... loading ...
ریاض احمدچودھری
پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (قومی اسمبلی) نے متنازع پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (ترمیمی) بل، 2025 کی منظوری دے دی، جس سے غلط معلومات پھیلانے، تشدد بھڑکانے یا انتشار پھیلانے کے مرتکب پائے جانے والے کسی بھی شخص کو تین سال تک قید کی سزا سنائی جائے گی۔اس ترمیم نے تنازع کو جنم دیا، ناقدین کا دعویٰ ہے کہ اس کا استعمال اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کے لیے کیا جاسکتا ہے اور آزادی صحافت کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے جو کہ حالیہ برسوں میں پہلے ہی بہت سے مسائل کا سامنا کررہی ہے۔اپوزیشن اور صحافیوں کے واک آؤٹ کے درمیان قومی اسمبلی نے ملک کے سائبر کرائم قوانین میں ترمیم کی منظوری دے دی۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اس بل کو پیش کیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آن لائن مواد کو ریگولیٹ کرنے کا تازہ ترین اقدام ہے، خاص طور پر جعلی خبروں کا خطرہ اس بل سے کم ہوجائے گا۔
ترمیم کے ساتھ، سیکشن 26 (اے) ان لوگوں پر سخت سزائیں عائد کرتا ہے جو غلط معلومات کی فروخت کے قصوروار پائے جاتے ہیں جو عوام میں خوف و ہراس یا بدامنی کا باعث بن سکتے ہیں۔ قانون شکنی کرنے والوں کو 3 سال قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی سوشل سائٹس کو ریگولیٹ کرنے کے ٹاسک کے ساتھ تشکیل دی جائے گی۔ اتھارٹی کو نقصان دہ سمجھے جانے والے مواد کو بلاک کرنے یا ہٹانے کا اختیار ہوگا، بشمول ایسا مواد جو پاکستان کے قومی نظریے سے متصادم ہو، تشدد کو ہوا دیتا ہو، یا غلط معلومات پھیلاتا ہو۔مجوزہ تبدیلیاں غلط معلومات کا مقابلہ کرنے اور آن لائن مواد کی سخت نگرانی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہیں۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بل آزادی اظہار کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور سنسرشپ کا باعث بن سکتا ہے۔ میڈیا کی آزادی اور آن لائن تقریر پر اس کے اثرات کے بارے میں خدشات کے ساتھ یہ بل اب مزید جائزے کے لیے قائمہ کمیٹی کے پاس ہے جو نئی بحث کو ہوا دے رہی ہے۔ قومی اسمبلی نے سوشل میڈیا قوانین سخت کرنے سے متعلق پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2024ء کثرت رائے سے منظور کرلیا ہے۔ بل کے مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
پیکا ایکٹ میں مجوزہ ترمیم میں غیر قانونی مواد کے16 اقسام کے مواد کی فہرست دی گئی۔ غیر قانونی مواد میں گستاخانہ مواد، تشدد، فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا شامل ہیں۔غیر قانونی مواد میں فحش مواد، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی شامل ہیں، غیر قانونی مواد میں جعلی یا جھوٹی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف ‘الزام تراشی’، بلیک میلنگ اور ہتک عزت شامل ہیں۔
اپوزیشن رکن جمشید دستی نے کہا کہ ہنگامی اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی؟ ملک میں کالے قانون لائے جا رہے ہیں۔زرتاج گل نے کہا کہ یک دم اجلاس بلالیا گیا ہے جب کہ سیشن ابھی جاری ہے، کالے قوانین کے لیے اتنی جلد بازی کی جاتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کو کسی کا اکاؤنٹ نہیں اچھا لگتا اس کی فیملی کو اٹھا لیں۔ اس بل کی قومی اسمبلی سے منظوری سے پہلے ہی صحافیوں کی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کے بل کو مسترد کر دیا تھا۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی پی ایف یو جے، اے پی این ایس، سی پی این ای، امینڈ اور پی بی اے پر مشتمل ہے۔جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم صحافی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر کی جا رہی ہیں۔ پیکا ایکٹ میں ترامیم کا مسودہ اب تک شیئر نہیں کیا گیا۔پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 کی قومی اسمبلی سے منظوری پر سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ارشد انصاری کا کہنا تھا ان لوگوں نے بھی وہی کام کیا تو گزشتہ برس ہتک عزت بل کے معاملے پر پنجاب حکومت نے کیا تھا، صحافیوں کو خانہ پوری کرنے کے لیے بلایا اور بل پاس کر لیا۔
آزادی اظہار کو دبانے کے بجائے، حکومت کو مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کو حقیقی وقت میں درست خبریں رپورٹ کرنے کے لیے بااختیار بنانا چاہیے، اس طرح سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے یقین دہانی کرائی تھی کہ قانون پاس ہونے سے قبل اس پر تمام اسٹیک ہولڈر ز سے مشاورت کی جائے گی لیکن اس کے برعکس حکومت نے جلد بازی میں ان قوانین کو منظور کروالیا ہے اور اس کا مسودہ صحافی تنظیموں کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا۔ اس طرح کے اقدامات سے حکومت آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی کوشش کررہی ہے۔