... loading ...
زریں اختر
وسعت اللہ خان کا کالم، بی بی سی اُردو کی ویب سائیٹ، ٢٩ ِ جنوری ٢٠٢٥ء (بحوالہ)؛اوّل اوّل تو ہم نے دل تھام لیا یہ سمجھ کر کہ فاضل کالم نگار خطبات کے مخاطبین، سیاسی رہنما ئوں کے کارکنان، کبیر صحافیوں کے صغیر قلم گیروںاورشاعروں کے سامعین کی ناقدریوں پر قلم پیٹ رہے ہیں، لیکن وہ تو سولی چڑھے اعتماد کی دہائی دے رہے تھے ، اب ہماری جان میں جان آئی اورہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ اگلے کالم کا موضوع بھی جس کا ہم نے دامن پکڑ لیا۔
مظہر عباس صاحب کے کالم دال دلیا ، جیسے روزانہ کھانا پکنا اور کھانا ضروری ہے کہ اس کے بغیر جسم کی گاڑی نہیں چل سکتی ، وجاہت مسعود صاحب کا کالم دماغ کی آکسیجن،جس کے بناء زندگی کا تصورممکن نہیں اور وسعت اللہ خان صاحب کا کالم روح کی ترنگ اور روح بھی وہ جو زخمی ہوچکی ہے لیکن جھوم رہی ہے ،سر دُھن رہی ہے ، اس ورد کے ساتھ کہ جھوم برابر جھوم صحافی جھوم برابر جھوم۔
ذہن میں مختلف تصورات کبھی مربوط کبھی متناقض چلتے رہتے ہیںجیسے نظام اور افرادکا تعلق، شخصیات اور نظریات کا رشتہ ، زمان و مکاںکی تہہ داریاں۔ ایک ہی صورتِ حال کی تفہیم کے کئی زاویے اورمختلف درجے ہوتے ہیں؛ باہم مربوط و متناقض ؛ یہ سب آلاتِ تفہیم ہیں۔وسعت اللہ خان صاحب کے نزدیک بد اعتمادی کی فضا اور اعتماد کا فقدان کے خیال کومیں بد نیتی کی فضا اور نیک نیتی کے فقدان سے جوڑوں گی۔ضروری نہیں کہ جب کوئی قلم اُٹھاتاہے تو وہ اپنے قاری کو کسی نتیجے تک پہنچانا یا لے جانا چاہتاہے، کوئی اپنے سوچنے کے عمل کو بھی لکھ سکتاہے اور قاری کو اس کا شریک بنا سکتاہے ، تو آپ ہیں شریکِ سفر؟سنتے ہیں عامی اور حکیم صاحب کا غیبی مکالمہ۔
حکیم وسعت اللہ خان کے مطابق اس معاشرے کے کرائے گئے مختلف ٹیسٹوں ، الٹرا سائونڈ کی رپور ٹوں اور ایکس ریز ثابت کرتی ہیں کہ اس کو بد اعتمادی کا عارضہ لاحق ہے ، یہ مرض مریض کے سر کے بال سے لے کر پائوں کی چھنگلیا کی چَٹ تک میں سرایت کرچکا ہے ، مرض قدیم ہے، بیماری بری طرح جڑ پکڑ چکی ہے ۔ حکیم صاحب کی پرتشویش تفصیلی تشخیص سے عامی کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ حکیم صاحب نے تشخیصی رپورٹ ہی نہیں بتائی بلکہ مریض کے قریب المرگ ہونے کی پیش گوئی بھی کر دی ہے ،اس سے پہلے کہ عامی کے کان قاضی القضات کے قدموں کی چاپ سنتے ،حکیم صاحب نے فرمایا :ایک علاج ہے، مریض کو پاگل خانے لے جائیں۔
عامی : اب یہ نئی اُفتاد، وہ مر رہا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ پاگل خانے لے جائوں؟
نیلے جینز کی گھسی پٹی پینٹ ، آدھی آستینوں کی ٹی شرٹ میں ملبوس کلین شیو حکیم صاحب نے اپنی سر کو سر کرتی پیشانی کھجائی اور کہا، میں بھی وہیں سے آیا ہوں اور آتا جاتا رہتا ہوں۔
عامی : ایں !تو کیا اس کا علاج پاگل کریں گے؟
حکیم صاحب : آپ مانیں یا نہ مانیں اگر کوئی پاگل خانے سے چُھوٹا حکیم تشخیص کرسکتا ہے تو وہیں کوئی پاگل علاج بھی تجویز کرسکتاہے۔
عامی : اوہ! تو پھر سب کو پاگل خانے بھیج دیتے ہیں۔
حکیم صاحب : اس کے لیے صحت مندانہ فضا چاہیے۔
عامی : یہ پاگل خانے سے چُھوٹا کیسے؟
حکیم صاحب : پاگل خانے کے حالات کچھ اچھے نہیں ۔ کئی پگلے پہلے بھاگ گئے ، ابھی ایک بھاگاہے ۔آ پ کیا سمجھتے ہیں ، میں نے جس وائرس کی تشخیص کی ہے تو کیا اس کو صرف یہی ایک بیماری ہے؟ کتنے بیکٹیریا ہیں جو اسے چمٹے ہوئے ہیں، یہ سمجھتا ہے کہ اس کا جسم ان وائرس اور بیکٹیریا کا عادی ہوگیا ہے ، امیون سسٹم توانا ہے ۔
عامی : تو کیا ایسا نہیں ہے؟
حکیم صاحب : اگر ایسا ہوتاتو ۔۔۔شاید ایسا کبھی نہیں ہوتا۔۔۔۔یا ایسا ممکن ہے؟
عامی : حکیم صاحب ! آپ تو مجھے پاگل خانے پہنچائیںگے۔
حکیم صاحب : یہ مریض ڈرپوں پر چل رہاہے اور سمجھ رہا ہے کہ یہ اسی طرح چلتا رہے گا، مطلب ڈرپوں پر،باہر سے معالج بھی بلوائے گئے ، لیکن ؟
عامی : لیکن کیا؟
حکیم صاحب : (عالم ِ نیم مد ہو شی میں )مجھے پاگل خانے کی حفاظت کرنی ہے ، اپنے پگلوں کو بچانا ہے۔
عامی : حکیم صاحب آپ ، آپ کیا؟
حکیم صاحب : میں؟ کیا ! کیا؟ آپ کیا سمجھ رہے ہیں ؟ کیا میں واہی تباہی بک رہاہوں؟
عامی:( روہانسا ہوکر)یہ میں نے کب کہا ۔
حکیم صاحب : اپنے مریض کو یہاں سے لے جائو، میری تشخیص غلط نہیں لیکن اس کا علاج میرے پاس نہیں۔
عامی : تو پھر کس کے پاس ہے ؟
حکیم صاحب : پاگل خانے کو چلنے دو، پاگلوں کو جینے دو، پاگل بہت ضروری ہیں۔
عامی : حکیم صاحب ! حکیم صاحب !
حکیم صاحب : (چونکتے ہوئے )کہیں ، آپ اب تک گئی نہیں ، اور یہ آپ کا مریض،اوہ !کیا آپ نے اس سے پہلے کسی اور معالج کو نہیں دکھایا؟
عامی : جی دکھایا تھا۔
حکیم صاحب :تو انہوں نے کیا بتایا؟
عامی :شاید وہی جو آپ نے بتایا ، لیکن وہ مریض کو نہیں مریض کے لواحقین کو موذی بتارہے تھے۔
حکیم صاحب : ہوں ںںں
عامی : انہوں نے کہا کہ بد اعتمادی کا علاج اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ بدنیتی کے وائرس میں مبتلاموذی لواحقین کا خاتمہ بالشر نہ ہومطلب وائرس کا خاتمہ بالخیر۔پھر انہوں نے انتہائی سرگوشی کے انداز میں کہاتھا(عامی نے اپنی آواز بھی د ھیمی کرلی)ہمیں اپنا مطب بندتھوڑی کراناہے ۔
حکیم صاحب : اب آپ کومرض کی سنگینی اور مریض کی بے چارگی کا احساس ہوا؟ بہتر ہے کہ آپ اپنے مریض کو فوراََیہاں سے لے جائیں۔
عامی :(تھوڑی بلند آواز میں)یہ کیا صرف میرا مریض ہے ؟ یہ آپ کا بھی مریض ہے حکیم آپ ، میں نے بی بی سی کی ویب سائیٹ پر آپ کے مطب کا بورڈ پڑھا، میں سمجھا آپ کے پاس اس کا علاج ہوگا، مجھے تو لگتا ہے کہ آپ بس وائرس کی نشان دہی کرسکتے ہیں، علاج آپ کے بس سے باہر ہے۔بلکہ۔۔۔ بلکہ آپ تو خود اتنے وائرس شدہ اور بیکٹیریا انگیز ہیں کہ آپ کا بورڈ بھی وائرس پھیلاتا ہے ۔
حکیم صاحب : (عامی کوبہ گھور(بغور نہیں) دیکھتے ہوئے) آپ کا تعلق بھی تو ادارئہ انسدادِ جراثیم سے ہے؟ کتنے جرثومے مارے؟
عامی : (شکست خوردہ لہجے میں)بساط بھرکوشش کی۔
حکیم صاحب : نتیجہ؟
عامی : نیم حکیموں سے واسطہ ۔
حکیم صاحب : (مدبرانہ انداز میں )دل چھوٹا نہ کریں، ویکسی نیشن تو اپ کی بھی معلوم نہیں ہوتی ، لگتا ہے جلد ہی پاگل خانے پہنچوگی۔
یہ کہہ کر جناب نے اپنا تھرما میٹر نما قلم کان پر اڑسا ، مریض پر غائرنظر ڈالی اور پاگل خانے کی طرف چل دیے۔