... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
رام مندر کے بعد کمبھ میلے کوسیاسی آلۂ کار بنانے کی کوشش بھی ناکام ہوگئی ۔ ایودھیا میں پران پرتشٹھان کے بعداب کی بار چار سو پار کا نعرہ لگا تھا ۔ اس مرتبہ کمبھ میلے سے پہلے ہی سارے ملک میں یوگی اور مودی کے لاکھوں بینر لگا کر بلانے کی مہم چھیڑ دی گئی ۔ ایک جعلی بیانیہ کے تحت یہ شوشا چھوڑا گیا کہ 144سال بعد یہ مہا کمبھ آیا ہے ۔ سیکڑوں سال سے ہر بارہ سال میں الہ باد کے سنگم پر کمبھ کا میلہ لگتا ہے اس لیے یہ دعویٰ بے بنیاد تھا پھر بھی جھوٹ میں بہہ کر لاکھوں لوگ پریاگ راج کی جانب چل پڑے ۔ یہ دیکھ کر زعفرانی ٹولے نے اعلان کردیا کہ’ اب کی بار40 کروڈ لوگ آئیں گے ” اور’100 کروڈ ‘ لوگوں کا انتظام کیا گیا ہے ۔ ڈھائی گنا زیادہ انتظام و انصرام کی خاطر سرکاری خزانے سے 17 ہزار کروڈ روپئے نکال کر کچھ تووی آئی پی زائرین کے آرام و آسائش پر خرچ کیا گیا اورکچھ آپس میں بانٹ کر کھا گئے لیکن آگے چل کر یہ جھوٹ کے ساجھے کی یہ ہانڈی بیچ چوراہے پر پھوٹ گئی۔
کمبھ میلے کی ابتدا مسلم دشمنی اور ان پر پابندی کی خبروں سے ہوئی ۔ اب میلے سے آنے والی باباوں کی ننگ دھڑنگ ویڈیوز اور حا دثات کی تفصیلات دیکھ کر وہاں جانے کے خواہشمند مسلمان دشمنانِ اسلام کا شکریہ ادا کررہے ہیں۔ اس دوران اتر پردیش کے بھگوا دھاری وزیر اعلیٰ پر ممبیا زبان کا محاروہ ‘کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ’ صادق آگیا۔ موصوف نے کمبھ کے ذریعہ ملکی پور میں ضمنی انتخاب جیت کر ایودھیا کی شکست کا انتقام لینے کا منصوبہ بنایا۔اس کے علاوہ دو سال بعد منعقد ہونے والے ریاستی انتخاب میں بھی چونکہ ایودھیا کا رام مندر تو کام نہیں آسکے گا اس لیے کمبھ کے میلے میں ڈبکی لگا کر اپنے سارے پاپ دھو نے اور سنگم پر اپنی سیاسی نیاّ پار لگانے کی سعی کرنے کی کوشش کی ۔ مودی نے بھی بڑی چالاکی سے دہلی میں پولنگ کے دن ڈبکی لگاکر کمبھ کا بھرپور استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرلی لیکن مشیتِ الٰہی نے سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ ایسے میں ان دونوں پرمیر کا یہ مشہور شعر ترمیم کے ساتھ صادق آگیا
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
کمبھ کے اس میلے نے آخر ان کا کام تمام کیا
تاریخی اعداد و شمار کے مطابق وطنِ عزیز میں مذہبی تہواروں کے وقت مندروںمیں یاتریوں کا بھگدڑ کے سبب جان گنوانا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اس واقعے سے چند دن پہلے ، جنوری 2025 میں، آندھرا پردیش کے تروملا مندر میں بھگدڑ میں ٦ افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔ اس سے قبل جولائی 2024 کے اندر،خوداتر پردیش میں ایک بابا کو دیکھنے کے لیے جمع ہونے والی بھیڑ میں بھگدڑ مچنے سے 121 افراد نے اپنی جان گنوائی تھی ۔ 2022 میں ویشنو دیوی مندر کے اندر بھگدڑ 12 افراد کی ہلاکت کا سبب بنی تھی۔ 2013 میں مدھیہ پردیش کے اندر ایک تہوار کے دوران 115 لوگ ہلاک ہوگئے تھے ۔حالیہ ہندوستانی تاریخ کی سب سے المناک بھگدڑ یکم جنوری 2008 کو جموں و کشمیر کے ویشنو دیوی مندر میں پیش آئی جہاں بھگدڑ مچنے سے 150 سے زائد افراد ہلاک اور مہاراشٹر کے ناسک میں 2004 میں تقریباً 300 افراد کو موت کے منہ میں ڈھکیل دیا۔ اکتوبر 2012 میں بہار کے پٹنہ میں راون کا پتلا جلانے والی بھیڑ کے 30 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ۔
کمبھ کے میلے میں بھی حادثات ہمیشہ ہوتے رہے ہیں۔ 1986 میں ہریدوار کے اندر کمبھ میلہ کی بھگدڑ 200 لوگوں کی ہلاکت کا سبب بنی۔ 2003 میں ناسک کمبھ کی بھگدڑ نے 39 جانیں تلف کیں۔ 2010میں ہریدوار کمبھ میلے کے دوران سادھوؤں اور عقیدت مندوں کے درمیان تصادم کے بعد بھگدڑ کی وجہ سے 7 لوگ ہلاک ہوئے ۔ الہ آباد ہی کے اندر 2013 کے کمبھ میلہ میں ریلوے اسٹیشن پر بھگدڑ کے سبب کم از کم 36 زائرین ہلاک ہو گئے تھے لیکن نہ تو کبھی وزیر اعلیٰ کو اس طرح موردِ الزام ٹھہرایا گیا اور ان سے استعفیٰ طلب کیا گیا۔ اس بار پہلے کمبھ میلے کا استعمال سیاسی قد بڑھانے کے لیے کیا گیا اور بعد میں رونما ہونے والے حادثات کی آڑ لے کرسیاسی رقابت کا حساب کتاب چکایا گیا۔ بی جے پی اپنے وزرائے اعلیٰ کو ہٹانے کی قائل نہیں ہے ۔ اس نے ہنوز منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ کو نہیں بدلا ایسے میں یوگی ادیتیہ ناتھ خلاف چلائی جانے والی مہم میں شک کی سوئی امیت شاہ کی جانب گھوم جاتی ہے ۔
کمبھ کے میلے کا استعمال اگر یوگی جی اپنے فائدے کے لیے کرسکتے ہیں تو شاہ جی کیوں نہیں کرسکتے ؟ مودی جی کے اظہارِ افسوس کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ جس وزیر اعظم نے ہنوز منی پور پر ہمدردی کا ایک لفظ نہیں کہا ا خر وہ گہری تعزیت کرکے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کیوں کررہا ہے ؟ کمبھ میلے کے حادثے میں 30 افراد کی ہلاکت اور 90لوگوں کازخمی ہونا ناقابلِ یقین ہے ۔ فور پی ایم نیوز نے اپنے ذرائع سے 70 کی تصدیق کی ہے ۔سرکار نے اعتراف میں 16 گھنٹے لگا کر ہلاکتوں کو ازخود مشکوک کردیا۔ کمبھ میں 1500 لاپتہ لوگوں کی شکایت موصول ہوئی ہے حالانکہ ایک بڑی تعداد کو شکایت درج کروانے سے قبل انتظامیہ نے میلے سے کہیں دور بس سے لے جاکر پھینک دیا گیا ۔ اس طرح پریشان حال زائرین کو جنہیں سبز باغ دِ کھا کر بلایا گیاتھا اپنے لواحقین کی تلاش سے بزورِ قوت محروم کرکے غم کے صحرا میں چھوڑ دیا گیا۔
حزب اختلاف نے مہا کمبھ میں بدنظمی ، وی آئی پی کلچر اور وزیراعلیٰ کی اپنی تشہیری کوششوں کو حادثے کی وجہ قرار دے کر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے استعفیٰ کی مانگ کرکے انتظام فوج کو سونپنے کی صلاح دے ڈالی ۔ سادھو سنت بہت پہلے سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ آگے چل کر اگر ایسا ہوجائے تو نہ صرف یوگی کی نااہلی پر مہر لگ جائے گی بلکہ ان پر وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کی فوقیت حاصل ہوجائے گی۔ یہ مودی اور یوگی دونوں کو گوارہ نہیں ہے ۔ وقت کے ساتھ یہ حقیقت بھی کھل گئی کہ بھگدڑ کا سانحہ سنگم کے علاوہ دیگر دو مقامات پر بھی ہوا۔ جائے وقوع پر کئی گھنٹوں تک لاشیں پڑی رہیں۔ جن کے اپنے مر چکے تھے وہ چیختے پکار کرتے رہے ۔ ماتم کناں متاثرین کی دادرسی کے بجائے آزمائش کی اس نازک گھڑی میں ان کو بلانے والا یوگی دہلی میں اپنی پارٹی کا پرچار کررہا تھا۔للن ٹاپ نامی چینل نے گھوسی کے اندر ہلدی رام کی ایک دوکان سے اپنا پروگرام نشر کرتے ہوئے وہاں چھپائی جانے والی بھگدڑ کے بعد تتر بتر ہجوم کے سامان کو بلڈوزرس سے ہٹانے کی ویڈیو نشر کرکے کھلبلی مچا دی ۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ بلڈور بابا کو اپنی کوتاہی چھپانے کے لیے جے سی بی کا یہ استعمال بھی کرنا پڑے گا ۔ ہلدی رام کی دوکان پر کام کرنے والوں کے بیان کو سن رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ وہاں موجود نیہا اوجھانے بتایا کہ پندرہ لاکھ کی بھیڑ ان کی دوکان کی جانب ٹوٹ پڑی۔ اس نے دروازہ توڑ دیا اور ایک لاکھ سترّ ہزار کی رقم بھی لوٹ کر لے گئے ۔اس لڑکی نے روتے ہوئے کہا وہ جس کونے میں کھڑی تھی اگر بھیڑ وہاں آجاتی تو وہ بھی ایک لاش ہوتی۔ نیہا بولی یہ نہایت سنگدل اورسفاک لوگ ہیں ۔ اس کی دوکان کے آگے دو لاشیں پڑی تھیں اس کے باوجود کوئی کرکرے تو کوئی نمکین مانگ رہا تھا۔ لاشوں کے درمیان گاہکوں کے درمیان کچھ لوگ پوچھ رہے تھے رس گلا ہے کیا؟
نیہا نے بتایا کہ انتظامیہ نے ان کی مدد کے لیے وہ کانسٹبل بھیجے ان میں سے ایک خاتون تھی اور وہ خود بھی بے یارو مددگار تھے ۔ وہ سوال کرتی ہے کہ سو کروڈ لوگوں کا انتظام کہاں گیا؟ انتظامیہ کی ساری توجہ ان حادثات کو چھپانے پر مرکوز تھی ۔ کمبھ میلہ کو ایک سیاسی اوزار بناکر اس اوسر سے اپنی آپدا دور کرنے کی کوشش کرنے والے سیاستداں غائب تھے اور اس کی قیمت غریب عوام چکارہے تھے ۔ اس نفسا نفسی کے عالم میں جب انتظامیہ نے کمبھ میلے میں آنے والوں کونکالنا شرو ع کیا الہ باد کے مسلمان ان کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت انگیزی کو بھلا کر مصیبت زدگان کی مدد کے لیے آگے آئے ۔ انہوں نہ صرف ٹھنڈی سے ٹھٹھرتے ہوئے لوگوں کو کمبل بستر دیا بلکہ بھوکوں کو کھانا بھی کھلایا۔ پریشان حال خواتین کو اپنے گھروں میں بیت الخلا استعمال کرنے کی اجازت دی اورٹھنڈ سے بچنے کے لیے سبھی کو چائے پلائی ۔ مساجد کے دروازے مصیبت زدگان کے لیے کھول دئیے گئے ۔ الہ باد کے مسلمانوں نے دین اسلام کا تقاضہ پورا کرکے اپنی اخلاقی برتری ثابت کردی اور فرقہ پرستوں کے گال پر وہ زناٹے دار طمانچہ مارا کہ جس کی گونج دیر تک اور دور تک سنائی دے گی۔ گودی میڈیا سمیت سارا سوشیل میڈیا ان کی تعریف و توصیف میں رطب السان ہے ۔ یہ رحمت العالمین نبی ۖ کی اتباع ہے کہ آپ ۖ نے مکہ والوں کے لیے زمانۂ قحط میں دعا کی اور بارش ہونے لگی اس سے انہیں شدید مصیبت سے نجات ملی بقول حالی
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا