وجود

... loading ...

وجود

انسان اپنا دشمن آپ ہے!

هفته 15 فروری 2025 انسان اپنا دشمن آپ ہے!

آفتاب احمد خانزادہ
۔۔۔۔
اگر آپ طاقتور اور بااختیارلوگوںکے بیانات ملا حظہ فرمائیں تو ان میں سوائے پر یشانیوں ، تفکرات اور انجانے خوف کے علاوہ اور کچھ نہیں دکھائی دے گا وہ خو د ہی سوال کرتے ہیں اور خو د ہی ا س کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ،خود ہی خوفزدہ ہیں اور خو د ہی خو د کو تسلی دے رہے ہیں۔ اگر آپ نے اس بات پر اب تک سو چ بچار نہیں کیا ہے تو پھر ہم آپ کو بتا تے ہیں کہ اصل ماجرا کیاہے۔ ان سب کیفیات کا براہ راست تعلق نفسیات سے ہے عملی نفسیات کے بانی پروفیسر ولیم جیمز نے اپنے شاگر د وں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”جو کچھ ہو چکاہے اس پر قناعت کرو کیونکہ بد نصیبیوںکا خمیازہ برداشت کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جو کچھ بیت چکا ہو اس پر رضامند ہوجائو ”۔
ٹامس ایڈیسن نے بالکل صحیح کہا ہے ‘انسان غورو فکر کر نے کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہرقسم کے پاپڑ بیلتا ہے ” اگر ہم حقائق معلوم کرنے کے لیے تردد کرتے بھی ہیں تو ایسے جیسے شکاری کتے خر گو ش کا پیچھا کرتے ہیں ہم صرف ان ہی حقائق کو تلاش کرتے ہیں جو ہمارے اپنے خیالات کو سہارا دیتے ہوں اور باقی ہر چیز کو نظر انداز کردیتے ہیں ہمیں صرف ان ہی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے جن سے ہمارے اعمال حق بجانب ثابت ہوسکیں جو ہماری امیدوں اور آرزئوں پر آسانی کے ساتھ مطابقت ہو سکیں اور ہمارے تعصبات اور تنگ نظر یات کی تائید کرسکیں ۔ آندرے مااور دا اسے ان الفاظ میں ادا کرتا ہے ” ہر وہ چیز جو ہماری ذاتی خو اہشوں اور آرزئوں سے ہم آہنگ ہو ہمیں درست نظر آتی ہے اور جو چیز اس کے بر عکس ہو وہ ہمارے غصے کی آتش کو بھڑکانے کا سبب بنتی ہے ”۔ اب اس کے بعد یہ بتانے کی قطعاً کو ئی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کہ ہمارے بااختیار اورطاقتور اتنے طیش اور غصے میں کیوں ہیں کیونکہ آپ نتیجے پر ہم سے پہلے ہی پہنچ چکے ہونگے بات بالکل سیدھی سادی سی ہے کہ ان کی ذاتی خو اہشات اور آرزئوں کچھ اور ہیں اور زمینی حقائق کچھ اور ہیں ،وہ چاہ کچھ اور رہے ہیں اور ہو کچھ اور رہاہے اور ان کے غصے میں شدت اس لیے بھی آتی جارہی ہے کہ جو کچھ ان سے ہو چکا ہے اس پر کسی صورت قناعت کرنے پرتیار نہیں ہیں ،وہ سب کچھ تباہ کرنے پر تیار نظر آتے ہیں لیکن اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں ماننے کو تیار نہیں ہیں جب سب کچھ انسان کی خواہشوں اور آرزئوں کے خلاف ہورہا ہوتا ہے اور اس کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی بات نہیں بن پار ہی ہوتی ہے تو انسان شدید جھنجلاہٹ اور پر یشانیوں کے نر غے میں آہی جاتا ہے اور یہ وہ موڑ ہوتا ہے جہاں انسان غلطیوں پر غلطیاں کرتا ہی چلا جاتا ہے جیسے جیسے اس سے غلطیوں پہ غلطیاں ہوتی جاتی ہیں اس کی جھنجلاہٹ اور پر یشانیاں اور بڑھتی ہی جاتی ہیں۔
امریکہ کے شہر ہ آفاق میو برادرز نے اعلان کیا تھا کہ ” ہمارے ہسپتالوں کے نصف سے زیادہ بسترا عصابی مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ لیکن پوسٹ مارٹم کرتے وقت جب کسی طاقتور خورد بین کی مدد سے ان لوگوں کے اعصاب کا معائنہ کیاجاتا ہے تو اکثر حالات میں ان کے اعصاب اتنے ہی صحت مند اور تندرست نظر آتے ہیں جس قدر کسی پہلوان کے ۔ ان کے ” اعصابی عوارض ” کی علت ان کے اعصاب کا جسمانی انحطاط نہیں ہوتا بلکہ مایوسی ، ناکامی ، شکست ، ہار ، فکر ، رنج، غم ، خوف اور ڈر کے جذبات ہوتے ہیں ”۔ افلاطون کہتاہے ” طبیبوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ذہن کی طرف تو جہ دئیے بغیر جسم کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جسم اور دماغ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ان کے ساتھ علیحدہ علیحد ہ سلوک کیاجاسکتا ہے ”۔
پر یشانیوں اور تفکرات کے متعلق ڈاکٹر کارل منینگرنے ایک شاندار کتاب لکھی ہے جس کانام ”انسان اپنادشمن آپ ہے ” وہ اپنی کتاب میں ان حیرت انگیز حقائق کا انکشاف کرتے ہیں کہ جب آپ مہلک جذبات کو اپنی زندگی پر غالب آنے دیتے ہیں تو اس وقت آپ اپنے ساتھ کیادشمنی برت رہے ہوتے ہیں اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ جو جذبات آپ کے خلاف کا رفرماہیں آپ ان کا خاتمہ کرڈالیں تو آپ اس کتا ب کو ضرور پڑھ لیں آپ اس بات کو ہمیشہ ضرور یاد رکھیں جو ولیم جیمز لکھتا ہے کہ” خدا ہمارے گناہ بخش سکتا ہے لیکن اعصابی نظام کبھی معاف نہیں کرتا” ۔ یہ ایک بو کھلادینے والی اور تقریبا ناقابل یقین حقیقت ہے کہ بیماریوں سے ہر سال اتنے امریکی نہیں مرتے جس قدر کہ وہ خود کشی سے مرتے ہیں کیوں؟ اس کا جواب ہے پریشانیاں اور الجھنیں۔ کیونکہ پر یشانیاں اور الجھنیں قطرہ قطرہ آپ کے اوپر پانی ٹپکنے کے مانند ہوتی ہیں پریشانیوں کی یہ مسلسل ٹپ ٹپ انسانوں کو جنون اور خو د کشی کی طرف دھکیل دیتی ہے ۔ یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ اگر کوئی جہاز ڈوب جائے تو کوئی اسے واپس نہیں لاسکتا اگریہ ڈوب رہاہے تو اسے بچایا نہیں جاسکتا ہمیں ماضی کے متعلق پر یشان ہونے کے بجائے مستقبل کے مسائل کے متعلق سو چنے پر اپنا سارا وقت صرف کرنا چاہیے ۔دیگر صورت میں پھر آپ کو اپنا زیادہ وقت اسپتالوں میں ہی گزارنا پڑیگا۔یہ کتنی کربنا ک بات ہے جن لوگوں کے پاس اپنی بڑائی جتانے کے لیے کوئی بات نہیں ہوتی وہ اپنی نااہلی کے احساس کو ظاہر ی شورو غوغا اور لاف زنی کے ذریعے اسے چھپاتے پھرتے ہیں، ان کی یہ حرکت نہایت بیہودہ اور ناقابل برداشت ہوتی ہے جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا ہے آدمی ” مغرور آدمی ادنی سے اختیارات کا مالک ہو کر آسمان تلے اس قسم کی عجیب و غریب چالیں چلتا ہے کہ فرشتوں کو بھی رونا آتا ہے” ۔انسانی فطرت عملاً کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے غلط کا رسوائے اپنے اور سب کو الزام دیتا رہتا ہے ۔کنفیوشس کہتاہے جب تمہاری اپنی دہلیز غلیظ ہے تو اپنے ہمسائے کے متعلق یہ شکایت نہ کرو کہ کاہلی کی وجہ سے اس کی چھت ابھی تک برف سے ڈھکی ہوئی ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
منی پور:پیاز کی زحمت، جوتے سے ذلت وجود جمعه 21 فروری 2025
منی پور:پیاز کی زحمت، جوتے سے ذلت

بھارت میں لو جہاد کا نیاقانون وجود جمعه 21 فروری 2025
بھارت میں لو جہاد کا نیاقانون

مرتضیٰ جتوئی کو ہتھکڑی ؟ وجود جمعه 21 فروری 2025
مرتضیٰ جتوئی کو ہتھکڑی ؟

دیوئوں کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی وجود جمعه 21 فروری 2025
دیوئوں کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی

بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو ہے وجود جمعرات 20 فروری 2025
بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو ہے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر