وجود

... loading ...

وجود

مودی یاترا:گوتم اڈانی سے تہوررانا تک

بدھ 19 فروری 2025 مودی یاترا:گوتم اڈانی سے تہوررانا تک

ڈاکٹر سلیم خان

مثل مشہور ہے ‘ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور’مودی جی کے امریکی دورے میں دکھانے کا دانت تو تہور رانا ہے مگر کھانے کا چھپا ہوا دانت گوتم اڈانی ہے یعنی ایک کو لانے کی آڑ میں دوسرے کو چھڑانا ہے ۔ تہور رانا کو ہندوستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کئی ماہ قبل امریکی عدالت سناچکی تھی مگر اس وقت بائیڈن نے اسے بھنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ مودی کو اس کی ضرورت پیش آئی۔ اس لیے کہ نہ اڈانی کے خلاف کوئی وارنٹ تھا اور نہ اجیت ڈوبھال یا امیت شاہ پر سمن کی تلوار تھی۔ ان کو بچانے کی پردہ پوشی کے لیے تہور رانا کا شور اب ضروری ہواہے ۔ مودی کی طرح ٹرمپ نے بھی اس ‘آپدا میں اوسر ‘ نکال لیا ۔ انہوں نے پچھلے دنوں فوجی ہوائی جہاز سے تضحیک آمیز میں غیر قانونی نقل مکانی کرنے والے ہندوستانیوں کو بھیج کر یہ پیغام دیا تھاکہ واپسی میں گوتم اڈانی کو لے کر جانے کا مطالبہ بھی کیا جاسکتاہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان ملزمین کی واپسی کا معاہدہ ہے ۔ اڈانی کواگر بیڑیاں ڈال کر لے جایا جائے تو وشو گرو نریندرمودی کا کیا ہوگا؟ اس لیے فی الحال تووزیر اعظم اپنے چہیتے گوتم اڈانی کی گرفتاری کو ٦ ماہ کے لیے ٹال آئے ۔ یہی اس دورے کا ماحصل ہے مگر ٹرمپ نے اس بلیک میل سے خوب کمائی کی۔
امریکی صدر کے پاس مجرموں کو معافی دینے کااختیار ہوتا ہے ۔ ایسی بے حیائی سے اس کا استعمال کیا جاتا ہے کہ ماضی شہنشاہ بھی شرماجائیں ۔ صدر جو بائیڈن جیسے شریف نظر آنے والے صدر نے جاتے جاتے ٥ ہزار مجرموں کو معاف کردیا ۔ جی ہاں پانچ ہزار ایسے لوگ جن پر جرم ثابت ہوچکا تھا صدر صاحب کے ایک اشارے پر رہا ہوگئے ۔ ان میں جو بائیڈن کا فرزند ارجمند بھی تھا اور اس طرح قانون کی بالا دستی کا ڈنکا بج گیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ہی ان سارے لوگوں کو معاف کردیا جن لوگوں نے قصر ابیض پر ایسا حملہ کیا تھا کہ ٹرمپ کے نائب صدر کو حمام کے راستے فرار ہونا پڑا۔ ان لوگوں نے بغاوت کی تھی مگر چار سال قبل انہوں نے ٹرمپ سے دادِ تحسین وصول کی اور اب باعزت بری ہوگئے ۔ اس پر ٹرمپ نے اپنی خود ستائی میں کہہ دیا کہ انہوں نے اپنے کسی رشتے دار کو معاف نہیں کیا۔ویسے غزہ میں نسل کشی کی سرپرستی نے بائیڈن کا بھیانک چہرا بے نقاب کیا ڈونلڈ ٹرمپ غزہ پر قبضے کا اعلان کرکے اپنی سفاکی میں چار چاند لگا دئیے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو یقین تھا کہ ایک مرتبہ وہ اپنے پرانے دوست سے ملیں گے ( کہ جن کو انہوں نے ہندوستان بلا کر نمستے کہا تھا) تو اپنے ہم زاد گوتم اڈانی کو معافی دلوا دیں گے ۔ اسی لیے ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کو افتتاحی تقریب کا دعوتنامہ حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ بھیجا گیا ۔ مودی جی کی مجبوری کو ٹرمپ بھانپ گئے اسلیے ان کی بے چینی بڑھانے کے لیے جئے شنکر کو بیرنگ لوٹا دیا ۔ اس کے بعد ہندوستان سے تعلقات درست رکھنے کی خاطر مودی کے بجائے جئے شنکر کو بلوا لیا ۔ اس طرح مودی کے بجائے ہندوستانی خزانے میں ٹرمپ نے اپنی دلچسپی کا اظہارکیا ۔ مودی جی اپنے اڈانی بچاو مشن میں لگے رہے اور یہاں تک کہ اسرائیل ، اردن اور جاپان کے بعد ان کی حاضری کا نمبر آہی گیا۔ بس پھر کیا تھا گودی میڈیا نے مہا کمبھ کے طرز پر ‘مہا شکتیوں کے مہا نیتاوں کا مہا ملن ‘ جیسی خبریں اچھالنی شروع کردیں کیونکہ مودی جی کو بلانے کے بعد ہندوستانیوں کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر فوجی جہاز میں روانہ کرنے والے ٹرمپ کے سارے مہا پاپ دھل گئے تھے ۔
مودی سے قبل ٹرمپ کی مہمان نوازی کے چرچے میڈیا کی زینت بنے ہوئے تھے ۔ ہندوتوانواز خاص طور پر ان کے ذریعہ نیتن یاہو کے لیے کرسی سیدھی کرنے کا ویڈیو وائرل کرکے خوشی منارہے تھے ۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ مودی جی کے پوری میز ہی ٹرمپ صاحب الٹ دیں گے ۔ نیتن یاہو کے بعد جب ان کے پڑوسی اردن کے شاہ عبداللہ ملاقات کے لیے گئے تو استقبال کی خاطر ٹرمپ اپنے محل کے دروازے پر آگئے ۔ اب مودی جی تو اس امیدکے ساتھ پہنچے ہوں گے کہ ٹرمپ سے ان کی ملاقات ہوائی اڈے پر ہی ہوجائے گی اور وہ اپنے مخصوص انداز میں ان سے بغلگیر ہوجائیں گے جس کو انگریز گلے پڑنا کہتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وزیر اعظم بھول گئے کہ اس سے پہلے بھی ان کا خیر مقدم ہندوستانی سفارتخانے کا عملہ کرتا رہا ہے اور باہر جو لوگ ‘ہر ہر مودی گھر گھر مودی ‘ کے نعرے لگاتے تھے وہ بیچارے نقل مکانی کے خوف سے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ خیر مودی جی نے سوچا ان کے ساتھ کم ازکم شاہ عبداللہ کا سا سلوک ہوگا اور ڈونلڈ ٹرمپ صدر دروازے پر نظر آجائیں گے لیکن وہاں بھی کسی نامعلوم خاتون نے استقبال کرکے مایوس کردیا ۔
ٹرمپ کے ان جھٹکوں کو انگریزی میں ‘ شاک ٹریٹمنٹ ‘ کہتے ہیں۔ جدید مذبح خانوں میں مویشی کو ایسے جھٹکے دے کر نڈھال کیا جاتا ہے تاکہ ذبح کرتے وقت زیادہ ہاتھ پیر نہ مار سکے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس حربے کو استعمال کرنے میں خوب مہارت رکھتے ہیں۔ مودی جی کو ادھ مرا کرنے کے لیے انہوں دورے سے عین پہلے اسٹیل اور ایلومینیم پر ٹیرف کو پچیس فیصد تک پہنچا دیا اور اس کے بعد موودی کو نہ صرف اپنا گھٹیا مگر مہنگا ہتھیار بیچا بلکہ ان کو امریکہ سے پٹرولیم اور گیس خریدنے پر بھی مجبور کیا ۔ یوکرین جنگ کے بعد جب روس پر پابندی لگی تو ہندوستان نے موقع کا فائدہ اٹھاکر اس سے سستا ایندھن خریدنا شروع کیا تھا ۔ اس سے قبل ایران کے ساتھ بھی یہی ہوچکا ہے کہ امریکہ نے پابندی لگائی تو ہندوستان سے خوب سستا تیل خریدا ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا فائدہ صرف امبانی اور اڈانی جیسے سرمایہ کاروں نیز سرکاری خزانے تک محدود رہا۔ عوام کو اس سستے ایندھن سے کوئی راحت نہیں ملی کیونکہ ان کے لیے مودی جی کے خطابات اور لطیفوں سے ملنے والی مفت کی تفریح کافی ہے ۔ عوام کو ووٹ دینے کی خاطر زندہ رکھنے کے لیے پانچ کلو مفت اناج کا احسان عظیم جاری و ساری ہے ۔ ایک طرف ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے اس پر دور دراز امریکہ سے تیل خریدنے والے صارفین کا تیل نکل جائے گا ۔
امریکی انتظامیہ نے ساری زور زبردستی کے عوض گوتم اڈانی کو رہائی دینے کے بجائے ٦ ماہ کی چھوٹ دے کر دوبارہ بلیک میل کے امکانات باقی رکھے ہیں مگر گودی میڈیا کے لیے تہور رانا کا جھنجھنا کافی ہے ۔ تہور رانا کو امریکی عدالت نے دہشت گردی کی سازشوں کے اندر ملوث ہونے کے 12 الزامات میں 14 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس پر ممبئی حملے کے ماسٹر مائینڈ رچرڈ کولمن ہیڈلی سے تعاون کا الزام تھا مگر خود ہیڈلی کو 35سال کی سزا سنائی گئی تھی ۔ امریکی جیل میں انڈین تحقیقاتی ایجنسی کے سامنے ہیڈلی نے یہ اعتراف تو کیا کہ حملہ آوروں کو جگہ کی معلومات اور تفصیلات اس نے دی تھیں لیکن کہا کہ وہ کبھی حملہ آوروں سے نہیں ملا تھا۔ ہندوستان کے سابق ہوم سیکریٹری جی کے پلئی نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہیڈلی کے ڈبل ایجنٹ ہونے کا امکان قابل اعتبار ہے ۔ موصوف کے مطابق کہ ‘یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہیڈلی کی گرفتاری کے بعد انڈین حکام کو ہیڈلی سے پوچھ گچھ کی اجازت لینے میں کافی وقت لگا اور اس کے باوجود انھیں صرف محدود سوالات کرنے کی اجازت دی گئی۔’ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ ‘امریکیوں کو اندازہ تھا کہ اگر ہیڈلی سے مزید سوالات کیے گئے تو امریکی کردار پر پردہ ڈالنا مشکل ہو جائے گا’۔
رچرڈ ہیڈلی کے دوست راہول بھٹ نے اس الزام کی تائید میں لکھا ہے کہ ‘اس کا (یعنی ڈبل ایجنٹ ہونے کا )سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ ہیڈلی نہ صرف اپنا نام بدلنے میں کامیاب ہوا بلکہ اس نے نئے نام سے پاسپورٹ بھی حاصل کرلیا’۔ وہ لکھتے ہیں نائن الیون کے بعد امریکہ اپنی سیکورٹی کے بارے میں اتنا الرٹ تھا کہ امریکہ سے پاکستان جانے والے ہر مسافر کی نگرانی کی جا رہی تھی لیکن یہ سمجھ سے باہر ہے کہ اس دوران امریکی انتظامیہ نے ہیڈلی سے ایک بار بھی کیوں پوچھ گچھ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔’ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان حوالگی کے معاہدے میں یہ شرط ہے کہ اگر کوئی شخص انڈیا میں جرم کرتا ہے اور امریکی سرزمین پر پکڑا جاتا ہے تو اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے لیکن ہیڈلی نے غالباً امریکہ سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا بشرطیکہ کہ اسے ہندوستان یا پاکستان کے حوالے نہ کیا جائے ۔ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی اب وعدہ معاف گواہ بن کر آزاد گھوم رہا ہے مگر مودی سرکار اس کو واپس لانے کی بات نہیں کرتی کیونکہ ایساکرنے سے امریکہ کے ساتھ تعلقات بگڑ سکتے ہیں اور ہندو مسلم کارڈ کھیلنے کے لیے تہور رانا کی حوالگی کافی ہے ۔ تہور رانا کی آڑ میں گوتم اڈانی کے کھیل کی خوبی یہ ہے کہ اس سیاسی اور معاشی فائدہ دونوں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری وجود جمعه 18 اپریل 2025
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری

عالمی معاشی جنگ کا آغاز! وجود جمعه 18 اپریل 2025
عالمی معاشی جنگ کا آغاز!

منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں! وجود بدھ 16 اپریل 2025
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں!

پاک بیلا روس معاہدے وجود بدھ 16 اپریل 2025
پاک بیلا روس معاہدے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر