... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان کے آرمی چیف کے نام خطوط سیاسی اُپج کا’ طریقۂ نو’ ہے۔ اگر غالب کے خطوط ”ادبی اجتہاد” تھے تو یہ ”سیاسی اجتہاد”۔ عمران خان نے جب اپنے مخالفین کے متعلق کہا تھا کہ”ایک تو یہ پڑھے لکھے نہیں”، تو یہ آئندہ دنوں میں ایک ذہنیت کی عریاں کاری کا تیورِ بیاں بن گیا تھا۔زمانہ قدیم کی عمیق تیرگیوں کی بدنام گپھاؤں میں زندگی کرتے اس طبقے کو اندازا ہی نہ تھا کہ اُن کا جما جڑا،لگا بندھانظام کس خطرے کی زد میں آگیا ہے۔ ابھی کچھ کہا نہیں کہ سوشل میڈیا سے آواز سنائی دیتی ”ایک تو یہ پڑھے لکھے نہیں۔۔۔ !! اور بس!!
”دوسرے ملکوں نے سائفر لکھنے بند کر دیے ہوں” یا پھر” جاپان کے طریقہ احتجاج کی سیٹی” سٹی گم کرتی ہو، جواب ایک ہی تھا، ”ایک تو یہ پڑھے لکھے نہیں۔۔۔” ایک دوسرا طبقہ بھی ہے جوبظاہر” پڑھا لکھا ”ہے، مگر پہلے طبقے نے اس میں اس قدر’ سرمایہ کاری’ کر رکھی ہے کہ وہ پڑھے لکھے ہوتے ہوئے ، پڑھے لکھے دکھائی نہ دینے کی قیمت پر بھی تقدیسِ جہالت میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ پہلے طبقے کی طرح لطیفہ بن جانے کی حد تک خود کو مضحک بنا لیتے ہیں۔ یہی طبقہ اب عمران خان کے خطوط پر تبصرہ بھی کر رہا ہے۔ وہی صورت حال!
”ایک تو یہ پڑھے لکھے نہیں۔ ۔۔۔۔”!!!بقول شاعر
شکر ہے جامہ سے باہر وہ ہوا غصہ میں
جو کہ پردے میں بھی عریاں نہ ہوا تھا سو ہوا
بیچاری عاصمہ شیرازی یہاں ہمارا موضوع نہیں کہ اُن کے(اگر اُن ہی کے ہیں) فقروں سے طلعت حسین کو اپنے جملے سنوارنے دیں۔ غالب کے خطوط ایک گنجینۂ معلومات ہیں، مگر یہ خاندانِ شریفاں کے ”گنج ہائے گراں مایہ”(مراد رشید احمد صدیقی کی کتاب نہیں ، بلکہ فارم 47 کے ذریعے حکومت کے تخلیق کار ہیں)کی تہذیب ِ نفس (جعلی حکومت کی چھیڑ خانی سے بچنے کی جستجو)میں پھبتی کسنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ ہونے دیں! ”ایک تو یہ پڑھے لکھے نہیں۔۔۔”!اب پڑھے لکھے ہوتے تو خطوط ِغالب کے ذکر میں جواب ِ محبوب کے تمنائی انکارکا حیلہ نہ نکالتے۔ خطوطِ غالب کی اہمیت ہی یہ ہے کہ اس میں اہم مکتوب الیہ نہیں۔ ذرا کوئی پوچھے کہ غالب نے کن کو خطوط لکھے، تو یاد کرنا پڑے گا کہ وہ کون کون تھے؟مگر خطوط ِ غالب تاریخ میں گونجتے ہیں۔غالب ایامِ غدر کے چشم دید حالات بیان کرتے ہیں، پرتکلف روش کو چھوڑ کر بے تکلفی اور بے ساختگی سے اپنے دور کی سیاسی و سماجی زندگی عیاں کرتے ہیںتو ان خطوط کے جواب بھی تاریخ سے آئے ہیں، مکتوب الیہ سے نہیں۔ عودِ ہندی کے ١٧٣ خطوط ہوں یا تین حصوں پر مشتمل اردوئے معلی کے خطوط۔ تاریخ مکتوب الیہ کے جواب یا رسیدیں لینے کے لیے نہیں رکتی۔ یہ دور لد جائے گا ، عمران خان کا خط تاریخ کا متن رہے گا، مکتوب الیہ کہیں حاشیے میں ہوں گے، اور پھبتی کسنے والے تو حاشیے میں بھی نہ ملیں گے۔ سینیٹر عرفان صدیقی کا ذکر بھی چھوڑیں جنہوں نے یہ ‘اطلاع’ دی کہ خط کی رسید کہیں سے نہیں ملے گی۔یہ اپنے تئیںایک رسید ہی ہے، یقینا یہ ”فیک نیوز” نہیں ہوگی۔
مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے درمیان تعلق کا ذکر ہے تو کیوںنہ مولانا ابوالکلام آزاد کی بارگاہ میں سرجھکاتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اگر یہ ذکر بارِ خاطر نہ ہوتو ”غبارِ خاطر” کے مکتوب الیہ آگاہ بھی نہ تھے کہ مولانا ابوالکلام آزاد اُن کے نام خطوط میں کیا گُل کھلا رہے ہیں۔ یہ قلعہ احمد نگر کے ایام اسیری تھے، زندگی کا بیشتر حصہ قید وبند میں گزارنے والے ابوالکلام آزاداب ذرا زیادہ سخت قید کے مستحق سمجھے گئے۔ سوچنے والا کوئی بھی ہو، قابو میں کہاں آتا ہے؟مولانا نے اپنے دو مخاطب چن لیے۔ نواب صدر یار جنگ اور مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی۔ کسی راہ گیر کی پروا کی اور نہ اٹھائی گیرے کی ۔بس ان کے نام خطوط لکھتے رہے۔ان خطوط کا مجموعہ ”غبارِ خاطر” کی صورت چھپا ۔ جواب آج تک تاریخ دے رہی ہے۔
عمران خان ٹوئٹ کرتے ہیں، انٹرویو دیتے ہیں، کتاب لکھتے ہیں، مضامین باندھتے ہیں، خطوط بھی لکھتے ہیں، اسالیب کی اس قوس ِقزح میں وہ نظام کو چیلنج کرتے ہیں، جبرکو للکارتے ہیں، عدل گاہوں کے غیر متوازن پلڑوں کو دکھاتے ہیں، عوام کے حق ِحاکمیت کو یرغمال رکھنے والوں کو بے نقاب کرتے ہیں، یوں وہ تاریخی جدلیات (کشاکشِ سماج کا ناگزیر دائرہ) میں ظلم کے جمے جڑے نظام(تھیسس) کے خلاف انصاف کا سب سے بڑا جوابِ دعویٰ (اینٹی تھیسس) پیدا کرتے ہیں۔ سوال خط کا نہیں نظام کا ہے، تو انتظار بھی جواب کا نہیں نظام کی بربادی کا ہے۔ یہ رسید بیچ میں کہاں سے آگئی، یہ ”میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں” کی نفسیات کہاں سے آگئی؟ عمران خان کی فکر کسی دُکان کی جنس گراں مایہ کی فروختنی شے تو نہیں، جو کسی منشی کے حساب کی طرح ہو، یاکسی فروختندکالم نگار کے برتے گئے الفاظ کا فی لفظ لین دین ہو، یہ تو کروڑوں لوگوں کی امید ہے، اس تعفن زدہ نظام کو اکھاڑپھینکنے کی برسوں کی جستجو کا حاصل ہے۔ یہ تاریخ کی بے لگام قوتوں کے ناگزیر تصادم کا لمحۂ اٹل ہے۔
طلعت حسین کے جملوں کے رخ و رخسار ، نقش ونگار اور خدوخال سنوارنے والی عاصمہ شیرزای نے لکھا ہے کہ ”خدا جانے اس خط کا جواب راہگیروں کے ذریعے آئے گا یا اٹھائی گیروں کے ذریعے”۔ ایک جواب سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی دیا ہے کہ رسید نہیں آئے گی، یہ تو عاصمہ شیرزای بتائیں گی کہ سینیٹر موصوف کا مقام اُن کی اس فہرست میں کیا ہے؟ کیونکہ میر کے اشعار کی طرح ان کے الفاظ بھی ایک” مقام ” سے ہوتے ہیں۔ سہل اُن کو سمجھنا بھی نہیں ہے۔ سہل تو عاصمہ کو سمجھنا بھی نہیں ہے کہ اُن کا کالم بھی ”یار لوگ” ایک جواب ہی کی طرح لیتے ہیں، شمار مگر اُن کا صحافیوں میں ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنی ہی دولفظی فہرست سے تو آپ ہی باہر ہو جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فیصل واوڈا سے لے کر متعدد کالم نگاروں تک سب ایک ہی طرح کا کام کرتے ہیں یعنی جواب دیتے ہیں۔ خط کا نہیں تو سیاسی خط وخال کا ضرور!!
غالب کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے خطوط کے ذریعے دہلی کی زبان کو تحریر کا جامہ دیا۔ عمران خان کے خطوط صحافت وسیاست کے مقتدر حلقوںکے جامے اُتار رہے ہیں۔
کیا ہے وہ جان مجسم جس کے شوق دید میں
جامۂ تن پھینک کر روحیں بھی عریاں ہو گئیں