... loading ...
زرین اختر
۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عرفان عزیز نے منہ دوسری طرف پھیر لیا جب میں نے پی ایچ ڈی کورس ورک کے ایک تفویضے (اسائمنٹ) کی پیش کش (پریزینٹیشن) جو سوال جواب کی طرح سے لی جارہی تھی ، طالب علم کے ”امَن” کہنے پر کہا کہ یہ ”امن”ہوتاہے ۔
یہ لفظ عام طور پر میم پر زبرکے ساتھ بولا جاتاہے جب کہ اس پر جزر ہے۔
ایک استاد جب طالب علم کے سامنے دوسرے استاد کی کسی بات پر ایسا تاثردے تو وہ بلاوجہ خجالت کا باعث بن جاتاہے ، طالب علم کو بھی یہ پیغام پہنچتا ہے کہ اس بات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا جائے اور اس صورت میں کہ منہ پھیرنے والے استاد ہی پریزینٹیشن اور وائیوا کی صدارت کررہے ہوں۔
بدن بولی ( باڈی لینگوئج) کا مطالعہ ۔۔۔یہ اس طرف توجہ دلاتا ہے جو کہا نہیں جارہاہوتا لیکن ہوتا ہے اور شخصیت کے مطالعے میں بنیادی کردار اداکرتاہے۔ روسی ناول ”ذلتوں کے اسیر” میں چہرے کے تاثرات پر وہ مرکزی کردار رکھنے والی لڑکی اتنا سوچتی ہے ، چہرے کے تاثرات کا اتنا بیان ہے اور یہ مصنف کا وہ اندازِ نظر ہے جو میرے مزاج سے میل کھاتا ہے۔ابھی ایک میٹنگ کے دوران میں نے دو افراد کے مسکراتے چہرے پر جو چمک دیکھی اس کی وجہ ان کے سفید چمکتے ہوئے ہوئے دانت ہی نہیں بلکہ وہ ذکر تھا جو ہورہا تھا یعنی ”فنڈز”۔
ڈاکٹر شمس الدّین فاروقی نے (غالباََ لغاتِ روزمرہ کے دیباچے میں) لکھا ہے کہ وہ اپنے گھر کے بچوں کا تلفظ ٹھیک کرتے ہیں، کیوں کہ درست زبان ایک تقاضاہے۔ ہم واٹس ایپ کے ایک گروپ پر املا کی تصحیح کردیا کرتے تھے اس کا مقصد ”زبا ن” تھا ۔ اب نہیں کرتی ، کیوں کہ لوگ اس کو کسی اور طرح سے لیتے ہیں، میں دست بہ دستہ کہناچاہتی ہوں کہ مجھے خود اُردو زبان بہت اچھی نہیں آتی، یہ انکسار نہیں اعتراف ہے۔
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے
ہمارے نو منتخب استاد ایاز صاحب سے ایم فل کورس ورک کے طالب علموں کی پریزینٹیشن لینے کے بعد گفتگو ہوئی۔ایاز صاحب نے طالب علموں کے غلط العام انگریزی الفاظ کا تلفظ درست کیا مثلاََ وومینز ( ہم نے اردو کا تلفظ درست کیا تھا جس پر منہ پھیر لیاگیاتھا) ۔ اسی طرح ایک سلائیڈ پر Reviews of the Thesisلکھاتھا، اس پر بھی ایاز صاحب نے توجہ مبذول کرائی کہ یہ ایک مقالے کے کئی ریویوزنہیں پیش کیے گئے بلکہ مقالات کے ریویوز ہیں لہٰذا لفظ تھیسس نہیں تھیسیز(Theses)آئے گا۔
دل چسپ بات یہ کہ انہوں نے جو غلطیاں درست کیں وہ وہ تھیں جو انہوں نے اپنے دورِ طالب علمی میں کی تھیں اور ان کے استاد نے درست کیں اور میں نے بھی وہ تلفظ ٹھیک کیا تھا’امن’ جو میرے استاد نے میرا ٹھیک کیاتھا۔
جوش ملیح آبادی کے نزدیک لفظ ”رہائش” غلط ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے افلاطون کی کتاب کا ترجمہ ”ریاست” کیا ،اس میںسقراط لفظ ”تجہیز و تکفین ” پر اعتراض کر تا ہے ۔ یہ دونوں الفاظ رائج الوقت ہوچکے ہیں ۔ یونانی زبان کی کتاب کا انگریزی ترجمہ کا اردو ترجمہ ،اس میں تجہیز و تکفین پر ہم تو رائے دینے کے اہل نہیں۔لفظ فوتیدگی اور فوتگی کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے، فوت ہوجانے یا وفات پا جانے میں البتہ کوئی قباحت نہیں۔
اس موضوع پر لکھنے کی انگیخت بی بی سی اُردو نیوز پر ریحان فضل کی ایک رپورٹ بعنوان”ایم ایف حسین نے ہندو دیویوں کو برہنہ پینٹ کیوں کیا؟ ” میں لکھا گیا یہ پارہ بنا: ”ایک مرتبہ روسی مصنف ولادی میر نوہوکوف نے ایک عظیم فنکار کی خصوصیات بتاتے ہوئے کہاتھا کہ وہ ایک ایسے آدمی کی طرح ہے جو مکان کی نویں منزل سے گرتا ہوا اچانک دوسری منزل کی ایک دکان کا بورڈ دیکھ کر سوچتا ہے ‘ارے ! اس کے تو ہجے غلط لکھے ہوئے ہیں’۔”وہ مصنف بھی روسی اور یہ مصنف بھی روسی۔
اقبال بانو کا ایک انٹرویو یاد آیا۔کیا سادگی تھی ان کے انداز میں ! بتارہی تھیں کہ ایک لڑکی نے غالب کا یہ مصرعہ ”قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں ”یوں پڑھا ”قید و حیات و بندو غم اصل میں دونوں ایک ہیں”، میں نے اس لڑکی سے کہا تم اس کو ایسے پڑھو ”قید و حیات و بند و غم اصل میں چاروں ایک ہیں”۔
لفظ کی ادائیگی یا تلفظ میں ایک کردار علاقائی و جغرافیائی ہے ۔ ڈاکٹر سیّد محی الدّین قادری زور اپنی کتاب ہندستانی لسانیات میں لکھتے ہیں کہ انگریزی لفظ ‘بس’کو سرد علاقے میں’بُس’ بولتے ہیں کیوں کہ اس طرح پھیپھڑوں میں ہوا کم جاتی ہے ۔
املا اور تلفظ کے ساتھ زبان کی ایک اور خصوصیت اور خوبی لہجہ ہے ۔ اردو زبان کے مقامی لہجے” گلابی لہجے او رگلابی اردو” بڑے میٹھے لگتے ہیں ۔اُردو کے معروف صحافی نادر شاہ عادل مرحوم جو بلوچ تھے ،انہوں نے اردو زبان میں درک حاصل کرنے کے لیے اردو کے مشہور صداکاروں کو سنا ، یہ انہوں نے روزنامہ دن میں ہوتے ہوئے بتایا تھا۔
فن کی اپنی نزاکتیں ، باریکیاں اور مطالبات ہیں۔ گلوکارہ ریشماںسادہ پیاری انسان ، بتاتی ہیں کہ جب ان سے اردو گائیکی کی فرمائش کی گئی تو انہوں نے کہاکہ مجھ سے پنجابی میں ہی گنوا لو ، اردو کے زیر زبر ٹوٹ گئے تو ۔۔۔ ان سے فیض احمد فیض مشہور نظم ‘اکثر شب تنہائی میں’ گنوائی گئی تو لفظ ‘شگفتہ’ ان کے لیے لوٹنا مشکل تھا ، انہوں نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے ، جواب ملا ‘پھول’ ،تو انہوں نے کہا کہ پھول ہی گنوا دو۔ پھر دوسری فرمائش یہ کہ نظم ساڑھی باندھ کر گائیں گی ، یہ ایک اور مشکل تھی ، یہ پورا واقعہ انہوں نے بڑوںمزوں سے سنایا اور سامعین نے بڑے قہقہوں کے ساتھ سنا۔پی ٹی وی کے اس پروگرام کی میزبانی کشور ناہید کررہی تھیں۔
دل کا کنول جو روز و شب
رہتا شگفتہ تھا سو اب
یہاں شگفتہ کے معنی پھول نہیں بلکہ کھِلا ہوا ہونا ہے ،میں باز نہیں آئوں گی۔
لہجے کے متعلق ایک اور مشہور واقعہ لتا منگیشکراور دلیپ کمار کا ہے ۔ لتا کے بقول موسیقار انل بشواس نے دلیپ کمار سے لتا کا تعارف کروایا ، ‘یوسف یہ ایک مراٹھی لڑکی ہے ۔ اس کا نام لتاہے، یہ بہت اچھا گاتی ہے۔ دلیپ کمار نے ایک عمومی جواب دے دیا کہ’اچھا مراٹھی لڑکی ہے، ان لوگوں کا اُردو تلفظ بہت خراب ہوتاہے ، ایسا لگتاہے جیسے ان کے لہجے سے دال بھات کی بو آتی ہے۔’ لتا کہتی ہیں یہ بات ان کے دل میں کھب گئی اور اس کے بعد انہوں نے محبوب نامی ایک مولوی سے اردو پڑھی۔ اس واقعے کی کچھ اور تفصیل بھی ہے کہ لتا نے دلیپ کمار کی بات دل میں رکھی اور نہ صرف رکھی بلکہ بدلہ بھی لیا اور ایسا بدلہ کہ دلیپ کمار جوگائیگی میں بھی کمالات دکھانا چاہ رہے تھے اپنا چراغ جلانے کی ہمت نہ کرسکے ۔
بات جن کے ذکر سے شروع ہوئی تھی ان ہی کے ذکر پر ختم کرتے ہیںکہ اُس انگریزی لفظ کے تلفظ کا کیا جو عرفان صاحب کے جامعہ کراچی کے دورِ طالب علمی میں انگریزی ادب کے اساتذہ نے ان کا درست کیاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔