... loading ...
ماجرا/ محمدطاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاک امریکا تعلقات اب کیسے ہوں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے 47 ویںصدر کی حیثیت سے حلف اُٹھانے کے بعد وطنِ عزیز میں موضوعِ بحث ہے۔چالیس برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ٹرمپ کی تقریب حلف بردار ی کیپٹل بلڈنگ کے باہر ‘نیشنل مال’ کے بجائے عمارت کے اندر منتقل کر دی گئی۔ وجہ شدید سردی تھی۔ مگر اس کے باوجود ڈونلڈٹرمپ کی ”واپسی” نے دنیا اور امریکا کو گرم رکھا۔ ہر ملک اپنے تناظر میں امریکا سے تعلقات کی نوعیت پر غور کر رہا ہے۔ پاکستان میںیہ سوال خطرناک مضمرات کے تہ دار پیچ وخم کے ساتھ زباں زدِ خاص ہے۔ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے؟ اس سوال کا درست جواب ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھے بغیر نہیں مل سکتا۔ وزارتِ خارجہ کے روایتی بابوؤں کے گھسے پٹے الجھن زدہ فقرے اور عسکری اشرافیہ کے ماضی گزیدہ ، فرسودہ طور طریقے اس کے لیے کفایت نہیں کرتے۔
ڈونلڈ ٹرمپ 2016ء سے 2020ء تک امریکا کے 45ویں صدرتھے۔ روایتی ذرائع ابلاغ کے عالمی پنڈتوں سے لے کر تمام بڑے سیاسی جغادریوں تک یہ سب کو ناممکن لگ رہا تھا کہ وہ کبھی وائٹ ہاؤس میں واپسی کر سکیں گے۔ یہ تمنا گزیدہ ذہنیت کے ساتھ فرسودہ طریقے سے نتائج اخذ کرنے کی گھسی پٹی روش تھی۔ روایتی سوچ ایک یکسر غیر روایتی شخص کو سمجھنے سے قاصر رہی۔یہ اب ایک پامال فقرہ (کلیشے) ہی ہوگا کہ کہا جائے،دنیا کے طاقت ور گھر میں ٹرمپ کی امریکی صدر کے طو رپر واپسی ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ ٹرمپ کو سادہ طور پر ایک امریکی صدارتی انتخاب کا سامنا نہیں تھا۔ وہ پینٹاگون ، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور لینگلے کے روایتی ہتھکنڈوں سے بھی نبرد آزما تھے۔ اُنہیں تمام سابق صدور کی مخالفت کے ساتھ کانگریس اور روایتی سیاست کے تمام مراکز کی مخاصمت بھی بھگتنا پڑی۔ سب سے بڑھ کر امریکی ذرائع ابلاغ کا پورا منظرنامہ ٹرمپ کے مخالف بہتا رہا۔ ٹرمپ کو روکنے کے لیے فوجداری مقدمات بنائے گئے،وہ امریکی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنہیں فوجداری جرم کا مرتکب ٹہرایا گیا۔ وہ دو قاتلانہ حملوں میں بھی محفوظ رہے۔یہ اور بہت سے پہلو ڈونلڈ ٹرمپ کو گزشتہ روز 47ویں صدر کے طور پر امریکی وقت کے مطابق صبح 11بج کر 47منٹ پر حلف اُٹھاتے ہوئے منفرد بناتے ہیں۔ یہ ایک شاندار اور غیر روایتی واپسی ہے جو ہمیں ایک امریکی صحافی کیٹ بونر(kate bohner)کو شریک مصنف بناتے ہوئے خود ٹرمپ ہی کی ایک کتاب
” The Art of the Comeback” کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ واضح طور پر یہ کتاب ڈونلڈ ٹرمپ کی افتادِ طبع کو سمجھنے میں بھی مددگا رہے۔ کتاب کے شروع میں ہی ٹرمپ کھیل میںواپسی کے دس نمایاں گُر(Tips) بتاتے ہیں۔ یہ دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ کے تیوروں کو بھانپنے میں بھی معاون ہیں۔ ٹرمپ کے یہ گُر دراصل تحریک دینے والے مقررین (motivational speakers) کے مسخروں کی طرح ڈھلے ڈھالے فقروں سے کوئی لگّا نہیں کھاتے۔ یہ زندگی کے پورے ڈھنگ کا احاطہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ٹرمپ کے یہاں اخلاقیات کی گنجائش اتنی ہی ہے جتنی نواز شریف کے ہاں ایمانداری کی۔ یہ ٹرمپ کے ذہن میںجھانکنے کے لیے ہے نہ کہ اُن کی زندگی کو مثالی طور پر پیش کرنے کے لیے۔ ٹرمپ کیسے سوچتے ہیں؟ اُن کے دماغ کی لہریںاُن کے بتائے گئے دس گُروں کے اندر اپنے سرے پکڑاتی ہیں۔ ایک ایسا شخص جو بلندی سے گرا ہے اور کھڑا ہونا چاہتا ہے، جو کھیل سے نکال باہر کیاگیا ہے اور واپسی کا خواہش مند ہے۔ جو کبھی تھا اور اب وجود کے ہونے کی کٹھنائیوں کا شکا رہے۔ ایسے شخص کے لیے ٹرمپ کا پہلا گُر کچھ اور نہیں بلکہ گولف کھیلنا ہے۔ یہ نکتہ واضح کرتا ہے کہ اُسے کچھ بھی پریشان نہیں کرتا۔ یہاں وہ بتاتے ہیں کہ پریشانیوں میںپہلا ہدف اطمینان پانا ہے، اور اس کے لیے گولف بہترین ہے ۔ مگر یاد رکھیں یہ ٹرمپ ہیں، وہ اپنا تجربہ بتاتے ہیںکہ اُنہوں نے پریشانی کے ایسے ہی ایام میں جب گالف کھیلی تو یہ” ستم ظریفی” ہے کہ اُنہوں نے اسے بھی پیسہ بنانے میں تبدیل کیا۔ اس دوران نئے روابط استوار کیے۔ نئی ڈیلز لیں اور نئے آئیڈیاز کے ذریعے واپسی کی۔ کوئی بھی آدمی اس نکتے کا ذکر کرے گا جو ٹرمپ بھی دوسرے نمبرپر بیان کرتا ہے یعنی ارتکازِ توجہ(فوکس)۔ مگر ٹرمپ مختلف ہوتے ہیں جب وہ تیسرے گر کے طور پر پاگل پن (paranoia) کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیںکہ اپنے اوپر کچھ پاگل پن کو راج کرنے دو۔ جنون کا ذکر کون نہیں کرتا، ٹرمپ بھی چوتھے گر کے طور پر کرتے ہیں۔ مگرپانچواں گُر ہی ہے جو ٹرمپ کو دنیا سے الگ کرتا ہے۔ یعنی بہاو ٔ کے مخالف چلو۔ٹرمپ چلے بھی اور نتائج بھی پیدا کیے۔ اس کے علاوہ بھی چار گُر وہ ایسے بتاتے ہیں جو قدرے مختلف ہیں اور ٹرمپ کے ذہن کو واضح کرتے ہیں۔ مگر تعلقات کے باب میں اُن کی سوچ حیوانی انداز سے فائدے کو سونگھتی ہوئی جیسے آگے بڑھتی ہے وہ دسواں گُرہے جس میں وہ تعلقات کے مستقل قیدی بنانے کے بجائے ہر نوع کے تعلق کو قبل ازدواج یعنی (prenuptial agreement) سے باندھنے کا بتاتے ہیں۔ یہ تعلق میں رہنے سے زیادہ نکلنے کا راستہ ہوتا ہے جو غیر مفید ہو تو ترک کرنے میں قطعی دشواریاں پیدا نہیں کرتا۔ بس یہاں سے ٹرمپ کو سمجھنے کا سرا مل جاتا ہے جس میں وہ بہت زیادہ لین دین والی قیادت یعنی (transactional leadership) کے طور پر عیاں ہوتا ہے۔ ٹرمپ کی پوری شخصیت بس اس محور کے اندر ہے۔ جس میں وہ اپنے اہداف کے مطابق تعلقات کی سطح طے کرتا ہے جو کبھی مستقل نہیں ہو سکتی۔
ٹرمپ کے ساتھ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اُنہیں کوئی یہ باور نہیں کرا سکتا کہ فلاح ہدف اُس کے لیے سود مند ہوگا۔ کیونکہ وہ اپنا ہدف بھی خود چنتے ہیں۔ یہ نکتہ ایسے لوگوں ، ملکوں یا اداروں کو پریشان کرے گا جو ٹرمپ کے سامنے اپنی خدمات مہیا کرتے ہوئے اُن کے سامنے ہدف کے انتخاب کا ماحول بناتے ہیں۔ ٹرمپ کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ چین کے خلاف بروئے کار آنے کے لیے روایتی امریکی طریقے یعنی بھارت کو مقابل کھڑا کرنے کی حکمت عملی کو چھوڑ سکتے ہیں۔ یا پھر اسی حکمت عملی کا اختیار کرتے ہوئے اس کے قواعد بدل سکتے ہیں۔ وہ انڈیا کو چھوڑ کر خود چین سے کچھ معاملات طے کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ٹرمپ اپنی ٹرانزیکشنل لیڈرشپ کی غیر مبہم سطح پر افغانستان کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ روابط بنانے میں ہر قسم کی ہچکچاہٹ کو دور دھکیل سکتے ہیںاور یوں افغانستان کے نام پر خود کو ایک سودا بنانے والے، منہ دیکھتے رہ سکتے ہیں۔ چین کی افغانستان کے اندر پزیرائی امریکی حکمت عملی کا انتہائی اہم نکتہ ہے مگر ٹرمپ اسے ان دیکھا بھی کرسکتے ہیں۔ یوں بھارت پاکستان کو کھڈیرتے ہوئے افغانستان کے تناظر میں امریکا سے جو اہمیت پانا چاہے گا یا پھر چین کے خلاف اپنی حکمت عملی کے طور پر افغانستان کے اندر کوئی گنجائش پیدا کرنے کا خواب دیکھ رہا ہوگا، وہ چکنا چور بھی ہو سکتا ہے۔ یہ سب کچھ ٹرمپ کے اپنے طے کردہ اہداف پر منحصر ہے۔ ٹرمپ کے پاس اپنی ڈیلز ہیں اور لین دین کے اپنے طور طریقے۔اُس نے دنیا کے سب سے طاقت ور گھر میں شاندار واپسی بھی اپنے ہی طریقے سے کی ہے۔یہ وہ تناظر ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے اس سوال پر غور کرنا ہوگا کہ پاک امریکا تعلقات اب کیسے ہوں گے؟ اس سوال پر غور پھر کبھی!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔