ جھوٹ کو دیکھتے ہیں اور ان کا عزم مجھے امید بخشتا ہے۔ انصاف اور وقار کی لڑائی آسان نہیں ہے لیکن یہ لڑنے کے قابل ہے ۔مجھے پختہ یقین ہے کہ سچ کی فتح ہوگی ۔ہم مل کر ایک ایسے پاکستان کی تعمیر کریں گے جہاں شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہو اور جمہوریت بحال ہو ،پاکستان سے باہر دنیا بھی ایک دوراہے پر کھڑی ہے جیسے جیسے عالمی چیلنجز تنازعات سے معاشی عدم استحکام تک شدت اختیار کر رہے ہیں ،مضبوط اور اصولی قیادت کی ضرورت اس سے زیادہ پہلے کبھی نہیں تھی ۔
اسی تناظر میں میں صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو جنوری میں ان کی طرف سے تاریخی حلف اٹھانے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ان کی شاندار سیاسی واپسی لچک اور عوام کی مرضی کا ثبوت ہے ۔ان کے پہلے دور میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان باہمی احترام پر مبنی مضبوط ورکنگ ریلیشن شپ رہی جیسے ہی وہ دوبارہ عہدہ سنبھالیں گے ہم منتظر ہیں کہ ان کی انتظامیہ جمہوری اصولوں انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیے اپنی وابستگی کی توثیق کرے ۔خاص طور پر ان خطوں میں جہاں آمریت ان اقدار کو کمزور کرنے کا خطرہ رکھتی ہے۔ جمہوری اور مستحکم پاکستان عالمی برادری کے مفاد میں ہے اور ہم اس توازن کو بحال کرنے کے لیے زور دیتے رہیں گے ۔مزید برا ں میں ان کی انتظامیہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ وہ اقتصادی شراکت داری کو مضبوط کریں جو پاکستان جیسی قوموں کے لیے خود کفیل معیشتیں بنانے کے مواقع پیدا کریں۔ منصفانہ تجارتی پالیسییاں اہم شعبوں میں سرمایہ کاری اور علاقائی استحکام کا عزم خوشحالی کو فروغ دے گا اور ایسے حالات کو روکنے میں مدد کرے گا جو تنازعات اور انتہا پسندی کو جنم دیتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ امریکی قیادت کا یہ نیا باب ان اہم شعبوں میں بامعنی اصلاحات لائے گا اور امن اور ترقی کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈالے گا۔ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے ہیں میں پاکستان کے لیے اپنے ویژن میں پرعزم رہتا ہوں۔ ایک ایسی قوم جو انصاف مواقع اور مساوات پر قائم ہو۔ آگے کا راستہ مشکل ہوگا لیکن مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عوام اپنے عزم میں متحد ہو کر ان چیلنجز پر قابو پائیں گے۔ ہم مل کر آنے والی نسلوں کا روشن مستقبل بنائیں گے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کے جیل سے لکھے ہوئے اس خط نے عالمی برادری کو حیرت میں ڈال دیا ہے جو کہ ٹائم میگزین میں شائع ہوا۔