وجود

... loading ...

وجود

بھارت میں جنونی مذہبی ایجنڈااوراس کا عالمی اثر

جمعرات 06 فروری 2025 بھارت میں جنونی مذہبی ایجنڈااوراس کا عالمی اثر

سمیع اللہ ملک
برطانوی حکومت کی جاری کردہ ایک لیک رپورٹ کاتجزیہ کیاگیاہے،جس میں انتہاپسندی کی بڑھتی ہوئی لہرکے اثرات نے مختلف سیاسی، سماجی اورثقافتی گروپوں کومتاثرکیاہے اور نسوانی دشمنی،ہندو قوم پرستی اور”مینوسفیئر”کوانتہاپسندی کے نئے ذرائع کے طورپرشناخت کیا گیاہے۔یہ رپورٹ گزشتہ موسم گرمامیں ہونے والے فسادات کے بعدتیارکی گئی تھی اوراس میں ان عوامل کاذکر کیاگیاہے جومعاشرتی عدم استحکام اورانتہا پسندی کی طرف لوگوں کومائل کرتے ہیں۔
گزشتہ موسم گرما کے فسادات کے بعد ”یوویٹ کوپر”کی طرف سے افشا رپورٹ میں ہندو قوم پرستی، بد عنوانی اور ”مینوسفیر”کوانتہاپسندی کی افزائش کی بنیادوں کے طورپرشناخت کیاگیاہے۔”یوویٹ کوپر”ایک برطانوی سیاست دان ہے۔لیبرپارٹی کے رکن، کوپر 1997 سے پونٹیفریکٹ، کیسل فورڈ اور ناٹنگلی، اس سے قبل نارمنٹن، پونٹیفریکٹ اور کیسل فورڈ کیلئے پارلیمنٹ (ایم پی)کے رکن رہے ہیں اور جولائی2024سے ہوم سیکریٹری کے طورپربھی خدمات انجام دیں ہیں۔ہوم سکریٹری کے”تیز تجزیاتی اسپرنٹ”نے”درجہ دوم کی پولیسنگ” کے دعوؤں کوبھی ”دائیں بازوکے انتہاپسند بیانیہ”کے طورپر مستردکردیاہے۔اس کے استدلال کے مطابق حکام کوبنیادی طور پر ”تشویش کے نظریات”پروسائل کو مرکوزکرنے کی بجائے انتہا پسندی پرقابوپانے کیلئے ”رویے پرمبنی اورنظریاتی طورپر”حقیقی اپروچ”اپنانی چاہیے۔
دائیں طرف جھکارکھنے والے تھنک ٹینک پالیسی ایکسچینج کی طرف سے یہ لیک رپورٹ انتہاپسندی کے بارے میں حکومت کے نقطہ نظرکی گہری جانچ پڑتال کے درمیان سامنے آئی ہے کہ انسداد دہشتگردی کے افسران کویقین نہیں تھاکہ ساتھ پورٹ کے قاتل ایکسل روڈاکوباناکے”بنیادپرستی کے خطرے”کاسامناہے۔کوپر نے اگست میں تیزی سے جائزہ لیتے ہوئے پہلی باراس نے 2022میں لیسٹر میں بدامنی کے بعدہندوقوم پرست انتہاپسندی،اورہندوتواکوتشویش کے نظریات کے طورپرشناخت کیاتھا۔انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھاہے کہ”ہندوقوم پرست انتہاپسندی ایک ایساانتہاپسندنظریہ ہے جوہندوبالادستی کی وکالت کرتاہے اورہندوستان کوایک نسلی مذہبی ہندوریاست میں تبدیل کرناچاہتاہے”۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ ہندوتواہندوازم سے الگ ایک سیاسی تحریک ہے جو ہندوستانی ہندوں کی بالادستی اورہندوستان میں یک سنگی”ہندوراشٹر”یاریاست کے قیام کی وکالت کرتی ہے۔برطانیہ میں ہندواور مسلم کمیونٹیزکے درمیان کشیدگی اب بھی واضح ہے اورلیسٹرکے واقعات یہ ظاہرکرتے ہیں کہ کس طرح غلط معلومات آف لائن کارروائی میں کرداراداکرسکتی ہیں۔یادرہے کہ گارڈین نے پانچ ماہ قبل بھی ایسی ہی رپورٹ شائع کی تھی جس میں انتہاپسندی کی وجوہات اوراس کے پیچھے ایسے ہی عوامل کی نشاندہی کی تھی۔
معاملے کی سنگینی کایہ عالم ہے کہ ایک مرتبہ پھررپورٹ میں انتہاپسندی کے روایتی تصورکوچیلنج کیاگیاہے۔حکومت کے مطابق،اب انتہاپسندی کوصرف نظریاتی سطح پرنہیں دیکھا جاناچاہیے بلکہ اس کے ساتھ لوگوں کے رویوں اورسرگرمیوں پرتوجہ دی جانی چاہیے۔حکومت کا موقف ہے کہ انتہاپسندی کی روک تھام کیلئے”آئیڈیالوجی کی بجائے رویے اور سرگرمیوں”کوہدف بنایا جائے۔اس سے مرادیہ ہے کہ انتہا پسندی کی تشخیص صرف کسی خاص نظریے یاآئیڈیالوجی پرمبنی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان سرگرمیوں کوبھی زیرغورلایاجائے جو عوامی سطح پرنقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
رپورٹ میں نسوانی دشمنی کوانتہاپسندی کے ایک اہم عنصرکے طورپرشناخت کیاگیاہے۔”مینوسفیئر”ایک آن لائن سب کلچرہے جس میں نسوانی دشمنی پرمبنی موادکی بھرمارہے۔اس سب کلچرمیں مختلف کمیونٹیزشامل ہیں،جیسے کہ مردوں کے حقوق کے کارکن، پِک اپ آرٹسٹس ”مرد جو اپنے راستے پرچلتے ہیں”اورانسیلز(غیراختیاری عزلت پسند)۔یہ تمام گروہ نسوانیت کے خلاف انتہائی نظریات پیش کرتے ہیں اوربعض اوقات دائیں بازوکی انتہا پسندآئیڈیالوجی کوبھی شامل کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق،ان گروپوں میں نسلی تفاوت اورعالمی نوعیت کی نظریات کی مخالفت کی جاتی ہے۔”مینوسفیئر”میں ایسے بیانیے پائے جاتے ہیں جوافرادکوعزلت میں ڈالنے، معاشرتی تعلقات کے بارے میں منفی رویے اپنانے،اورخواتین کے حقوق کے خلاف متشددخیالات کوفروغ دیتے ہیں۔خاص طورپر”’انسیلز”کی جانب سے ایک قسم کی معاشرتی تنہائی اورخواتین سے متعلق منفی خیالات کا پرچار کیاجاتاہے۔
رپورٹ میں ہندوقوم پرستی اورہندوتواکوبھی انتہاپسندی کے خطرات کے طورپرذکرکیاگیاہے۔2022میں لیسٹرکے فسادات کے بعد ہندو قوم پرستی کوایک نیانظریہ قراردیاگیاجوبھارت میں ہندوریاست کے قیام کی حمایت کرتاہے۔ہندوتواکی تحریک ایک ایسی سیاسی متشدد تحریک ہے جوہندوں کے غلبے اوربھارت میں ایک یکساں ہندوریاست کے قیام کاپرچارکرتی ہے۔رپورٹ میں واضح طورپر کہاگیا ہے کہ ہندو قوم پرستی کی شدت پسندی برطانیہ میں مسلمانوں کے ساتھ تناکوبڑھارہی ہے،اوریہ فرقہ وارانہ تشویش کاباعث بن سکتی ہے۔اس کے علاوہ، رپورٹ میں اس بات کابھی ذکرکیاگیاہے کہ”دائیں بازوکی انتہاپسندبیانیے”کے پیچھے عالمی نوعیت کی تحریکوں جیسے کہ عالمی کاری اور کثیرالثقافت کونشانہ بنایاجاتاہے۔
رپورٹ میں حکومتی پالیسی میں تبدیلی کی تجویزدی گئی ہے تاکہ انتہاپسندی کی روک تھام کیلئے زیادہ جامع اورمثرحکمت عملی اپنائی جا سکے۔ حکومت کامؤقف ہے کہ انتہاپسندی کی نشاندہی ”صرف مخصوص آئیڈیالوجیز”پرنہیں بلکہ”رویوں”اور”عملوں”کی بنیادپرکی جانی چاہیے۔ اس سے مرادیہ ہے کہ معاشرتی سطح پرموجودتشویش کے ذرائع کونظراندازنہ کیا جائے۔رپورٹ میں ایک اوراہم تجویز پیش کی گئی ہے جس کے تحت”نیشنل سینٹرآف ایکسیلنس”قائم کرنے کی ضرورت پرزوردیاگیاہے،جس کامقصد احتجاج اورکم سطح کی انتہا پسندی کی سرگرمیوں کی نگرانی اوران کاتدارک کرناہوگا۔اس تجویزمیں حکام کو”احتجاج اورکم سطح کی انتہاپسندی کی تحقیقات کیلئے ایک مرکزی تحقیقاتی مرکز”قائم کرنے کی ضرورت پرزوردیاگیاہے تاکہ مختلف نوعیت کی انتہا پسندی کی سرگرمیوں کوجلدازجلدروکاجاسکے۔
مجموعی طورپر،یہ رپورٹ برطانیہ میں انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے خطرات کی نشاندہی کرتی ہے اوران نئے ذرائع کی جانب توجہ دلاتی ہے جومعاشرتی استحکام کونقصان پہنچاسکتے ہیں ۔نسوانی دشمنی،ہندوقوم پرستی اورمینوسفیئرجیسے عوامل برطانیہ کے معاشرتی تانے بانے کو متاثر کر رہے ہیں اورانتہاپسندی کے نئے راستے کھول رہے ہیں۔حکومتی سطح پرپالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ان مسائل پرمؤثرطریقے سے قابوپایاجاسکے اورمعاشرتی ہم آہنگی کوفروغ دیاجاسکے۔دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کادعوی کرنے والے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہونے والے حملے ایک سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔بی جے پی کی ہندوقوم پرست حکومت کے تحت اقلیتوں کومسلسل دباؤ اور تشدد کاسامناہے۔ مسلمانوں، سکھوں،عیسائیوں اور دیگراقلیتوں کونہ صرف سماجی اوراقتصادی سطح پرامتیازی سلوک کاسامناکرناپڑابلکہ ان پر متعدد منظم حملے اب بھی جاری ہیں۔
اس تحقیقی تجزیے میں بھارت میں مذہبی جنونیت اورانتہا پسندی کی تاریخ ایک دردناک حقیقت ہے،جس میں اقلیتی گروپوں کو مسلسل تشدداورمظالم کاسامناکرناپڑرہاہے۔گجرات کے فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام،کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی،بابری مسجدکی منہدمی، کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں،اورسکھوں کے خلاف آپریشن بلیواسٹارمیں سکھوں کی نسل کشی جیسے واقعات بھارت کی مذہبی جنونیت کی تاریخ کوعیاں کرتے ہیں۔ ان تمام واقعات کے پیچھے مذہبی انتہاپسندی کی سوچ کارفرماہے،جونہ صرف بھارت میں اقلیتی برادریوں کونشانہ بناتی ہے بلکہ عالمی سطح پربھی بھارت کی تصویرکومتاثرکرتی ہے۔بھارتی حکومت کی جانب سے ان مسائل کو نظرانداز کرنا اور ان کے خلاف مؤثرکاروائی نہ کرنا اس بات کاغمازہے کہ بھارت میں مذہبی جنونیت ایک سنگین مسئلہ بن چکاہے جس کے حل کیلئے عالمی برادری کوبھی مزیدفعال کرداراداکرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت میں مذہبی جنونیت اورانتہاپسندی نے کئی دہائیوں سے مختلف اقلیتی برادریوں کوشدیدمتاثرکیاہے۔خاص طورپرمسلمانوں، عیسائیوں اورسکھوں کومذہبی شدت پسندی کانشانہ بنایاگیاہے،جس کااثربھارت کی داخلی سیاست اورعالمی شہرت پربھی پڑاہے۔ گجرات کے فسادات،کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی،اوردیگربڑے فسادات بھارت میں مذہبی جنونیت کی ایک افسوسناک تاریخ کوپیش کرتے ہیں۔
بھارت میں ہندوقوم پرستوں کی جانب سے بابری مسجدکو1992میں منہدم کیاگیا،جس کامقصدمسلمانوں کی مذہبی شناخت کومٹانااور ایک”ہندوراشٹر”کے خواب کوحقیقت بناناتھا ۔اس عمل میں ہزاروں مسلمانوں کوقتل کیاگیااورمسلمانوں کی مقدس عبادت گاہ کوتباہ کر دیا گیا۔ اس کے بعدبھارتی حکومت کی جانب سے مزیدایک ہزارمساجدکوگرانے اوروہاں ہندومندربنانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے خلاف ہیں بلکہ بھارت کے مذہبی ہم آہنگی کے اصولوں کوبھی چیلنج کرتے ہیں ۔ بھارتی حکومت کی طرف سے ان اقدامات کی حمایت نے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اورمسلم کمیونٹی کے خلاف شدیدنفرت کو ہوادی ہے۔
گجرات کے2002کے فسادات کوبھارت کے سب سے بدنام مسلم کش فسادات کے طورپرجاناجاتاہے۔ان فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کاایک منظم منصوبہ بندی کے تحت بے رحمی سے قتل عام کیاگیا،ان کی جائیدادوں کوآگ لگادی گئی،اوران کے مکانات اور کاروبار کوتباہ کردیاگیا۔یہ فسادات نہ صرف بھارت کے مسلمانوں کیلئے ایک شدیدانسانی المیہ بنے بلکہ دنیابھرمیں بھارت کے مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے اقلیتی گروپوں پرظلم وستم کوبے نقاب کیا۔اوراس وقت کے وزیراعلی نریندرمودی پرالزامات عائدکیے گئے کہ انہوں نے ہندوشدت پسندوں کوکھلی چھوٹ دی جس کی انہوں نے آج تک تردیدنہیں کی۔فسادات میں مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف جسمانی تشدد کیاگیا،بلکہ ان کی نسلی ومذہبی شناخت کوبھی نشانہ بنایاگیا۔عورتوں کی اجتماعی عصمت دری،بچوں کاقتل اورمسلمانوں کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں۔ان فسادات میں بھارتی حکومت کی غفلت اورسیاسی قیادت کی جانب سے شدت پسندی کی پشت پناہی نے اس المیہ کومزیدبڑھادیا ۔
18فروری2007کوسمجھوتہ ایکسپریس،جوبھارت اورپاکستان کے درمیان چلنے والی امن ٹرین تھی،کوایک منظم سازش کے تحت بم دھماکوں کے ذریعے جلادیاگیا۔اس واقعے میں 68افرادہلاک ہوئے،جن میں زیادہ ترپاکستانی شہری تھے۔بھارتی فوج کے کرنل پروہت اور دیگرہندوانتہاپسندوں پراس حملے کاالزام عائدکیاگیا۔کرنل پروہت کوگرفتارکیاگیا اور اس نے اعتراف جرم بھی کیالیکن نہ صرف بھارتی حکومت نے قوم پرست تنظیموں کے دباؤمیں آکراسے بری کردیابلکہ کرنل پروہت اوراس کے ساتھیوں کوانتہائی مشکل حالات میں تحقیق کرنے کے بعدجس پولیس افسرنے ان کوگرفتارکیاتھا،اس کوبھی ایک سازش کے تحت ممبئی میں ہونے والے ایک حملے کے دوران اسے پیچھے سے گولی مارکرریاست کی پولیس کوواضح پیغام دیاگیاکہ آئندہ ان کی جماعت کے کسی بھی فردکوگرفتارکرنے کی کیاسزاہوسکتی ہے۔اس واقعے نے بھارت میں ہندوانتہاپسندی اورریاستی اداروں کے تعلقات کوبے نقاب کردیاہے۔
کشمیرمیں ہونے والی ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کبھی نہیں کی گئیں،اوربھارتی حکومت نے ان واقعات پر پردہ ڈالنے کی پوری کوشش کی۔یہاں تک کہ بھارتی حکومت نے کشمیری مسلمانوں کے بنیادی حقوق اورآزادی کی آوازکودبایااور ان کی آواز کو عالمی سطح پربے اثرکردیا۔کشمیرمیں گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی فورسزکی جانب سے مسلمانوں کے خلاف شدید ظلم وستم جاری ہے اوربھارتی حکومت پرکشمیرمیں بڑے پیمانے پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔1989سے لے کراب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہیدکیے جاچکے ہیں،ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی اورہزاروں نوجوانوں کو گرفتارکرکے غیرقانونی طریقے سے قتل کر دیا گیا۔جس میں ماورائے عدالت قتل،لاپتہ افراد،اوراجتماعی قبروں کاانکشاف شامل ہے۔ ایک امریکی ہندواسکالرخاتون نے کشمیرمیں درجنوں اجتماعی قبروں کاانکشاف کرتے ہوئے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ذریعے کشمیر میں جابرانہ پالیسیاں اور مظالم روز بروز بڑھ رہے ہیں، درجنوں مرتبہ عالمی انسانی حقوق تنظیموں نے شواہدکے ساتھ ان تمام مظالم کورپورٹ کیاہے لیکن انسانی حقوق کی چیمپئن ہونے کادعویدارامریکااوراس کے اتحادی محض اس لئے خاموش ہیں کہ وہ انڈیاکو”کواڈ”اتحادکے ذریعے چین کے محاصرے کیلئے استعمال کرناچاہتے ہیں اور مودی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقلیتوں کی نسل کشی کرنے والی اپنی جماعت بی جے پی کے ان مظالم پرنہ صرف خاموش ہے بلکہ اس خاموشی کی آڑمیں حکومتی ادارے بھی ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی سے خوفزدہ ہیں۔
گجرات کے فسادات کے بعدخاص طورپرمودی حکومت کے دوران بھارت میں عیسائی برادری کوبھی حملوں کاسامناکرناپڑرہاہے، کئی چرچ نذرِآتش کیے گئے،ننزکوزیادتی کانشانہ بنایاگیا،اور پادریوں کوزندہ جلادیاگیا۔2008میں اڑیسہ میں ہونے والے فسادات میں مزیدکئی
عیسائیوں کوہلاک کردیاگیااوران کے گھرتباہ کردئیے گئے۔مذہبی شدت پسندی کایہ پہلوظاہرکرتاہے کہ بھارت میں اقلیتی مذہبوں کے خلاف تشدد ایک وسیع پیمانے پرپھیل چکاہے،جونہ صرف مسلمانوں تک محدودہے بلکہ عیسائی برادری بھی اس کاشکارہے۔یہ سلسلہ اب بھی گاہے بگاہے جاری ہے لیکن مودی پریس ان خبروں کوشائع نہیں ہونے دیتااورنہ ہی مودی حکومت کسی بھی بیرونی پریس کے نامہ نگاروں کووہاں جانے کی اجازت دیتا ہے۔اگرکوئی کسی طرح بھیس بدل کروہاں پہنچ جائے تووہاں بی جے پی کے لوگ ان کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
مذہبی جنونیت کی ایک اورشکل بھارت میں جبرامذہب تبدیلی کی کوششوں کی صورت میں ظاہرہوئی ہے۔عیسائیوں اورمسلمانوں کو جبراً ہندو بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں،جس میں ان اقلیتی گروپوں کواپنے مذہب سے دستبردارہونے اورہندومذہب اختیارکرنے کیلئے دباؤ ڈالاجارہاہے۔یہ عمل نہ صرف بھارت کے آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ مذہبی آزادی اورانسانی حقوق کی بنیادی اقدار کے بھی منافی ہے۔بھارتی حکومتی اداروں کی جانب سے ان واقعات کی کوئی مثر تحقیقات اورانصاف فراہم کرنے کی بجائے،ان واقعات کو دبایا گیا اور ان حملوں کے پس پردہ نظریات کی حوصلہ افزائی کی گئی،جس کے نتیجے میں مذہبی جنونیت میں اضافہ ہوا اوراقلیتی گروپوں میں خوف وہراس کی فضا قائم ہوئی۔
بھارت میں سکھوں کی تاریخ بھی مذہبی جنونیت سے متاثرہے،خاص طورپر1984میں بھارتی حکومت نے آپریشن بلیواسٹارکے تحت سکھوں کی مقدس عبادت گاہ دربارصاحب امرتسرپرحملہ کرکے نہ صرف اس مذہبی عبات گاہ کوبری طرح بمباری کرکے نقصان پہنچایا گیا بلکہ ہزاروں سکھوں سمیت سکھوں کے روحانی لیڈ”ربھنڈراانوالا”کوبھی قتل کردیا گیا ۔ اس کے بعد سکھوں کے خلاف ملک بھر میں فسادات بھڑکائے گئے جن میں دہلی اوردیگرشہروں میں ہزاروں سکھوں کوقتل کردیاگیا۔سکھوں کے خلاف کیے گئے قتل عام کے دوران یہ واقعہ اس بات کی غمازی کرتاہے کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کونشانہ بناناایک معمول بن چکاہے۔دو لاکھ سکھوں کوبے دردی سے قتل کیاگیااوران پر تشدد کی انتہاکردی گئی،صرف اس لیے کہ انہوں نے اپنے حقوق کامطالبہ کیاتھا اور عالمی سطح پر علیحدہ ریاست کے حق کادفاع کیاتھا۔بھارتی حکومت نے اس قتل عام کے بعدبھی کوئی مؤثراقدامات نہیں کیے اور ان مظالم کی تفتیش کودبادیاگیا۔
موجودہ بی جے پی حکومت کے جبرکے خلاف بھارت میں کئی علیحدگی پسندتحریکیں سرگرم ہیں،جن میں خالصتان تحریک،ناگا لینڈ،آسام کی علیحدگی اور تمل ناڈو کی آزادی کی تحریکیں شامل ہیں۔ان کودبانے کیلئے بھارتی حکومت طاقت کابے دریغ استعمال کر رہی ہے۔گزشتہ چند برسوں میں بھارت بیرون ملک اپنے سیاسی حریفوں کوقتل کرانے کی جرائم کا ارتکاب بھی کررہاہے۔حالیہ مثال کینیڈا میں سکھ لیڈر ہردیپ سنگھ نجرکے قتل کی ہے،جس پرکینیڈاکی حکومت نے بھارتی خفیہ ایجنسی”را”پرالزام عائدکرتے ہوئے ثبوتوں کے ساتھ بھارت سے جواب طلب کیاہے۔اسی طرح امریکہ میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کی سازشیں بے نقاب ہوچکی ہیں، جس پرامریکی حکومت نے بھارت کو سخت وارننگ جاری کی ہے۔
بھارت پرالزام ہے کہ وہ کرائے کے قاتلوں کوپاکستان میں بھی دہشتگردانہ کاروائیوں کیلئے استعمال کرتاہے۔بھارتی جاسوس کلبھوشن
یادیوکی گرفتاری اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ بھارت،پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ جب قصرسفید کے فرعون کے احکام پرپاکستان کافاسق کمانڈومشرف امریکاکومکمل اعانت فراہم کررہا تھا،اسی وقت امریکا ایک خاص سازش کے تحت افغانستان میں انڈیاکوپاکستان میں دہشتگردی کیلئے ہرقسم کی اعانت فراہم کررہاتھاجوآج بھی جاری ہے۔
بھارت میں اقلیتوں پرہونے والے حملے اورانسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں عالمی برادری کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔گجرات، سکھ نسل کشی، عیسائیوں پرحملے،کشمیرمیں بربریت،اور بیرون ملک کینیڈا،امریکااورپاکستان میں دہشت گردی جیسے معاملات سے یہ واضح ہوتاہے کہ جہاں بھارت میں اقلیتوں کیلئے حالات نہایت خطرناک ہوچکے ہیں اورانسانیت دم توڑ رہی ہے وہاں بیرونِ ملک بھارتی دہشتگردی کے نتیجے میں دنیاکبھی بھی مکمل تاریک ہونے کے خطرے سے دوچارہوسکتی ہے۔اب یہ اقوامِ عالم کے ان باشعورافرادکی ذمہ داری ہے کہ اس خوبصورت دنیاکوبچانے اوراپنی آئندہ آنے والی نسلوں کوایک خوشحال اورمصائب سے پاک دنیادینے کیلئے اپنافرض ادا کریں۔آخر میں اپنے آقا رسول اکرم ۖ کے ارشاد گرامی پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
اپنے بھائی کی مددکروخواہ وہ ظالم ہویامظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا،یارسول اللہۖ!ہم مظلوم کی تومدد کرسکتے ہیں لیکن ظالم کی مددکس طرح کریں؟ آپ ۖنے فرمایاکہ ظلم سے اس کاہاتھ پکڑلو(یہی اس کی مددہے)۔


متعلقہ خبریں


مضامین
رام مندر سے کمبھ میلے تک:کتنی بار کتنی ہار وجود جمعرات 06 فروری 2025
رام مندر سے کمبھ میلے تک:کتنی بار کتنی ہار

بھارت میں جنونی مذہبی ایجنڈااوراس کا عالمی اثر وجود جمعرات 06 فروری 2025
بھارت میں جنونی مذہبی ایجنڈااوراس کا عالمی اثر

کشمیر بنے گا پاکستان وجود بدھ 05 فروری 2025
کشمیر بنے گا پاکستان

5 فروری، کشمیریوں کی حمایت کا دن وجود بدھ 05 فروری 2025
5 فروری، کشمیریوں کی حمایت کا دن

تجارتی جنگ اورچین وجود بدھ 05 فروری 2025
تجارتی جنگ اورچین

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر