... loading ...
زریں اختر
ڈاکٹر منطور احمد نے پوچھا:”تمہیں معلوم ہے نرگسیت کسے کہتے ہیں؟یہ عمومی سوال اپنے سیاق و سباق میںزیادہ اہم تھاکیوں کہ تذکرہ تھا ڈاکٹر عبدالقدیر کا۔ ڈاکٹر منظور احمد نے بتایا کہ لفظ نرگسیت نرگس سے نکلا ہے، نرگس کا پھول پانی میں جھک کر اپنا ہی عکس دیکھ کر جھومتا رہتا ہے ، اپنی خوب صورتی میں خود ہی مگن،جن کو یہ لگتاہے کہ بس وہ ہی وہ ہیں ،ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ نرگسیت میں مبتلاہیں، ڈاکٹر عبد القدیر نرگسیت کا شکار ہوگئے ہیں ۔ وہ کیسے ؟ میں نے سوال کیا۔ ڈاکٹر منظور احمد نے بتایا کہ وہ ،ڈاکٹر ثمر مبار ک اور دیگر کچھ لوگ کہیں (اب مجھے یاد نہیں) افتتاح کے لیے گئے تو وہاں ڈاکٹر عبد القدیر کی قد آدم تصویرلگی ہوئی تھی ، میں نے کن انکھیوں سے دائیں ڈاکٹر ثمر مبارک کی طرف دیکھا ،بائیں دیکھا ،ان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی میں بھی مسکرادیا ۔ یہ مسکراہٹ کس قسم کی ہوگی ؟ تمسخر آمیز یا طنزیہ یا ان دونو ں کا امتزاج؟ ڈاکٹر منطور احمد کے نزدیک ڈاکٹر عبد القدیر سائنس دان نہیں۔ انہوں نے ایٹم بم کا فارمولا دریافت نہیں کیا، انہوں نے پلانٹ لگایا،کیوں کہ ارباب ِ اقتدار چاہتے تھے، فارمولا تو موجود تھا۔
ایک دوسری نشست میں ڈاکٹر عبدالقدیر کا دوبارہ تذکرہ آیا ،ان کی نظربندی کے بعد۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ” وہ اپنے ذاتی خرچے پر اسلام آبادگئے ، ڈاکٹر عبد القدیر سے یہ کہنے کہ حالات ان کے لیے اچھے نہیں ، وہ ملک سے باہرچلے جائیں”۔ لیکن وہ نہیں گئے، ان کو لگا ہوگا کہ ایسا ممکن نہیں ہوسکتا۔ ڈاکٹر منظور احمد نے اپنی بات زور دے کر دہرائی کہ ”میں اپنے ذاتی خرچے پر اسلام آباد ان سے یہ کہنے گیا تھا کہ ایسی اطلاعات ہیں، آپ کے لیے ٹھیک نہیں ، آپ یہاں سے نکل جائیں”۔ آج تجزیہ کرتی ہوں تو ان الگ الگ بات چیت میں جو ربط نظر آتاہے وہ ڈاکٹر عبد القدیر کی نرگسیت ہے۔ اپنے ہی عکس میں کھوئے رہے اور حقائق توجہ دلانے پر بھی اوجھل ہی رہے۔
ایسی ہی قد آدم تصویر جب میں نے ماہ نامہ اطراف کے دفترکے باہر محمود شام صاحب کی دیکھی تھی تو مجھے ڈاکٹر منطور احمد کی یہ بات یاد آئی تھی ۔اطراف میں کوئی قائم خانی ہوتے تھے جو محمود شام صاحب کو پیر کہتے تھے اور خود کو ان کا مرید گردانتے تھے ، ممکن ہے کہ یہ ان ہی کا کارنامہ بلکہ تحفہ ہواور محمود شام صاحب مرید کی عقیدت مندی کے سامنے انکار نہ کرسکے ہو لیکن ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔ بعد میں وہ مرید دفتر چھوڑ گئے ،میں نے محمود شام صاحب سے کہا کہ وہ تو آپ کو اپنا پیر مانتے تھے ، محمود شام صاحب نے جواب دیا کہ اب انہوں نے کسی اور کو پیر کرلیاہے۔
کچھ لوگوں کی گفتگو بلکہ تحریروں میں بھی ”میں میں”کی گردان ہوتی ہے ۔ کیا یہ ان کی شخصیت میں نرگسیت کی کارستانی ہے؟ اور کیا انانیت اس سے مختلف ہے ؟ انانیت تخلیق کار کا طرئہ امتیاز ہے ، یہ بھی کسی تخلیق کار نے ہی کہاہے۔ غالب کی انانیت مشہور ہے لیکن نرگسیت یہ اعتراف نہیں کراسکتی کہ :
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
تلاش اور جب یہ بھی نہ معلوم ہو کہ کس کی تلاش ، خلا اور یہ نہ سمجھ میں آئے کہ کیسا خلا، دُھن اور پتا نہ ہو کہ کس چیز کی دُھن ؛ بگولے کی طرح لیے پھرتی ہے ۔ ڈاکٹر عبد الوہاب سوری شعبہ فلسفہ جامعہ کراچی نے ایک دن اپنی کلاس میں کہاکہ ” ادب میری سمجھ میںنہیں آتا۔” برسوں بعد ایک وڈیو نظر سے گزری جس میں وہ ایک مجلس میں ادب پر گفتگو کر رہے تھے۔ جامعہ کراچی جانا ہوا تو پوچھا کہ وہ کیاتھا اور یہ کیا ہے ؟ فرمانے لگے کہ” ادیب تخلیق کار ہے اور خالق اپنی مرضی کا مالک ہوتاہے”۔
تخلیق کار کی انانیت کے آگے سرِ تسلیم خم ہے ، لیکن نرگسیت ظرف کا جواب دے جانا ہے۔ انانیت کے جن نے اگر نرگسیت کو ہضم کر لیا تو ٹھیک ، اگر نہیں تو بد ہضمی نہیں جاتی۔ میں ہوں اور تم بھی ہو اور اگر میں ہی میں ہوں۔۔۔۔
کوئی عالِم کم علمی کا احساس نہیں دلاتا ، نہ کسی سوالی کو ذہنی بے آرامی ہوتی ہے،ہاں ایسا کم عِلموں کی صحبت میں اکثر بلکہ ہمیشہ ہی ہوتا ہے ۔ ایک خبر پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ نے وہ خبر پڑھی ، اگر جواب نہ میں ہوتو ارے آپ نے نہیں پڑھی ۔ ایک کالم ، کوئی مضمون یا کتاب اگر انہوں نے پڑھ لی اور دوسرے نے نہیں پڑھی تو وہ سب سے زیادہ جاننے والے اور دوسرا ۔۔۔بعد میں سمجھ میں آنے لگا کہ اصل معاملہ کیاہے۔
عثما ن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جب ڈاکٹر منظور احمد اس کے ڈائریکٹر تھے اور انڈیا سے علی سردار جعفری آئے ہوئے تھے ان کے اعزاز میں ایک نشست کا اہتمام ہوا ۔ نجم صاحب ہوتے تھے ، جغرافیہ کے، ڈاکٹر صاحب کے گلشن اقبال میں واقع گھر میں ماہانہ فکری نشست میں انہوں نے اپنی ایک کتاب پاکستان اور جغرافیہ عنایت کی تھی ، میں نے ایک مرتبہ ڈاکٹر منظور احمد سے ان کی بابت پوچھا تو کہنے لگے کہ ہاں کچھ نہ کچھ کرتا رہتاہے۔ انہوں نے علی سردار جعفری کے ساتھ ہونے والی نشست میں کہا کہ ”یہاں کتنے لوگ ہیں جنہو ںنے اقبال کو پورا پڑھا ہے ؟ یہا ںکتنے لوگ ہیں جنہوں نے غالب کو پورا پڑھا ہے؟ (ذاتی حوالے سے یہ احساس بڑا قیمتی ہے لیکن اس کو اجتماع پر لاگو کرنا مناسب نہیں)۔ ڈاکٹر سردار علی جعفری نے جب آخر میں گفتگو کو سمیٹا تو فرمایا کہ ” یہ اہم نہیں کہ آپ نے کتنا یا پورا قبال کو پڑھا ہے یا غالب کو کتناپڑھا ہے ، آپ نے اقبال کو پڑھا ہے ،میں نے غالب کو پڑھا ہے ، آئیے مل کر ان پر بات کرتے ہیں، جس نے غالب کو پڑھا ہے وہ ان پر بات کرے ،جس نے اقبال کو پڑھا ہے وہ ان کے بارے میں بتائے ۔”
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی