... loading ...
ب نقاب / ایم۔آر۔ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب پیکا کاقانون یہ ممکن نہیں ہوگا کہ پریس کی زباں بندی جاری رہے !
کیا بیہودہ نقالی پر مبنی یہ ایسا نظام نہیں جو روز اول سے ہی کسی نہ کسی مداری کی ڈگڈگی پر ناچ کر اپنے تقاضے پورے کر رہا ہے ؟
کیا کوئی ایسا ذی شعور بچا ہے جو اس بات کی وکالت کر سکے کہ الیکشن کے دوران کئے گئے وعدے جھوٹے نہیں تھے ؟شاید نہیں اور اگر کوئی ہے تو اُسے بام پر لایا جائے کہ پتھرائی ہوئی آنکھیں خیرہ ہو سکیں ،فارم 47اور17سیٹوں کے ساتھ بھاری مینڈیٹ کے پائوںشاید اب کسی جگہ پر پڑٹکتے ہی نہیں ،کہ شکست خوردہ ہمارے حکمران ہیں!
حکومتی معیشت دان بتائیں معیشت کا ایسا کونسا شعبہ ہے جہاں سے دھڑام دھڑام کی آوازیں نہ آرہی ہوں ؟
ریاست کا ایسا کونسا ادارہ ہے جہاں سے تڑخنے کی صدا سنائی نہ دے رہی ہو ؟
درندگی اور بر بریت کو ایک معمول قرار دیکر اُسے اپنا لینے کا درس دیا جا رہا ہے ، جہاں ہر بجٹ صرف جھوٹ اور مکاری کا پلندہ بن کر رہ گیا ہو ۔
فروری 2024کے الیکشن میں جھوٹ اور مکاری کو مستند اخلاقی اقدار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا اور نام نہاد قائدین کی صف میں کونسا ایسا چہرہ ہے جو بے نقاب نہیں ہوا !
عوام کی حالت زار پر زہر آلود مسکراہٹیں ہیں کہ خود اپنا مذاق اُڑا رہی ہیں ، مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں اموات میں تیزی آرہی ہے اور ان معززین اور شرفاء میں سے کون ہے جو سرِ بازار ننگا نہیں ہوا!
بے لباسی کو شاہی لباس سمجھ کر اُس پر اترایا جا رہا ہے !
جہاں حکمران طبقے کی سیاست بے غیرتی ،بے شرمی ،بے حسی اور جعلسازی کی بہترین تجربہ گاہ بن چکی ہووہاں ایک سچ کے علمبر داروں پر قدغن لگانا ، سچ پر مورد الزام ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ بدمعاشی اس بات کا ثبوت ہے کہ اب یہاں بے یقینی کے علاوہ کچھ بھی یقینی نہیں رہا اور اگر کچھ مستحکم ہے تو وہ ہے عدم استحکام اور اگر کچھ منظم اور مربوط ہے تو وہ ہے متواتر اور لگاتار انتشار ،معیشت عملی طور پر دیوالیہ ہو چکی اور نہ ماننے والے خود فریبی کی دلدل میں غرق ہو چکے۔
اذیتیں معاشرے کو شدت سے تاراج کررہی ہیں،مایوسی میں بغاوت کے جو انگارے اُبھر رہے ہیں وہ اس نظام کو جلا کر راکھ کر دیں گے
وفاقی وزیر رانا تنویر سے کہنا ہے کہ ریاستی طاقت کے زور پر حکمرانی نہیں ہوا کرتی اور صحافت اتنی کمزور نہیں کہ اُسے طاقت کے تسلط سے دبایا جا سکے،انتقامی اورجھوٹے مقدمات سے مرعوب کیا جا سکے۔
یہ ایک جمہوری حکومت کا وحشت ناک ”کھلواڑ ”ہے جس پر مزاحمت غصے میں بدل رہی ہے !
اظہار اور اشاعت کی آزادی تو انتہائی اور بنیادی نوعیت کی آزادیوں میں شامل ہے۔ یہ محض صحافتی آزادیاں نہیں بلکہ عوامی حق ہے جسے کسی بھی حکومت کو دہشت گردی کے مقدمات بنا کر چھیننے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔
اورصحافیوں نے تو ہمیشہ خطرات میں گھرے پریس کی بقاء اور تحفظ آزادی ِ اظہار کے لیے جاں گسل جنگ لڑی ۔
برہنہ ایوبی آمریت ،جبر اور تشدد کے دنوں میں ایک آواز آزادی ِ اظہار اور شہری آزادیوں کے حق میں مسلسل بلند ہوتی رہی،حمید نظامی کی تھی۔ جابر سلطان کے سامنے کلمہ ء ِ حق کہنے کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ حمید نظامی کے مطابق ہم کراچی میں آٹھ دس ایڈیٹر قصرِ ناز میں جو ایوب خان کا سرکاری مہمان خانہ تھا بیٹھے ہوئے تھے کہ ایوب تپنا شروع ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیے، اپنے گریبانوں میں منہ ڈالیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں میں کھڑا ہو گیا اور کہا کہ آپ بتا سکتے ہیں کہ اگر ہم گریبانوں میں منہ ڈالیںتوکیوں شرم آنی چاہیے۔ کم از کم میں جب گریبان میں منہ ڈالتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ۔موقع پرست صحافیوں نے مجھے بیٹھ جانے کو کہا لیکن میں نے اپنی بات مکمل کی ۔
صحافت کے کالے قانون پی۔پی۔او کو صحافیوں نے ماننے سے انکار کردیا !
ایوبی آمریت کے خلاف نومبر 1968ء کو جس عوامی تحریک کو عروج ملا اور 25نومبر1969ء کو جو ایک آمرکے اقتدار کے خاتمہ کا باعث بنی کو پروان چڑھانے میں پریس کا کردار واضح رہا ۔4جون 2007ء کو ایک بار پھر ایک آمر مشرف نے الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا نیا ترمیمی آرڈینینس جاری کیا ،جس میں گیارویں ترمیم کے تحت پیمرا کو مزید اختیارات دے دیے گئے ان کے تحت اُسے ٹیلی ویژن ، ریڈیو براڈ کاسٹر کے دفاتر سیل کرنے ، سامان ضبط کرنے ،لائسنس منسوخ کرنے کے ساتھ ساتھ عمارت کو بھی سیل کرنے کا اختیار دیا گیا ۔
ایک عوامی حکومت کا اقدام مشرف کے سیاہ قانون کا شاخسانہ ہے جسے جمہوری حقوق کے تحفظ کا واویلا کرنے والی حکومت نے نافذ کیا ۔
یہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والوںکو عبرتناک انجام کی دھمکی اور صحافتی کردار پر حملے کے مترادف ہے۔ کیا ایک جمہوری حکومت کے دور میں بھی ہم اُن ممالک کی صف میں نہیں کھڑے جہاں حق اور سچ کے اظہار یا اس کی کوشش میں صحافی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں ۔
16دسمبر2011کو عدالت ِعظمیٰ نے این۔آئی ۔سی ۔ایل کیس میں ریمارکس دیے کہ صحافیوں کو عدالت میں اپنے خفیہ ذرائع اطلاعات کو ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا چاہے، انہیں گواہوں کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کے لیے ہی کیوں نہ کہاجائے ۔انسان خوراک کے علاوہ دوسری بڑی جس چیز کا استعمال کرتاہے وہ معلومات (Information) ہے اگر جسمانی طور پر زندہ رہنے کیلئے خوراک کی ضرورت ہے تو ذہنی وفکری نشوونما کیلئے انفارمیشن از حد ضروری ہے ۔
کیا یہ مان لیاجائے کہ حقیقت یہ ہے پاکستان ایک ایسے خطے کا روپ دھارچکا ہے جہاں سچ اور حقائق کو برداشت نہیں کیاجاتا۔ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا بھی اقبال کے پاکستان میں ہے ۔ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایشین ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی پاکستان میں صحافیوں کے اغواء اُن کوقتل کی دھمکیوں اور ہراساں کرنے کے واقعات پر کہا کہ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن صحافیوں کو دی جانے والی قتل کی دھمکیوں کی سخت مذمت کرتا ہے کیونکہ یہ مبینہ طور پر حکومت اوراس کے اتحادیوں کی جانب سے ذرائع ابلاغ کی آزادی سلب کرنے کی مبینہ کوشش اور ڈرانے دھمکانے کی کاروائی ہے اوراب پیکا ایکٹ کے تحت جھوٹے اورناجائز مقدمات کی خواہش ان تمام جمہوری حکومتی دعوئوں کی نفی ہے جو وہ آزادی اظہار کیلئے کرتے ہیں ۔ جہاں لوٹ مار،کرپشن ، ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری ، حکومت اپنی لوٹ مار کو عوم کی فلاح کے طور پر پیش کرتی ہو اور اعداد و شمار کو مسخ کیا جاتا ہو ،بڑے بڑے محل نما ایئر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھے پینٹ کوٹ اور ٹا ئی میں ملبوس انسا ن نما بھیڑ یے عوام کا خون چوس رہے ہوں ،جہا ں دو تہا ئی معیشت کا لے دھن پر مبنی ہو،انسانی حقوق کی غصبی وپامالی ،معاشی اور معاشرتی ناانصافی ، بے حیائی ، بدمعاشی پر کوئی پابندی نہ ہووہاں حق گوئی وبے باکی پر پابندی کہاں کی دانشمندی ہے اور عصر حاضر کے حکمرانوں سے یہ کہنا ہے کہ گندگی کو قالین کے نیچے چھپایا جائے تو وہ ایک وقت میں گنگرین بن جاتی ہے ،کیا اس سے ظاہر نہیں ہوتا کہ ہم وطن عزیز میں آزادی صحافت کو تصوراتی حدتک ہی دیکھ سکتے ہیں عملاً زمینی حقائق کچھ اور ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔