وجود

... loading ...

وجود

سفید بالوں والا لخلخا تاصحافی

پیر 10 فروری 2025 سفید بالوں والا لخلخا تاصحافی

زریں اختر

وسعت اللہ خان کا کالم، بی بی سی اُردو کی ویب سائیٹ، ٢٩ ِ جنوری ٢٠٢٥ء (بحوالہ)؛اوّل اوّل تو ہم نے دل تھام لیا یہ سمجھ کر کہ فاضل کالم نگار خطبات کے مخاطبین، سیاسی رہنما ئوں کے کارکنان، کبیر صحافیوں کے صغیر قلم گیروںاورشاعروں کے سامعین کی ناقدریوں پر قلم پیٹ رہے ہیں، لیکن وہ تو سولی چڑھے اعتماد کی دہائی دے رہے تھے ، اب ہماری جان میں جان آئی اورہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ اگلے کالم کا موضوع بھی جس کا ہم نے دامن پکڑ لیا۔
مظہر عباس صاحب کے کالم دال دلیا ، جیسے روزانہ کھانا پکنا اور کھانا ضروری ہے کہ اس کے بغیر جسم کی گاڑی نہیں چل سکتی ، وجاہت مسعود صاحب کا کالم دماغ کی آکسیجن،جس کے بناء زندگی کا تصورممکن نہیں اور وسعت اللہ خان صاحب کا کالم روح کی ترنگ اور روح بھی وہ جو زخمی ہوچکی ہے لیکن جھوم رہی ہے ،سر دُھن رہی ہے ، اس ورد کے ساتھ کہ جھوم برابر جھوم صحافی جھوم برابر جھوم۔
ذہن میں مختلف تصورات کبھی مربوط کبھی متناقض چلتے رہتے ہیںجیسے نظام اور افرادکا تعلق، شخصیات اور نظریات کا رشتہ ، زمان و مکاںکی تہہ داریاں۔ ایک ہی صورتِ حال کی تفہیم کے کئی زاویے اورمختلف درجے ہوتے ہیں؛ باہم مربوط و متناقض ؛ یہ سب آلاتِ تفہیم ہیں۔وسعت اللہ خان صاحب کے نزدیک بد اعتمادی کی فضا اور اعتماد کا فقدان کے خیال کومیں بد نیتی کی فضا اور نیک نیتی کے فقدان سے جوڑوں گی۔ضروری نہیں کہ جب کوئی قلم اُٹھاتاہے تو وہ اپنے قاری کو کسی نتیجے تک پہنچانا یا لے جانا چاہتاہے، کوئی اپنے سوچنے کے عمل کو بھی لکھ سکتاہے اور قاری کو اس کا شریک بنا سکتاہے ، تو آپ ہیں شریکِ سفر؟سنتے ہیں عامی اور حکیم صاحب کا غیبی مکالمہ۔
حکیم وسعت اللہ خان کے مطابق اس معاشرے کے کرائے گئے مختلف ٹیسٹوں ، الٹرا سائونڈ کی رپور ٹوں اور ایکس ریز ثابت کرتی ہیں کہ اس کو بد اعتمادی کا عارضہ لاحق ہے ، یہ مرض مریض کے سر کے بال سے لے کر پائوں کی چھنگلیا کی چَٹ تک میں سرایت کرچکا ہے ، مرض قدیم ہے، بیماری بری طرح جڑ پکڑ چکی ہے ۔ حکیم صاحب کی پرتشویش تفصیلی تشخیص سے عامی کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ حکیم صاحب نے تشخیصی رپورٹ ہی نہیں بتائی بلکہ مریض کے قریب المرگ ہونے کی پیش گوئی بھی کر دی ہے ،اس سے پہلے کہ عامی کے کان قاضی القضات کے قدموں کی چاپ سنتے ،حکیم صاحب نے فرمایا :ایک علاج ہے، مریض کو پاگل خانے لے جائیں۔
عامی : اب یہ نئی اُفتاد، وہ مر رہا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ پاگل خانے لے جائوں؟
نیلے جینز کی گھسی پٹی پینٹ ، آدھی آستینوں کی ٹی شرٹ میں ملبوس کلین شیو حکیم صاحب نے اپنی سر کو سر کرتی پیشانی کھجائی اور کہا، میں بھی وہیں سے آیا ہوں اور آتا جاتا رہتا ہوں۔
عامی : ایں !تو کیا اس کا علاج پاگل کریں گے؟
حکیم صاحب : آپ مانیں یا نہ مانیں اگر کوئی پاگل خانے سے چُھوٹا حکیم تشخیص کرسکتا ہے تو وہیں کوئی پاگل علاج بھی تجویز کرسکتاہے۔
عامی : اوہ! تو پھر سب کو پاگل خانے بھیج دیتے ہیں۔
حکیم صاحب : اس کے لیے صحت مندانہ فضا چاہیے۔
عامی : یہ پاگل خانے سے چُھوٹا کیسے؟
حکیم صاحب : پاگل خانے کے حالات کچھ اچھے نہیں ۔ کئی پگلے پہلے بھاگ گئے ، ابھی ایک بھاگاہے ۔آ پ کیا سمجھتے ہیں ، میں نے جس وائرس کی تشخیص کی ہے تو کیا اس کو صرف یہی ایک بیماری ہے؟ کتنے بیکٹیریا ہیں جو اسے چمٹے ہوئے ہیں، یہ سمجھتا ہے کہ اس کا جسم ان وائرس اور بیکٹیریا کا عادی ہوگیا ہے ، امیون سسٹم توانا ہے ۔
عامی : تو کیا ایسا نہیں ہے؟
حکیم صاحب : اگر ایسا ہوتاتو ۔۔۔شاید ایسا کبھی نہیں ہوتا۔۔۔۔یا ایسا ممکن ہے؟
عامی : حکیم صاحب ! آپ تو مجھے پاگل خانے پہنچائیںگے۔
حکیم صاحب : یہ مریض ڈرپوں پر چل رہاہے اور سمجھ رہا ہے کہ یہ اسی طرح چلتا رہے گا، مطلب ڈرپوں پر،باہر سے معالج بھی بلوائے گئے ، لیکن ؟
عامی : لیکن کیا؟
حکیم صاحب : (عالم ِ نیم مد ہو شی میں )مجھے پاگل خانے کی حفاظت کرنی ہے ، اپنے پگلوں کو بچانا ہے۔
عامی : حکیم صاحب آپ ، آپ کیا؟
حکیم صاحب : میں؟ کیا ! کیا؟ آپ کیا سمجھ رہے ہیں ؟ کیا میں واہی تباہی بک رہاہوں؟
عامی:( روہانسا ہوکر)یہ میں نے کب کہا ۔
حکیم صاحب : اپنے مریض کو یہاں سے لے جائو، میری تشخیص غلط نہیں لیکن اس کا علاج میرے پاس نہیں۔
عامی : تو پھر کس کے پاس ہے ؟
حکیم صاحب : پاگل خانے کو چلنے دو، پاگلوں کو جینے دو، پاگل بہت ضروری ہیں۔
عامی : حکیم صاحب ! حکیم صاحب !
حکیم صاحب : (چونکتے ہوئے )کہیں ، آپ اب تک گئی نہیں ، اور یہ آپ کا مریض،اوہ !کیا آپ نے اس سے پہلے کسی اور معالج کو نہیں دکھایا؟
عامی : جی دکھایا تھا۔
حکیم صاحب :تو انہوں نے کیا بتایا؟
عامی :شاید وہی جو آپ نے بتایا ، لیکن وہ مریض کو نہیں مریض کے لواحقین کو موذی بتارہے تھے۔
حکیم صاحب : ہوں ںںں
عامی : انہوں نے کہا کہ بد اعتمادی کا علاج اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ بدنیتی کے وائرس میں مبتلاموذی لواحقین کا خاتمہ بالشر نہ ہومطلب وائرس کا خاتمہ بالخیر۔پھر انہوں نے انتہائی سرگوشی کے انداز میں کہاتھا(عامی نے اپنی آواز بھی د ھیمی کرلی)ہمیں اپنا مطب بندتھوڑی کراناہے ۔
حکیم صاحب : اب آپ کومرض کی سنگینی اور مریض کی بے چارگی کا احساس ہوا؟ بہتر ہے کہ آپ اپنے مریض کو فوراََیہاں سے لے جائیں۔
عامی :(تھوڑی بلند آواز میں)یہ کیا صرف میرا مریض ہے ؟ یہ آپ کا بھی مریض ہے حکیم آپ ، میں نے بی بی سی کی ویب سائیٹ پر آپ کے مطب کا بورڈ پڑھا، میں سمجھا آپ کے پاس اس کا علاج ہوگا، مجھے تو لگتا ہے کہ آپ بس وائرس کی نشان دہی کرسکتے ہیں، علاج آپ کے بس سے باہر ہے۔بلکہ۔۔۔ بلکہ آپ تو خود اتنے وائرس شدہ اور بیکٹیریا انگیز ہیں کہ آپ کا بورڈ بھی وائرس پھیلاتا ہے ۔
حکیم صاحب : (عامی کوبہ گھور(بغور نہیں) دیکھتے ہوئے) آپ کا تعلق بھی تو ادارئہ انسدادِ جراثیم سے ہے؟ کتنے جرثومے مارے؟
عامی : (شکست خوردہ لہجے میں)بساط بھرکوشش کی۔
حکیم صاحب : نتیجہ؟
عامی : نیم حکیموں سے واسطہ ۔
حکیم صاحب : (مدبرانہ انداز میں )دل چھوٹا نہ کریں، ویکسی نیشن تو اپ کی بھی معلوم نہیں ہوتی ، لگتا ہے جلد ہی پاگل خانے پہنچوگی۔
یہ کہہ کر جناب نے اپنا تھرما میٹر نما قلم کان پر اڑسا ، مریض پر غائرنظر ڈالی اور پاگل خانے کی طرف چل دیے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
آفاق احمد اور ایم کیو ایم کا مسئلہ وجود جمعه 14 مارچ 2025
آفاق احمد اور ایم کیو ایم کا مسئلہ

امریکہ اور ایران کی یہ جگل بندی کیا گُل کھلائے گی ؟ وجود جمعه 14 مارچ 2025
امریکہ اور ایران کی یہ جگل بندی کیا گُل کھلائے گی ؟

فلسطین کی آزادی ، ممکن کب؟ وجود جمعرات 13 مارچ 2025
فلسطین کی آزادی ، ممکن کب؟

مغل شہنشاہوں سے ہندوؤں کی نفرت وجود جمعرات 13 مارچ 2025
مغل شہنشاہوں سے ہندوؤں کی نفرت

حقوق العباد اور حقیقی توبہ وجود جمعرات 13 مارچ 2025
حقوق العباد اور حقیقی توبہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر