... loading ...
باعث افتخار/ انجینئر افتخار چودھری
پاکستان میں قانون کا کھیل آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ عوام کو نہ صرف اپنے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، بلکہ جو قانون کے محافظ ہیں وہ خود ہی قانون کی دھجیاں اُڑاتے نظر آ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک پولیس افسر کا مسجد میں جا کر یہ کہنا کہ ”جو نوجوان پتنگ بازی کرے گا، میں اس کے والد کے خلاف مقدمہ درج کر دوں گا اور اس کا گھر بھی گرا دوں گا”، اس بات کا جیتی جاگتی مثال ہے کہ ہم کس راستے پر چل رہے ہیں۔ اس پولیس افسر کی دھمکیاں نہ صرف قانون کی خلاف ورزی تھیں، بلکہ یہ ایک انتہائی سنگین واقعہ تھا، جس میں ایک افسر نے اپنی طاقت اور اختیار کا ناجائز استعمال کیا۔جب قانون کے محافظ خود ہی قانون کی خلاف ورزی کرنے لگیں، تو پھر کس سے انصاف کی امید رکھی جا سکتی ہے؟ ایسی دھمکیاں نہ صرف اس بات کا عکاس ہیں کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمے داریوں سے غافل ہیں، بلکہ یہ ایک گہری خاموشی کی علامت بھی ہیں، جو انصاف کے تمام ستونوں کو کمزور کر دیتی ہے۔ پولیس کے افسران اس طرح عوام کو دھمکیاں دیتے ہوئے، خود کو طاقتور سمجھتے ہیں، لیکن اس سے صرف اور صرف پاکستان کے عدالتی نظام میں موجود خرابیوں کی عکاسی ہوتی ہے۔
میرے محترم دوست، میرے ہم نام افتخار چوہدری، جو سول سروس کے اسٹوڈنٹس کو تعلیم دیتے ہیں اور ان دنوں انگلینڈ میں اہم ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے، نے میری توجہ اس تھانے دار کے بارے میں دلائی۔ جب انہوں نے اس واقعے پر بات کی، تو مجھے اس واقعہ کے بارے میں جان کر اور افسوس ہوا کہ کس طرح پولیس افسران طاقت کے غلط استعمال میں ملوث ہیں۔ اس واقعے نے اس بات کو اور واضح کر دیا کہ پاکستان میں ہمیں قانون کی حکمرانی کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہے۔
یاد رکھیں کہ ہمارے ملک میں پولیس کا یہ کردار نیا نہیں ہے۔ ایک اور سابق پولیس افسر زولفقار چیمہ کی مثال دی جا سکتی ہے، جو پنجاب میں آئی جی یا ڈی آئی جی کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ذوالفقار چیمہ کا ایک اور بدنام واقعہ بھی ہمارے قانون کے نظام کی تاریک حقیقت کو سامنے لاتا ہے۔ انھوں نے ایک نوجوان ننھو گورایہ کو دبئی سے منگوا کر ایک جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا تھا اور اس کی لاش پورے شہر میں گھمائی تھی۔ اس کارروائی کو اگر ہم قانون کے مطابق دیکھیں تو یہ ماورائے عدالت قتل تھا اور اس کا فیصلہ کسی عدالت کے ذریعے نہیں کیا گیا تھا۔ عدالتیں جو انصاف کا دروازہ ہیں، وہاں یہ فیصلہ ہونا چاہیے تھا، نہ کہ کسی تھانیدار کے ہاتھوں خون کی ہولی کھیلا جانا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سب کچھ اس طرح ہوا، جیسے پولیس کے افسران کو ان کے اقدامات کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔
اگر واقعی ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی، تو ایسے افسران کو نہ صرف سزا دی جاتی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی یہ پیغام دیا جاتا کہ پاکستان میں انصاف کا دروازہ ہر کسی کے لیے کھلا ہے۔ لیکن اس واقعے نے یہ ثابت کیا کہ پاکستانی معاشرے میں قانون کا عمل دخل کمزور ہے اور جب تک ہم اس میں تبدیلی نہیں لائیں گے، تب تک اسی طرح کے واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر ہم اسلام کی بنیادی تعلیمات پر نظر ڈالیں، تو ہمیں حضرت علی کا وہ مشہور واقعہ یاد آتا ہے، جب انہوں نے ایک یہودی کے حق میں فیصلہ دیا۔ حضرت علی نے انصاف کے اصولوں کو اپناتے ہوئے، ایک غریب اور کمزور فرد کے حق میں فیصلہ کیا۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انصاف کبھی بھی امیر یا طاقتور کے حق میں نہیں، بلکہ ہمیشہ کمزور کے حق میں ہونا چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ ”تم سے پہلی امتیں اس وجہ سے تباہ ہو گئیں کیونکہ وہ طاقتوروں کو بری کر دیتی تھیں اور غریبوں کو سزا دیتی تھیں۔” اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ اگر ہم انصاف کے اصولوں کو نظر انداز کریں گے تو ہمارا معاشرہ بھی انہی اقوام کی طرح تباہ ہو جائے گا۔
نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی تھی اور انصاف کے حصول کے لیے اس نے اپنے ملک میں ایک طویل اور مشکل راستہ اختیار کیا۔ ان کی زندگی کا مقصد ہر فرد کو برابری کے حقوق فراہم کرنا تھا، اور انھوں نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ انصاف کا عمل ہر سطح پر اور ہر طبقے کے لیے یکساں ہو۔ اگر ہم پاکستان میں بھی انصاف کے نظام کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں نیلسن منڈیلا کی جدوجہد سے سبق سیکھنا ہوگا، جو ایک مضبوط اور مضبوط عدلیہ کے قیام کے لیے لڑے۔
پاکستان میں عمران خان نے ہمیشہ انصاف کے اصولوں کو اپنی سیاست کی بنیاد بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم انصاف کو فروغ دیں گے، تو ہمارا معاشرہ ترقی کرے گا اور پاکستان میں معاشی استحکام بھی آئے گا۔ عمران خان نے ہمیشہ ان افراد کے خلاف آواز اٹھائی ہے جو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ ان کی سیاست کا مقصد پاکستان میں ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جہاں ہر شہری کو یکساں انصاف ملے اور کرپشن کا خاتمہ ہو۔
پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ انصاف کے اصولوں کو اپنانا ضروری سمجھا۔ قائداعظم کا کہنا تھا کہ ”ہمیں ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جہاں ہر شہری کو انصاف ملے، اور کسی کو بھی قانون سے بالا نہیں سمجھا جائے گا۔” قائداعظم نے اپنے تمام فیصلوں میں انصاف کو فوقیت دی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان میں کوئی بھی فرد قانون سے آزاد نہ ہو۔ قائداعظم کی یہ تعلیمات آج بھی ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
پاکستان میں انصاف کے قیام کے لیے اقدامات کے نام پر ماضی میں کھلواڑ ہوتا رہا ہے ،پاکستان میں آج بھی انصاف کی فراہمی کے لیے بہت زیادہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پولیس کے افسران کو اگر قانون کے مطابق ان کے کام کرنے کی تربیت دی جائے، تو ایسے واقعات کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ حکومت اور عدلیہ ایک ساتھ مل کر اس معاشرتی بگاڑ کو درست کرے، تاکہ عوام کو قانون کے تحت انصاف مل سکے۔ ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ایک فرد کی زندگی کو کسی بھی طاقتور شخص کے ہاتھوں چھیننا جائز نہیں۔
پاکستان میں انصاف کے قیام کے لیے ہمیں نیلسن منڈیلا، عمران خان اور قائداعظم کے اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اداروں میں اصلاحات کریں اور ان افسران کو جواب دہ بنائیں جو اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ جب تک ہم یہ اقدامات نہیں کرتے، پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی حقیقت کو زمین پر نہیں لایا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔