وجود

... loading ...

وجود

جامعہ اُردو اور گورنر سندھ

اتوار 02 فروری 2025 جامعہ اُردو اور گورنر سندھ

زریں اختر

جامعہ اُردو کا جلسۂ تقسیم اسناد ، اس کے ساتھ ‘سالانہ’ ضرور لکھا جاتا ہے کیوں کہ جامعات میں اس کا انعقاد ہر سال کیاجاتاہے لیکن جامعہ اُردو اس سے بوجوہ محروم رہی اس لیے لفظ ‘سالانہ ‘بھی اس کے لیے مرحوم ہوگیا۔ ٢٨ ِ جنوری ٢٠٢٥ء کو جب کہ اُردو کالج کو جامعہ کا درجہ ملے تقریباََ٢٣ برس ( ٢٠٠٢ء سے) ہوگئے ،یہ پانچ واں جلسہ تقسیم اسناد تھا ،مقام گورنر ہائوس ۔ اس میں ٢٠١٣ء سے ٢٠٢٢ء تک کے طالب علموں کو مدعو کیاگیاتھا،ماقبل ٢٠١٣ء میں ہوا تھا یعنی یہ لگ بھگ گیارہ سال بعد منعقد ہو سکا۔ وہ سرگرمی جو ہر سال ہوتی ہے دس دس سال بعد ہو تو تقریب کی تیاری اور ادارے کے حالات کی گھمبیر تا کا اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔
اس موقع پر گورنر سندھ کامران ٹیسوری، وفاقی وزیر ِ تعلیم خالد مقبول صدیقی اور شیخ الجامعہ ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کی تقاریر میںسے چنیدہ خیالات کو اس تحریر کے لیے منتخب کیاہے ۔
شیخ الجامعہ نے تمام علاقائی زبانوں کو گلدستے سے تشبیہ دی ، وفاقی وزیر تعلیم نے قوموں کی ترقی کا راز قومی زبان کو قرار دیااور گورنر سندھ کے نزدیک جامعہ اُردو کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ لفظ ہی ”اُردو ” ہے۔”زبان ” مختلف سمتو ں میں انتہائی وقیع مباحث رکھتی ہے ۔ شیخ الجامعہ کے خیالات تقریب کی مناسبت سے نہایت موزوں تھے ۔ یہ کسی اردو لغت کے مقدمے یادیباچے میں پڑھا تھا جس میں علاقائی زبانوں کو گل دستے سے تشبیہ دی گئی تھی ۔
اُردو زبان کسی صوبے کی نہیں لیکن یہ تمام صوبوں میں اس سرزمین سے نمو پانے والی واحدرابطے کی زبان کا شرف رکھتی ہے ۔ پہلے انگریزی کے حاوی ہونے کی وجہ اس کا آقائوں کی زبان ہونا تھا، پھر اشرافیہ کا اس کو سرکاری زبان کا درجہ دینا او راب عوامی سطح پر اس کی جو حیثیت تسلیم شدہ ہے وہ اس کا جدید علوم کی زبان ہوناہے۔ لوگوں کو کسی زبان سے بیر کیوں کر ہوسکتاہے؟،اور اگر ہوتاہے تو نفرت کی فصل عوام ہی کاٹتے ہیں جواب سمجھ چکے ہیں کہ اس کا بیج کو ن بوتاہے ۔ میں دہرائوں گی کہ اس موقع پر شیخ الجامعہ کی تقریر ان کے منصب کی پاسدار تھی۔
وفاقی وزیر تعلیم اب تک قومی زبان کے مغالطۂ عظیم میں مبتلا ہیں۔
ایک طرف مادری زبان کی اہمیت سائنسی بنیادوں پر صدیوں کی تسلیم شدہ، ابتدا میں مادری زبان میں تعلیم بچے کی ذہنی پرداخت میں جو کردار ادا کرتی ہے وہ اس میں تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتاہے۔دوسری طرف علاقائی زبان و ثقافت ایک بڑی سچائی کی تشکیل کرتی ہیں جس کانام ہے ”شناخت ” ۔ تمام علاقائی زبانیں قومی زبان کہلائے جانے کا زمینی، پیدائشی ، ازلی اور آفاقی حق رکھتی ہیں ۔ یہ کسی سیاسی وژن اظہار نہیں تھاکہ ڈھاکہ میں واحد قومی زبان” اُرڈو اُرڈواور اُرڈو ”کا راگ الاپا جاتا، نتیجہ توعوام نے ہی بھگتناتھا۔ اگر سیاست دانوں نے انگریزوں کے فارمولے ”لڑائو اور حکومت کرو” پر عمل نہیں کرنا تو اس آئینی ترمیم میں کیا دیر ہے ”کہ اس سرزمین پر بولی جانے والی ہر زبان قومی زبان کا درجہ رکھتی ہے ”،کیوں کہ ابھی زبان پر بات ہو رہی ہے اس لیے کوئی اور ذکر نہیںیابس اتنا کہ زبان اور مذہب کو سیاسی ہتھیار بنانا آخر کب تک؟
گورنر سندھ کی اس تقریب میں کی گئی زبانی تقریر نے کہ انہوں نے لکھی ہوئی تقریر یہ کہہ کر واپس کردی کہ وہ دل کی باتیں کرنا چاہتے ہیں ، ان کے دل کی باتوں کے کچھ ٹکڑے میڈیا پر خوب خوب چلائے گئے ۔ جس کے متعلق اساتذہ کا خیال ہے کہ میڈیا ایسی ہی باتوں کو اچھالتا ہے جو متنازعہ یاتفریحی ہو کیوں کہ صحافیوں کو بھی اپنا دال دلیا چلانا ہوتا ہے ۔ میڈیا کے کردار سے متعلق اساتذہ کی رائے اس درجے کی نہیں ہونی چاہیے تھی جو لگے کہ یا تو غفلت پر مبنی ہے یا وہ اپنی دنیا میں مگن ہیںاوریا اپنے مفادات کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں اور ایسا میں اس لیے ہرگز نہیں کہہ رہی کہ میں میڈیا کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ آپ کسی اخبار کی شہ سرخی پڑھیں اور پھر تفصیل ، صحافی نا صرف بڑی باریک بینی سے حقائق کا جائزہ لینے کی قابلیت رکھتا ہے بلکہ بڑی باریکی سے انہیں بیان کرنے کی صلاحیت بھی رکھتاہے ۔ گورنر جو مرکزکا نمائندہ ہوتاہے ، اصولی طور پر کسی سیاسی جماعت سے وابستگی اپنی اس حیثیت میں نہیں رکھ سکتا، وہ کسی خاص موقع پر جو کہے گا تو بات یہ نہیں کہ وہ متنازع یا تفریحی تھا بلکہ وہ ادارے کااحوال تھا جو گورنر کی زبان سے بیان ہورہاتھا۔حیرت انگیز طور پر کچھ اساتذہ نے اس خیال کا اظہار بھی کیا کہ یہ باتیں سامنے آئیں کیسے ؟ کیا ادارے کا میک اپ اور لوگوں کی بے خبری ممکن ہے ؟جلد یا بدیر حقائق کا پردہ چاک ہو کے رہتا ہے ۔ گورنر کسی ادارے کی صورت حال بتارہا ہے تو میڈیا کیوں نہیں دکھائے گا؟ میڈیا نے اپنا کام کیا ۔ہم اگر وہ کام کریں جو ہمارے کرنے کے ہیں تو گورنر بھی وہی بتائے گا اور پھر میڈیا بھی وہی بتارہا ہوگا۔ میڈیا سے محض شکایت یا صحافیوں کو بیچارہ سمجھناکہ انہیں اپنے دال دلیا کے لیے یہ سب کرنا پڑتا ہے ، میک اپ کی ایک دوسری شکل ہے۔
مجھے جامعہ اردو سے متعلق گورنر صاحب کی تقریر کے کچھ حصوں کو نمایاں کرنے پر میڈیا سے کوئی گلہ نہیں ۔گورنر صاحب نے اگرچہ اپنے دل کی باتیں کیں ، لیکن ان باتوں کو خالی از فراست کوئی نہیں لے گااور کیوں کہ اس میں سیاسی سوچ کی آمیز ش تھی تو اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ مرکز کے نمائندہ تھے ۔ انہوں نے اپنی اس حیثیت کو فراموش کیا ، جس پر سوال اٹھ سکتا ہے اور اٹھنا چاہیے ، اور اس پر ان سے وضاحت بھی طلب کی جاسکتی ہے اور یہ سب راہیں میڈیانے ہی نے ہموار کی ہیں۔ عبدالحق کیمپس یا گلشن کیمپس کی کہیں چھت کے حصے گرنے کی خبریں گورنر صاحب کے کانوں تک پہنچی ہوں گی ، پہنچنی بھی چاہئیں تو انہوں نے جامعہ کو کھنڈر قرار دے دیا۔
قیام ِ پاکستان کے وقت مذہب اسلام اوراُردو زبان دونوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیاتھا ، اب اسلام کی ضرورت ہے اردو کی نہیں ، گورنر صاحب نے ایوان ِ بالا میں اردو سے متعلق ایسے ہی خیالات کی باز گشت سنی ہوگی ،انہوں نے بتادیا کہ اس جامعہ کے ساتھ ٹکا لفظ” اردو” اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ارباب اقتدار کو اب اس سے قطعی کوئی دل چسپی نہیںاور نہ اس کے نام پر قائم جامعہ سے ۔ انجمن ِ ترقی اُردو کا معاملہ اس سے کتنا مختلف اور کتنا منسلک ہے ؟معلوم نہیں۔
پیپلز پارٹی کا مشہور نعرہ روٹی ، کپڑا اور مکان۔۔۔گورنر صاحب نے بھی جامعہ میں جس کی حالت ِزار کو قابل ذکر جانا وہ لائبریری، ڈیجیٹل لائبریری، شعبہ تصنیف و تالیف کا فعال کردار ،طالب علموں کے لیے پوائنٹ بسوں کی سہولت یا تحقیقی صورتِ حال نہیں بلکہ کینٹین اور واش روم تھے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے! وجود اتوار 20 اپریل 2025
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے!

یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال وجود اتوار 20 اپریل 2025
یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال

تارکین وطن کااجتماع اور امکانات وجود اتوار 20 اپریل 2025
تارکین وطن کااجتماع اور امکانات

تہور رانا کی حوالگی:سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب وجود اتوار 20 اپریل 2025
تہور رانا کی حوالگی:سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب

مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں! وجود هفته 19 اپریل 2025
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر