... loading ...
ب نقاب/ ایم ۔آر ملک
لفظوں سے راکھ اڑنے لگی ہے اور وقت کی بے رحم گھڑیاںہمارا مقدر ہوگئیں ہیں۔سوچیں پا بہ جولاں ہیں کہ ہمارے آلام کو دہشت گرد سہارا دے رہے ہیں وحشتوں کا رقص ہے کہ رکنے میں نہیں آرہا ۔کیا پر کیف دھڑکنوں کی جگہ اب ہماری سماعت چیخ و پکار اور چنگھاڑکی عادی ہو چکی ہے ؟لاشیںاٹھا اٹھا کر اب ہمارے ہاتھ شل ہو چکے ہیں سلیم راہی کہتا ہے مائیںاپنے بچوں کے بستوں میںکفن رکھنے لگی ہیں۔ہم کس دور میں زندہ ہیںمیں اپنے اکثر دکھ روشنیوں کے شہر کے باسی محمد طاہر سے شیئر کرتا ہوںوہ دھرتی کا بیٹا ہے، وہ مجھ سے پورپور زخمی دھرتی کی باتیںکرتا ہے ، جس کا انگ انگ زخموں سے چور ہے!
کسی بھی شہر میںجب معصوم لوگوں پر حملے ہوئے، میں نے طاہر کے چہرے پر اندر کا دکھ دیکھا جوآنکھوں سے آنسوئوں کی صورت چھلکتا ہے اور کرب بن کر چہرے پر خوف کی شکل اختیار کر جاتا ہے ۔منگل کی شب بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے رڑکن میںسات افراد کو نگل گئی۔ کوئٹہ پنجاب قومی شاہراہ، این 70 پر مسلح افراد نے ناکہ لگا کر کوئٹہ سے فیصل آباد جانے والی بس سے شناختی کارڈ دیکھ کر 7 مسافروں کو اتارا اور پہاڑوں میں لے جاکران کو سانسوں سے آزاد کر دیا۔یہ پہلا واقعہ نہیں!!
وطن کے لوگو!
کیا ایسا نہیںکہ ہم اپنے وجود کو کھوجنے کی دھن میں اپنے بدن کی سیاہ گہرائیوں میں اترتے جا رہے ہیں،مقید ہوتے جا رہے ہیں !کبھی امن قائم کرنے کی شکل میںآپریشن اور کبھی پریس ریلیز جاری کرکے کہ امن کے دشمنوں کو زندہ نہیں چھوڑیں گے کاہمیںلولی پاپ دے کر بہلایاجا رہا ہے اندھیروں کی اس قید سے نکلنا اب شاید ممکن نہیں رہا ۔حکمران کہتے ہیں بہت سی مجبوریاں ہیںیا مجبوریوں کا ایک حصار ہے ،مگر لہو لہو دھرتی کے جسم کے اندھیروں کی بھوک اب ہم سے روشنی مانگتی ہے، بعض دکھ اتنے خاموش ہوتے ہیں کہ انسان رو رہا ہوتا ہے اسے پتا بھی نہیں چلتا سطرسطر آہٹیں اتر تی ہیں اب ہم دل کے محتاج نہیں رہے اس کی بادشاہی سے اب ہم نے نجات حاصل کرلی ہے، ہمارایہ عالم ہے ہر سانس کے ساتھ خیرات مانگتے ہیں،اک بے حسی ہر احساس پر طاری کر لی ہے، سانسوں سے اب وحشت ہونے لگی ہے۔
لمحے پرائے ہورہے ہیںاور وطن عزیز میں زندگی کی بیڑی لاشوں سے بھری جارہی ہے، رگ رگ میں لہو کی جگہ پارا سا تڑپتا محسوس ہوتا ہے ، خیالات سلگ رہے ہیں،حساس لوگ زندہ ہیں تو ایسے جیسے جسم سے روح نکل جائے۔ دل کا آئینہ کرچی کرچی ہواور خود کو سمیٹتے ہوئے ہاتھ لہو لہان ہوجائیں۔آرزو امید امنگ کے کینوس پر بنا ہر منظر کہر آلود ہورہا ہے اور اسے اجالنے کی ہر کوشش رائیگاں جارہی ہے ۔ہر حکمران پرانے وعدوئوں کی لاش پر بیٹھ کر نیا وعدہ کرتا ہے، لاشوں کا کاروبار کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے،نوجوان وطن عزیز سے فرار کے رستے ڈھونڈتا سمندری طغیانی میں گم ہورہا ہے ، نو عمر ناپاک روحوں کے کاروبار کا ایندھن بن رہے ہیں ،درس گاہوں سے اچاٹ نو عمرصورتیںہیںجنہیں دیکھ کر دل میں اک ہول اٹھتا ہے، اک دعا ہونٹوں پہ مچلتی ہے، اِک دُعا دل میں ہلکورے لیتی ہے ۔ ماضی کی دھندلی سکرین پرکئی شہروں میں خود کش حملوں میں نو عمروں کے سر ملے !
اے وطن کے باسیو!
ہاتھ اٹھائو کہ پھر کوئی انسانیت دشمنوں کے منصوبوں کی بھینٹ نہ چڑھے ،روزگار کی خاطر گھر کی دہلیز پار کرنے والے کی کسی ماںکے ہونٹوں پہ دھری آگ نہ دیکھ سکیں،کسی نوجوان کے مستقبل کو مسمار ہوتا محسوس نہ کریں،دکھی کرنے والا کوئی معمار وطن دھواںدھواںنہ ہو۔
ہم ان کو کتابیں پڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کو ریاضی دان ،سائینسدان بنتے دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کو خودکش جیکٹیں پہننے کی بجائے سفید یونیفارم میں ملبوس دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کو قائد اعظم کا تعلیمی مقصد بنانا چاہتے ہیں کہ ان کی سوچیں اور خیال کچے دھاگوں کی طرح ہیںجو الجھ جائیں تو ٹوٹ جاتے ہیں ۔
امریکیت کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے سمجھوتے کی کرچیوں سے لہو لہودل اور آنکھیں اشک بار ہیں ۔امر یکیت کے ساتھ برسوں کا یہ تعلق اب بوجھ بن گیا ہے جب تعلق بوجھ بن جائے تواس کا ٹوٹنا نوشتہ دیوار ہوا کرتا ہے کچھ درد اور جذبے ایسے ہوتے ہیں جن کے اظہارکے لیے الفاظ کھو سے جاتے ہیں ۔ہمارے حکمرانوں کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ اب اس تعلق کی بے گور وکفن لاش کو گھسیٹتے پھرنا عوامی جذبوں کی توہین ہے کل ہم نے امریکیت کی جنگ افغان سر زمین پر لڑی اور روس کو پاش پاش کرنے کا کارنامہ سر انجام دیاآج اسی کی جنگ ہم اپنی سر زمین پر لڑ رہے ہیں ۔کل کے مجاہد آج کے دہشت گرد ہیں اس اختراع کا پس منظرمشرف سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک کسی نے نہیں کھوجا اپنے ازلی آقا سے یہ پوچھنے کی جسارت کسی نے نہیں کی کہ یہ دہشت گرد کل روس کے خلاف کس نے پیدا کیے اور کون ان کا ہر اوّل بنا ؟
آنکھوں کے چراغ کون لے گیاکہ منزلوں کا نشان گم ہورہا ہے ۔انسانیت بین کرتی سر بازار آگئی ہے ۔صحن وطن میں بارود کی جو فصل امریکہ نے بوئی اسے کاٹتے کاٹتے جانیں کتنے بے گناہ معصوم لوگ اور ہمار ے لیڈر تہہ خاک ہوجائیں گے۔
٭٭٭