... loading ...
پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین
پاکستانی یوتھ پاکستان کی کل آبادی کا ٩٥ فی صد ہے۔دیکھا جائے تو یہ تناسب کل آبادی کا نصف سے زائد ہے لیکن ریاست پاکستان نے ان کے مستقبل کے لیے رتی بھر منصوبہ بندی نہیں کی۔ان کی صحت،تعلیم،روز گار اور ان کے بہترین مصرف کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔ملک میں دی جانے والی تعلیم کا نصاب نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ اس کی تدریس کے نتائج خطرناک حد تک نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔آغاز ہی سے ریاستی پالیسیوں اور عقیدے کی منفی اور غلط تشریح نے ہماری یوتھ کو انتہا پسندی،شدت پسندی اور ناامیدی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ہماری یوتھ کے پاس نہ کوئی نصب العین ہے نہ کوئی آدرش اور نہ امید،بس سلگتی ہوئی زندگیاں رہ گئی ہیں۔
ریاستیں اپنی یوتھ کے لیے ایسی ٹھوس پالیسیاں مرتب کرتی ہیں،ایسے اقدامات اٹھاتی ہیں اور ایسا ماحول بناتی ہیں کہ وہ قعرمذلت میں جانے کی بجائے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کر کے اپنے کامیاب مستقبل کی راہیں خود متعین کرتی ہے۔اپنے مستقبل کے منصوبے خود تیار کرتی ہے اور کڑے سے کڑے حالات سے ہمیشہ کے لیے نکلنے میں سرخرو ہو جاتی ہے۔یورپ تو یورپ ہے ہمارے ہمسایا ممالک کی یوتھ کی مثال لے لیجیے وہاں کی یوتھ میں اور ہماری یوتھ کے مائنڈسیٹ میں بڑا واضح فرق ہے ،وہاں کی یوتھ بڑی حد تک لاجیکل اور منطقی سوچوں سے مالا مال ہے جبکہ ہماری یوتھ ہمیشہ کسی معجزے کی منتظر رہتی ہے،پراپیگنڈے سے متاثر ہونے کا رحجان زیادہ ہے،پرتعیش زندگی کے خواب تو دیکھتی پر محنت اور جدوجہد کی جانب راغب نہیں ہوتی،کتاب نہیں پڑھتی وظیفے پڑھتی ہے اور دن بہ دن نکمی ہوئی جاتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کی زندگیوں میں تخلیقیت کا فقدان بڑھ گیا ہے۔کسی بھی طرح کا نیاپن نہ اس کی تعلیم وتعلم میں ہے،نہ نصاب میں اور نہ ہی اس کے گھریلو اور تعلیمی اداروں کے ماحول میں۔ایک لمبے عرصے سے اس یوتھ کو ایسے پیشوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جن سے مالی منفعت کا حصول زیادہ بہتر ہے۔آرٹ،فنون لطیفہ اور سماجی علوم کی حوصلہ شکنی نے ہماری یوتھ کو تخلیقیت سے بڑی حد تک دور کر دیا ہے۔یہ وہ علوم ہیں جو ہجوم کو قوم بنانے اور ناکارہ انسان کو مفید شہری بنانے میں معاونت کرتے ہیں۔مگر بوجہ ان علوم کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے۔رہی سہی کسر افغان وار کے نتیجے میں دائیں بازو کی طاقتوں نے یوتھ کو کسی ایسی جانب مصروف کار رکھا کہ یہ فقط غیبی امداد یا پھر چور دروازوں کی طرف نگاہیں جمائے ہوئے ہے۔جہادی تنظیموں اور گماشتوں نے ہماری یوتھ کو لایعنی سرگرمیوں کی وادیوں کی نذر کر رکھا ہے۔ ریاست نے ماں کا کردار ادا کرنے سے انکار کردیا ہے۔یہ عصر حاضر کی نوجوان نسل کے دکھوں کو سمجھنا ہی نہیں چاہتی ،گزشتہ سات آٹھ برسوں سے روز گار کے جملہ مواقع ختم کر دیے گئے ہیں۔انڈسٹری اور زراعت کی جانب کوئی توجہ نہیں،سرکاری ملازمتوں کی حوصلہ شکنی کرنے کا اگر ماحول بنانا ہی تھا تو پھر یوتھ کے باعزت روزگار کے لیے کوئی اور ذرائع پیدا کرنے کے مواقع بھی ریاست کی ذمہ داری تھی ۔ریاست نے تو گویا پوری قوم کو بالعموم اور یوتھ کو بالخصوص انصاف،کوالٹی ایجوکیشن،پرامن ماحول اور روزگار دینے سے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ ان تمام عوامل نے ہماری آج کی یوتھ کو ایک عجیب مخمصے کا شکار کر دیا ہے۔اس مخمصے نے بڑی حد تک یوتھ کو سائیکو بنا دیا ہے۔ریاست کی کامیابی کے پیچھے نوجوانوں کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ان کی فعالیت اور جواں جذبوں ہی سے کوئی بھی ریاست کامیاب ریاست کہلانے کی حقدار ٹھہرتی ہے۔جبکہ ہماری ریاست اپنی یوتھ کی صلاحیتوں کو اپنی نالائقیوں سے تباہ کرنے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ریاست کا یہ رویہ کہیں ان جوانوں کو کھو نہ دے جنھوں نے ستاروں پر کمند ڈالنی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔