... loading ...
آفتاب احمد خانزادہ
لیو ٹالسٹائی کا اقتباس، ”جھوٹ اور فریب سے کچھ بھی بہتر ہے”، انسانی رشتوں اور معاشرے میں ایمانداری کی طاقت اور ضرورت کی لازوال یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے۔ دھوکہ دہی اور جھوٹ اعتماد کو کمزور کرتے ہیں، وہ بنیاد جس پر رشتے، ادارے اور کمیونٹیز استوار ہوتے ہیں۔ جب جھوٹ موجود ہوتا ہے تو تحفظ اور باہمی افہام و تفہیم کا احساس ختم ہو جاتا ہے، جس سے افراتفری پھیل جاتی ہے۔ٹالسٹائی، اخلاقی وضاحت کے حامی، نے اپنے کاموں اور زندگی میں سچائی کی اندرونی قدر پر زور دیا۔ جھوٹ عارضی سکون یا ذمہ داری سے فرار کی پیشکش کر سکتا ہے، لیکن وہ ایک غیر پائیدار حقیقت پیدا کرتے ہیں جو اکثر گر جاتی ہے، درد اور الجھن لاتی ہے۔ دوسری طرف، سچائی، جب کہ بعض اوقات مشکل یا غیر آرام دہ ہوتی ہے، ترقی، احترام اور مستند روابط کو فروغ دیتی ہے۔ یہ مقابلہ کرنے اور برقرار رکھنے کے لئے ہمت کا تقاضا کرتا ہے، لیکن اس کے انعامات بہت دور رس ہیں۔
ہماری جدید دنیا میں، جہاں مختلف پلیٹ فارمز پر غلط معلومات اور دھوکہ دہی پھیلی ہوئی ہے، یہ اقتباس بڑی گہرائی سے گونجتا ہے۔ چاہے ذاتی تعلقات ہوں یا معاشرتی ڈھانچے میں، سچائی پر عمل پیرا ہونا ہمارے اجتماعی اخلاقی کمپاس کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ سالمیت کو اپنانے کی دعوت ہے، یہاں تک کہ جب سہولت یا خود کو محفوظ رکھنے کے لالچ کا سامنا ہو۔ٹالسٹائی کی حکمت ہمیں اپنے اعمال پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے، اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہم سچائی کی ثقافت میں حصہ ڈالتے ہیں یا جھوٹ کو دوام بخشتے ہیں۔ یہ ہمیں چیلنج کرتا ہے کہ ایمانداری کے طویل المدتی اثرات کو نہ صرف ایک اخلاقی ذمہ داری کے طور پر بلکہ ایک تبدیلی کی قوت کے طور پر سمجھیں۔ بالآخر، یہ اصول اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ سچائی پر مبنی زندگی ہی حقیقی تکمیل اور ہم آہنگی کی بنیاد ہے۔
چارلس ڈکنز نے ایک قیدی کے بارے میں لکھا ہے جو کہ کئی سال سے زندان میں قید تھا جب اس کی سزا کی مدت پوری ہوجاتی ہے تو اسے آزادی دے دی جاتی ہے اور اسے اس کے تنگ و تاریک کوٹھڑی سے نکال کر کھلی اور روشن فضامیں لا یاجاتا ہے وہ شخص چند لمحے ادھر ادھر دیکھتا ہے اور پھر تازہ تازہ حاصل ہونے والی آزادی اسے اتنی غیر آرام دہ محسوس ہونے لگتی ہے کہ و ہ کہتا ہے کہ اسے اس کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں واپس بھیج دیاجائے ۔ اس قید ی کے لیے آزادی اور کھلی دنیاکا تحفظ اور آرام و سکون عطا کر نے والی تبدیلی کو قبول کر نے سے زندان ، زنجیریں اور تاریکی زیادہ مانوس تھیں ۔ ہمارا بھی آج حال اس قیدی جیسا ہو ا ہے جنہیں اپنی وحشت میں ہی تسکین ملتی ہے۔ جنہیں اپنی بدحالی، بربادی غربت سے اس قدر لگائو ہوگیا ہے کہ وہ انہیں اپنے سے الگ کرنے پر تیار ہی نہیں ہوتے ہیں ۔ جنہیں عقل و شعور سے نفرت ہے سو چنے سے جنہیں چڑ ہے ۔
انسانی فطرت ہمیشہ تبدیلی کی مزاحمت کرتی ہے کیونکہ تبدیلی ہمیشہ تنائو کو جنم دیتی ہے ۔ انسان تبدیلی سے اس لیے بھی دور بھاگتا ہے کہ اسے اس میں نئے فیصلے کرناپڑتے ہیں ان نئے فیصلوں میںا سے اس بات کا شدت سے احساس ہو تا ہے کہ و ہ ماضی میں غلطی پر تھا، وہ اندھیروں میں بھٹکتا پھررہاتھا ۔ اس کے کیے گئے تمام سابقہ فیصلے غلط تھے ۔ وہ اس ندامت سے بچنے کے لیے اپنے آپ سے شرمندہ ہونے سے بچنے کے لیے وہ تبدیلی کے سامنے خود رکاوٹ بن جاتا ہے، و ہ تبدیلی کی ہر ممکن مزاحمت کرتاہے، ایسے تمام لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں جسے ”تجزئیے کا فالج ”کہاجاتاہے ۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ اپنے آپ سے کہتاہے کہ جب میں بڑا ہو ں گا تو یہ کروں گا وہ کروں گا اور خوشی حاصل کروں گا جب وہ بڑا ہوجاتاہے تو کہتا ہے جب میں کالج کی تعلیم مکمل کرلوں گا تب خوشی حاصل کروں گا ،جب وہ کالج کی تعلیم مکمل کرلیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ جب میں ملازمت پالوں گا تب خوشی حاصل کروں گا، جب وہ ملازمت پالیتا ہے تو کہتا ہے جب میں شادی کروں گا تو خو شی حاصل کروں گا، جب وہ شادی کرلیتا ہے تو کہتا ہے جب میرے بچے ہوں گے اور وہ اسکول کی تعلیم مکمل کریں گے تب میں خوشی حاصل کروں گا، جب بچے اسکول کی تعلیم مکمل کرلیتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میں ریٹا ئر ہوں گا تو خوشی حاصل کروں گا ،جب وہ ریٹا ئر ہو جاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ زندگی تو یوں ہی گزر گئی ہے ۔ دنیا کا سب سے افسوس ناک لفظ ” کا ش ” ہے ہمیں جتنی محبت اپنے آپ سے ہے اتنی ہی محبت لفظ کاش سے بھی ہے، اس سے واپس لپٹ جاتے ہیں ایک سو ئے شخص کو جگا نا بہت آسان ہے لیکن جاگتے ہوئے کو جگانا بہت مشکل ہے ۔ہم سب جاگ تو رہے ہیں لیکن جاگنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم اپنی موجودہ حالت کو بدلنا ہی نہیں چاہتے ہیں ۔ہم سب ماضی کے مزاروں کے مجاور بنے ہوئے ہیں اور مزار بھی ایسے جن میں نہ تو ہواآنے کا کوئی راستہ ہے اور نہ ہی روشنی آنے کا کوئی ذریعہ ہے ۔ ان مزاروں میں اتنے جالے نہیں ہیں جتنے کہ ہمارے ذہنوں میں ہیں ۔
سقراط باربار اس بات پر زور دیتا تھا کہ ” خود کو پہچائو ۔ خود شناسی کا مطلب یہ ہے کہ آپ سنجیدگی سے سوچیں کہ آپ کے اقدار اور معیار کیا ہیں، آپ کے اندرونی خیالات اور نظریات کیاہیں ،کن امور کو آپ ترجیح دیتے ہیں اور کن چیزوں کو آپ کی زندگی میں بہت فوقیت حاصل ہے ۔زندگی میں کیے گئے ہمارے تمام فیصلے اور انتخاب ہمارے قدروں پر مبنی ہوتے ہیں اور زندگی کی تمام خوشیوں ، دکھوں اور کیفیتوں کا سبب یہ بھی ہے کہ آپ کی اقدار پسند اور چاہت توکچھ اور ہے لیکن آپ اپناتے کسی دوسری چیز کو ہیں۔ انتخاب اور عمل کے اس تضاد کا یعنی نتیجہ ذہنی خلفشار ، انتشار اور پریشانیوں کی صورت میں برآمد ہوتاہے۔ حقیقی خوشی اور سکون صرف اسی ایک صورت میں ملتاہے کہ آپ کی قدروں اوراعمال و اطور میں ہم آہنگی اور یکسانیت ہو۔
قدیم ہندوستانی دانائوں کا کہنا تھا کہ ہم پر پہلی ذمہ داری ہمارے سماج کی ہوتی ہے پھر خاندان کی اور آخر میں ہماری اپنی ۔ جب یہ تربیت الٹ جاتی ہے تو سماج بتاہ ہوجاتا ہے سماجی ذمہ داری ہر شہری کا اخلاقی فریضہ ہوتی ہے ۔ذمہ داری اور آزادی کاچولی دامن کاساتھ ہوتا ہے۔ اچھے شہری کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا بوجھ خود اٹھانے پر راضی ہوتاہے۔ چرچل نے کہا تھا ” ذمہ داری عظمت کی قیمت ہے ” ۔ سماج بدکاروں کی کاروائیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اچھے لوگوں کے کچھ نہ کرنے کی وجہ سے تباہ ہوئے ہیں اور ہوتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔