... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چہروں سے نقاب اترتے جارہے ہیں ، میڈیا کے خلاف ایک مضحکہ خیزپیکا ایکٹ کی منظوری شہر شہر احتجاج کا سلسلہ کیا سول آمریت کے خلاف جدو جہد کے ایک نئے اور فیصلہ کن مر حلے کا آغاز ہے ۔ کیا آزادی صحافت کے تصور کا وہ دعویٰ دم توڑ چکا جس کا شور جمہوریت کی دعویدار سیاسی قوتوں کی ابتدائی بنیادوں سے اٹھتا رہا اور الیکٹرانک میڈیا پر ملک کے طول و عر ض کی سماعت سے تسلسل کے ساتھ ٹکراتا رہا ؟ کیا قومی اسمبلی اور سینیٹ کے فورم سے صحافت کے خلاف پاس ہونے والے ایکٹ کو ناکام خواہش قرار دینا مناسب نہیں ہوگا ؟
ہمیں یاد ہے کہ عالمی یوم صحافت پر سابق جنرل سیکریٹری اقوام متحدہ کوفی عنان نے یہ ریمارکس دیے کہ آزادی صحافت صحافی کا وہ حق ہے جس کے لیے لڑا جانا چا ہیے ۔آزادی صحافت انسانی حقوق کا بنیادی عنصر ہے، یہ وہ شے نہیں جو صرف خواہش کرنے سے مل جائے۔ صحافیوں کا کردار ان حکمرانوں کو شرم دلاتا ہے جو قابل اعتراض پالیسیاں بناتے ہیں۔ ایوب دور آمریت میں بھی پریس کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مفتوح صحافت کی ضرورت ایوب خان کو بھی محسوس ہوئی جس نے صحافت کی آزادی کا دائرہ تنگ کرنے کے لیے پی پی او کے نام سے 8ستمبر 1963ء کو کالے قانون کا نفاذ کیا ۔
وقت کے آمر نے اس کالے قانون کے تحت پریس کو پابہ زنجیر کرنے کے لیے انگریز حکمرانوں کو بھی مات دے دی۔جوکام فرنگی نے نہ کیا وہ کام ایک آمر نے انجام دے کر صحافت کو قریب المرگ کرنے کی ناکام کاوش کی ۔صحافتی تنظیموں نے جس طرح آج اس غیر اخلاقی اقدام کے خلاف آواز اُٹھائی ہے اس وقت بھی ملک کے دونوں بازوں کے کارکن صحافیوں نے اپنی تنظیموں پی ایف یوجے وسی پی این ای کے پلیٹ فارم سے اس قانون کو چیلنج کیا ۔ اور اپنی قرار دادوں میں اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ۔پی ایف یوجے کی اپیل پر ملک بھر میںبھر پور احتجاج دیکھنے کو ملا ۔یہ حقیقت ہے کہ ۔
There will be no Dawn tomorrow.
صحافیوں کے پرزور احتجاج نے ماضی میں بھی آمر وقت کے ارادوں کو متزلزل کردیا۔بالآخرآمریت کو سر نگوں ہونا پڑا۔جس کے ضمن میں 13ستمبر 1963ء کو لاہور اور ڈھاکہ کے گورنروں کی جانب سے پی پی او کے کالے آرڈیننس کے لیے ایک ماہ کے لیے عمل در آمد روک دیاگیا۔1968ء میں جب ایوبی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کا لاوا اُبلا تو مظاہروں کی کوریج کرنے میں قلمی مجاہد اور کیمرہ مین پیش پیش تھے۔آمریت کے خمار میں ڈوبے ہوئے آمر نے ریاستی پولیس کو مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے خلاف استعمال کیا۔
ایک آمر کے احکامات کی تکمیل میں قلمی مجاہدوں نے تشدد کی انتہا کردی گئی ۔صحافیوں کی اکثریت حکومتی ایجنسیوں اور تشدد کی وجہ سے اپنے اعضاء تڑوا بیٹھی ۔مگر آزادی صحافت کی تاریخ کا کارواں نہ رکا ،بالآخر ایک آمر کو مستعفی ہوکر قصرِ صدارت چھوڑنا پڑا۔مشرف آمریت نے بھی پیمرا آرڈیننس کے ذریعے پریس کی زبان بندی کے ذریعے صحافت کو جھکانا چا ہا ۔ جو ماضی کے آمرانہ ادوار کا تسلسل تھا ۔ مگر میڈیا اور وکلاء نے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر مشرف کو بھاگنے پر مجبورکردیا۔پنجاب اسمبلی میں پنجاب حکومت کے ہی ایک رکن اسمبلی کی طرف سے میڈیا کے خلاف منظور کی جانے والی قرار داد سول آمریت کی خواہش کا اظہار ہے ۔میاں شبہاز شریف کے دورمیں صحافت کو دبانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے ،قارئین کو ماضی یاد دلانا ضروری ہے جب یہی شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے ایک رکن صوبائی اسمبلی کی طرف سے صحافت کے خلاف ایک قرار داد لائی گئی اور تب پہلی بار یہ ضرب المثل اپنی حقیقی شکل میں نظر آئی کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے ۔میاں شہباز شریف کا کہناتھا کہ انہیں اس قرار داد کا علم ہی نہیں ۔پھر یہ کیسے ہوگیا کہ ان کے ہاتھ پر جس ن لیگ کے رکن اسمبلی نے وفاداری کی بیعت کی۔اُسی رکن اسمبلی نے ان کی موجودگی میں یہ قرار داد منظور کرائی۔اور جب اس قرار داد کا متن پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جارہا تھا ۔تو شہباز شریف چونکہ وہاں موجود تھے ،کیا انہوں نے کھڑے ہوکر اس کی مخالفت یا مذمت کی ؟مگرسانپ گزرنے کے بعد اس کی لکیر پیٹ کر میڈیا کے سامنے سچائی کا ڈرامہ کھیلا گیا ۔ڈیڑھ ماہ قبل ایک صحافی دوست نے کہا تھا کہ عوام یا میڈیا اگر موجودہ فرسودہ نظام کے خلاف اپنے اندر سے کوئی صالح قیادت چاہتے ہیں تو اُ س قیادت کو بھر پور اعتماددیا جائے۔کیونکہ میاں برادران آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی کسی طرح بھی قبولیت نہیں چاہیں گے، یہ بات آج سچ ہے کہ آج میڈیا صنعت کاروں کا آلہ کار ہے اور بڑے بڑے میڈیا ہائوسز پر وہ مافیا قابض ہے جس کا صحافت سے دور دور تک تعلق نظر نہیں آتا۔یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں موجودہ فرسودہ نظام اور اس کے محافظوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر یہ لے پالک میڈیا تبدیلی کی علامت بن کر سامنے آیا ہے جہاں اُ س نے حکمرانوں کے ہر جائز ناجائز اقدام پر تائیدی انداز میں کھڑا ہونے کا فرض نبھایا ۔اور اُسی حکمرانی کے ایک ہرکارے نے میڈیا کے خلاف ایک ایسے فورم پر یہ اقدام اُٹھایاجو عوام کے ووٹوں سے عوامی نمائندگی کی راہ ہموار کرتا ہے۔
اظہار و اشاعت کی آزادی انتہائی اور بنیادی نوعیت کی آزادیوں میں شامل ہے۔ یہ محض صحافتی آزادیاں نہیں بلکہ عوامی حق ہے جسے کسی بھی آمر کو چھیننے کا کوئی اختیار نہیں۔صحافیوں کو ہتھکڑیوں گرفتاریوں اور جیلوں سے ڈرانا اب ممکن نہیں رہا۔عوام کو با خبر رکھنے کی جس آواز کا گلا حکومتی ایوانوںشاہرات اور بازاروں میں گھسی پٹی اور مضحکہ خیز قرار دادوں مقدمات اور جیلوں میں لاٹھی گولی کے ذریعے گھونٹنے کی ناکام کاوشیں کی گئیںاُس آواز نے ہمیشہ مٹنے کی بجائے آمریت کے ایوانوں میں گھس کر ان کی رخصتی کو یقینی بنادیا۔لیگی حکومت کے ایک حکومتی رکن کی طرف سے میڈیا کے خلاف قرار داد کی منظوری مفتو ح صحافت کی ناکام خواہش کا تسلسل ہے۔یہ ابراہم لنکن کا دور نہیں ۔ یہ ابلاغیات کا دور ہے جس کی جدید تکنیک اور ضرورت نے ہر ایک سے اپنی طاقت تسلیم کرائی ۔ابلاغیات خصوصاً الیکٹرانک میڈیا نے نئے معاشی نظام کو متعارف کرایا ۔ مشرف کی رخصتی کے بعد سیاسی انقلاب کی راہ ہموار کی ۔ اور میاں برادران کی وطن واپسی ممکن ہوسکی۔یہ میڈیا ہی ہے جس نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک کوشعلے دیے، استعماری گرفت کو توڑا اور انقلابی شعور کے نئے جزیرے دریافت کیے۔