وجود

... loading ...

وجود

کشمیری طلباء تعلیم سے محروم

بدھ 29 جنوری 2025 کشمیری طلباء تعلیم سے محروم

ریاض احمدچودھری

کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے عالمی یوم تعلیم کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے کشمیری طلبا کو ان کے تعلیم کے حصول کے حق سے محروم کر دیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی قابض فوجیوں کی تعیناتی نے طلبا ء کی تعلیم کو بری طرح متاثر کیا ہے۔رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیاگیاہے کہ غیر قانونی بھارتی قبضے کے تحت مقبوضہ علاقے میں نظام تعلیم مکمل طوپر مفلوج ہوگیا ہے۔ مودی حکومت کی طرف سے 5اگست 2019کو جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے جاری فوجی محاصرے کی وجہ سے مقبوضہ علاقے میں تعلیم کا بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں محاصرے اور تلاشی کی جاری کارروائیوں، چھاپوں اور پابندیوں کی وجہ سے کشمیری طلبا کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ بھارت کی طرف سے انٹرنیٹ کی باقاعدہ بندش سے بھی مقبوضہ علاقے میں طلباء تعلیم بڑی حد تک متاثر ہو رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیری طلبا کو بھارتی فورسز کی طرف سے روزانہ ہراساں اور ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے کشمیری طلباء تعلیم کے حصول پر توجہ مرکوز نہیں کر پارہے ہیں۔ بھارت میں زیر تعلیم کشمیری طلبا کو بھی ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے ہراساں ،ظلم و تشدداورامتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جارہاہے۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال ہندوستان میں انسانی حقوق کے سب سے شدید بحرانوں میں سے ایک کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ خطہ طویل عرصے سے سیاسی ، نسلی اور مذہبی تناؤ کا مرکز رہا ہے ، جس میں ہندوستانی سیکورٹی فورسز نے متعدد مظالم کا ارتکاب کیا ، جس کے نتیجے ایک بڑا انسانی بحران اور المیہ سامنے آیا ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں ، اقوام متحدہ اور آزاد مبصرین نے خطے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی بدسلوکیوں کو دستاویزی شکل دی ہے ، جن میں ماورائے عدالت قتل ، جبری گمشدگیاں ، من مانی گرفتاریاں اور تشدد شامل ہیں۔ 1980 کی دہائی کے اواخر سے مقبوضہ کشمیر شورش کا مرکز رہا ہے ، جہاں مقامی لوگ خود ارادیت اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ہندوستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل مسترد کیا ہے جن میں کشمیریوں کے اپنے مستقبل کا تعین کرنے کے حق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ہندوستانی حکومت نے خطے کو دبانے کے لیے کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف بڑی تعداد میں حفاظتی دستے تعینات کیے ہیں۔ اگست 2019 میں ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد صورتحال ڈرامائی طور پر خراب ہو گئی ، جس نے خطے کو خصوصی خود مختاری دی تھی۔ اس اقدام نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو تیز کر دیا اور کشمیری آبادی میں غصے کو جنم دیا ہے۔
1990 کی دہائی میں سوپور قصبے میں قتل عام ، جہاں سیکورٹی فورسز کی اندھا دھند فائرنگ سے متعدد شہریوں کی ہلاکت سے لیکر اب تک پورامقبوضہ کشمیر جیل خانہ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ 2016 کے برہان وانی مظاہروں جیسے واقعات ، جو ہندوستانی افواج کے ہاتھوں ایک ممتاز حریت رہنما کی شہادت سے شروع ہوئے ،اب تک کئی ہزار شہریوں کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کا ایک اور سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی کارکنوں ، عسکریت پسندوں اور عام شہریوں سمیت ہزاروں افراد کو ہندوستانی سیکورٹی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں زبردستی لاپتہ کر دیا ہے۔ یہ اغوا اکثر جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے ساتھ ہوتے ہیں جن کا مقصد اکثر اعتراف کروانا یا معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے۔
ہندوستان بھر میں کارکنوں ، طلباء ، صحافیوں اور سیاست دانوں سمیت ہزاروں افراد کو بغیر کسی الزام کے حراست میں لیا گیا ہے اور ایسا اکثر متنازع پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت کیا گیا جو دو سال تک بغیر مقدمے کی سماعت کے حراست کی اجازت دیتا ہے۔ اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ہندوستانی حکام نے سابق وزرائے اعلی اور حریت تنظیموں کے ارکان سمیت متعدد ممتاز سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا۔ ان میں سے بہت سے زیر حراست افراد کشمیر سے باہر قید ہیں اور اکثر اپنے خاندانوں سے دور رہنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے عدالت میں اپنی حراست کو چیلنج کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سب سے اہم خلاف ورزیوں میں سے ایک ، خاص طور پر آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے ، مواصلاتی بندشوں کا نفاذ رہا ہے۔ اگست 2019 میں منسوخی کے بعد ، ہندوستانی حکومت نے خطے میں سخت لاک ڈاؤن نافذ کیا ، جس میں انٹرنیٹ خدمات بند کرنا ، فون کنیکٹوٹی کو محدود کرنا اور میڈیا تک رسائی کو محدود کرنا شامل تھا۔ اس مواصلاتی بندش نے کشمیر کے لوگوں کو الگ تھلگ کر دیا اور صحافیوں ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی برادری کو زمینی صورتحال کے بارے میں درست معلومات حاصل کرنے سے روک دیا۔ صحافیوں کو انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کرنے پر ہراساں کرنے ، قید و بند اور سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا ہے اور میڈیا اور مواصلاتی چینلز کو دبائے جانے نے اظہار رائے کی آزادی کو تشویشناک حد تک محدود کر دیا ہے اور بدسلوکیوں کو دستاویزی شکل دینے میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمانوں کے خلاف مودی حکومت کی پالیسیاں وجود جمعه 31 جنوری 2025
مسلمانوں کے خلاف مودی حکومت کی پالیسیاں

مروان فلسطین کے نیلسن منڈیلا بن کر ابھریں گے! وجود جمعرات 30 جنوری 2025
مروان فلسطین کے نیلسن منڈیلا بن کر ابھریں گے!

کشمیری زہر ملاپانی پینے پر مجبور وجود جمعرات 30 جنوری 2025
کشمیری زہر ملاپانی پینے پر مجبور

پیکا قانون تحفظ یا عدم تحفظ وجود جمعرات 30 جنوری 2025
پیکا قانون تحفظ یا عدم تحفظ

یاد آتے ہیں ایک ایک سب وجود جمعرات 30 جنوری 2025
یاد آتے ہیں ایک ایک سب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر