... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بہترین تعارف معروف امریکی اداکار رچرڈ گیئر نے کرایا ہے ۔ موصوف نے اسپین کے شہر گریناڈا میں ہسپانوی آسکرز کی تقریب میں ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد ایک دھواں دھار تقریر کی۔ اس میں انہوں نے کہا کہ ‘میں جس جگہ سے آ رہا ہوں وہ جگہ یعنی امریکہ ایک بہت ہی تاریک دور سے گزر رہا ہے ۔ ہمارے پاس ایک غنڈا اور ٹھگ موجود ہے جو امریکہ کا صدر ہے ‘۔ مشہور امریکی اداکار کے اس بیان نے دنیا بھر میں آگ لگا دی اور وہ اسپین سمیت عالمی میڈیا پر چھا گیا ۔ اسپین کے اعلیٰ فلمی اعزازات میں سے ایک، بین الاقوامی گویا ایوارڈ حاصل کرنے والے 75 سالہ رچرڈ گیئر نے کہا کہ آمریت صرف امریکہ تک محدو د نہیں یہ ہر جگہ عروج پر ہے ۔انھوں نے یہ کہہ کر دنیا بھر کے جمہوریت نوازوں کو ننگا کردیا کہ آمریت ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے حالانکہ بظاہر ہر طرف جمہوریت کا بول بالہ ہے ۔ یہ اعتراف علامہ اقبال کے مشہور شعر کی یاد دلاتا ہے
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
ٹرمپ کو ”غنڈہ” اور ”ٹھگ” ہونے کا سب سے بڑا ثبوت غزہ کے فلسطینیوں کو بے گھر کر کے اردن اور مصر میں منتقل کرنے کا ناپاک منصوبہ ہے جسے دونوں ممالک مسترد کر دیا ۔ عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کی مذمت ہو رہی ہے ۔ حماس نے عرب ممالک ، اردن اور مصر کے جرأت مندانہ موقف کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ پر قابض صہیونی اور امریکی استعماری قبضے اور فلسطینی آبادی کی جبری ہجرت کی سازشوں کے خلاف قاہرہ اور عمان کا موقف قابل تحسین ہے ۔حماس نے اردن کے نقل مکانی، آبادکاری اور متبادل وطن کے منصوبوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عالمی استعمار فلسطینی عوام کی شناخت کو مٹانے اور ان کے منصفانہ نصب العین کو ختم کرنے کی سازشوں میں غاصب صہیونیوں کے ساتھ کھڑا ہے ۔ حماس نے کہا کہ ہم اپنی سرزمین اور وطن کے لیے پرعزم ہیں اور ایسے کسی بھی حل کو قبول نہیں کریں گے جو انہیں آزادی اور جائز حقوق سے محروم کرے ۔
٧ اکتوبر کی مزاحمت اور اس کے بعد بے مثال استقامت نے اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی رعونت کو بھی پاش پاش کردیا ۔ اسرائیلی بربریت میں امریکی شراکت داری کا انکشاف امریکہ کے واٹسن انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ میں درج ہے ۔ اس کے مطابق غزہ جنگ کی جنگ میں ٧ اکتوبر 2023 سے نومبر 2024تک امریکہ نے اسرائیل کو تقریباً 18 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی لیکن اس کے باوجود ‘ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا’۔اسرائیل کے سارے اہداف میں ناکامی کا اعتراف خود اسرائیلی سیاستدانوں سمیت فوجی سربراہ نے بھی کرچکاہے ۔ امریکی صد جو بائیڈن کو اس جنگ نے انتخاب میں بھی شکست فاش سے دوچارکردیا ۔ اب انہیں ہوش آیا تو اپنی چار سالہ مدت کے اختتام پر قصرِ ابیض میں ٹیلی ویژن پر براہ راست آخری عوامی خطاب کا آغاز غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی سے کیا ۔ اس امن معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے وہ بولے کہ یہ جنگ بندی ان کے مئی میں پیش کردہ مسودے کے مطابق ہے اور یہ ان کی ٹیم کی کامیابی ہے ۔
امن کا کریڈٹ لینے والے بائیڈن بھول گئے کہ نسل کشی کے دوران مئی 2024 میں بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس کو بتایا تھا کہ وہ اسرائیل کو 8400 کروڑ روپے سے زیادہ کے ہتھیار بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے اور آگے چل کر اس پر عملدرآمد بھی کیا گیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس پیکج میں 70 لاکھ ڈالر مالیت کے ٹینک اور گولہ بارود شامل تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا امن قائم کرنے والے کھلے عام نسل کشی میں ملوث سفاک حکمراں کو اس طرح اسلحہ فراہم کرتے ہیں؟ بائیڈن کا یہ دعویٰ درست ہے کہ بڑی ردو کد کے بعد پچھلے سال جون میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا تھالیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ اس کو نافذ کرنے میں کیوں ناکام رہا ؟ سچ تو یہ ہے کہ اگر جو بائیڈن کو اس مقصد میں کامیابی مل جاتی تو آج ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں انہیں آئے دن رسوائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو ان کی تردید میں یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ غزہ معاہدہ ان کی تاریخی فتح کا نتیجہ ہے ۔ ٹرمپ جنگ بندی معاہدے کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔ اس کا ثبوت ان کے ذریعہ اسرائیل کو لبنان سے نکل جانے کا حکم اور ایران کے ساتھ سفارتی گفتگو کا عندیہ ہے ۔
سچائی یہ ہے کہ جو بائیڈن کی خود اپنے پیش کردہ امن معاہدے کے نفاذ میں ناکامی کا ٹرمپ نے خوب فائدہ اٹھایا۔٦ ماہ قبل اس معاہدے کی مخالفت اسرائیل کے انتہا پسند وزیر داخلہ ایتماربن گوئر اور وزیر خزانہ بزالل اسموتریچ نے کی تھی۔ نیتن یاہو کو چونکہ اقتدار گنوانے کے بعد جیل جانے خوف ستا رہا تھا اس لیے انہوں نے امن کو پامال کرکے ان دونوں کے آگے ہتھیار ڈال دئیے ۔ اس اقدام کی خود اسرائیل میں سخت مخالفت ہوئی ۔ ا سے اپنی ٦ رکنی جنگی کابینہ کو تحلیل کر نا پڑی کیونکہ حزبِ اختلاف کے رہنما بینی گینٹز اور گادی آئزنکوٹ نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ دونوں موقع پرست سیاستداں نہیں بلکہ سابق چیف آف سٹاف ہیں۔ ا ن کا الزام تھا کہ حکمتِ عملی کا فقدان اور وزیر اعظم کی قیادت ہی حقیقی فتح میں رکاوٹ ہے ۔ اس سنگین صورتحال میں انہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کرنے کے بجائے الٹا بن گویر نے نیتن یاہو سے خود کوجنگی کابینہ میں شامل کرنے کا مطالبہ کرنے لگا ۔ اس وقت وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے جنگ کو غیر ضروری طول دینے سے فوجیوں میں بے چینی پر تشویش کا اظہار کیا مگر اس کے جواب میں نیتن یاہو نے انہیں کووزارت سے نکال باہر کیا ۔فوجیوں اجتماعی خطوط لکھ کر یہاں تک کہاتھا کہ اگر امن معاہدے پر عمل نہیں ہوا تو وہ جنگ لڑنے سے انکار کردیں گے ۔ عوام سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے مگر امریکہ نیتن یاہو کی پشت پناہی کرتا رہا۔
جنگ میں فتح و شکست کی کسوٹی تباہی و بربادی نہیں بلکہ اہداف کی حصولیابی ہوتا ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حماس کا 33 یرغمالیوں کے بدلے 2000 فلسطینیوں کی رہائی کی شرط کو منوانا اس کی فتح کا زندہ ثبوت ہے ۔ فلسطینیوں نے یقیناً اس جنگ کی تباہ کن قیمت چکائی مگر دنیا کی توجہ فلسطینی کاز کی جانب مبذول کرنے میں حماس کامیاب رہی۔اس نے سات اکتوبر کے حوالے سے ا علان کیا تھا کہ حملے کا مقصد فلسطینی کاز کو بین الاقوامی ایجنڈے کی صف اول میں واپس لانا، مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کو اس کے اقدامات کی سزا دینا اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کرانا ہے ۔ان تینوں اہداف کی حصولیابی میں اسے خاطر خواہ کامیابی ملی ۔ اس کے برعکس اس جنگ کی آڑ میں ہیرو بننے کا خواب دیکھنے والا نیتن یاہو دنیا تو دور اپنے ملک میں بھی وِلن بن گیا ۔ اب قریبی اتحادی بھی اس کی مذمت پر مجبور ہیں ۔اسرائیل کی غزہ میں وحشیانہ کارروائیوں نے یورپی یونین سمیت کئی مغربی ممالک کو اسرائیل سے نالاں کر دیا ہے ۔
اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قراردادپرووٹنگ نے اسرائیل کی عالمی تنہائی پر مہر لگا دی ۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے نسل کشی کے الزامات میں نیتن یاہو کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کرکے اسے اوقات دکھا دی ۔ اسرائیلی عوام نے نیتن یاہو کے خلاف بے شمار مظاہرے کیے اور تین وزراء کے استعفیٰ نے ان کی حکومت کو عدم ا ستحکام کاشکارکردیاجبکہ حماس کے بغیر غزہ کے مستقبل کا تصور محال ہوگیا ہے ۔حماس کو مٹانے کا خواب دیکھنے والی اسرائیلی حکومت اب خود حالت نزع میں گرفتار ہوگئی ہے ۔عصرِ حاضر کایہ معجزہ کیونکر رونما ہوگیا ؟ اس سوال کا جواب قرآن مجید میں یہ ہے کہ :”وہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پوا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو”۔ امریکہ سمیت اسرائیل کی ناکامی اس آیت کی تائید کرتی ہے ۔ آگے فرمایا یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ
”وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو”۔
اس بشارت کا اپنے آپ کو حقدار بنانے کی خاطر اہلیان غزہ نے آگے والی آیت پر عمل کرکے دکھایا:” اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے ؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو”۔ انہیں یقین تھا کہ اس کے عوض :” اللہ گناہ معاف کر دے گا، اور ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر عطا فرمائے گا یہ ہے بڑی کامیابی”۔ اس کے ساتھ انہیں اللہ تبار کو تعالیٰ کے اس وعدے پر بھی پورا اعتماد تھا کہ :” اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح اے نبیۖ، اہل ایمان کو اِس کی بشارت دے دو”۔ یہ واقعات اللہ کی مددو نصرت اور قریب حاصل ہونے والی فتح کا پیش خیمہ ہے جس میں فلسطین آزاد ہوگا اور مسجد اقصیٰ کی حرمت بحال ہوجائے گی ۔ بقول اقبال
آسماں ہوگا سحَر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظُلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی