... loading ...
ایم سرور صدیقی
تحریک انصاف کو پی ڈی ایم کی حکومت سے بہت سے گلے شکوے ہیں انہیں9مئی اور26نومبر کے حوالے سے بہت سے تحفظات ہیں ، اسی تناظرمیںپی ٹی آئی نے مذاکرات کیلئے دو تحریری مطالبات بھی پیش کردئیے ہیں جس میں عمران خان کی ر ہائی اور آزاد و غیرجانبدارانہ جوڈیشل کمیشن کاقیام شامل ہیں جبکہ سابق وزیر ِ اعظم کا موقف ہے کہ ملٹری کورٹس سے تحریک ِ انصاف کے کارکنوںکو سزا دینا انصاف کے منافی ہے۔ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے خاتمہ کے لئے پیشتر پاکستانیوںکا خیال ہے کہ ہر مسئلہ کا حل مذاکرات ہی ہے اس لئے حکومت اور پی ٹی آئی نے حالات کی سنگینی کااحساس کرتے ہوئے قومی مفاہمت کے لئے بات چیت کا آغاز کردیا جس کے دو اجلاس ہوچکے ہیں ۔حکومت پر دبائو ڈالنے کیلئے پی ٹی آئی نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام اپوزیشن جماعتوں ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی حکمت ِ عملی تیارکرلی ہے پیر صاحب پگاڑا، سے بھی رابطہ کرلیا گیا ہے۔ حامیوںکا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی جمہوریت بچانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہے ۔
بہرحال ملک کے موجودہ سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتاہے13چھوٹی بڑی پارٹیوں پرمشتمل پی ڈی ایم اتحا دکا ہدف عمران خان کو وزیر ِ اعظم کے منصب سے ہٹاناتھا ۔کامیابی کے باوجود اب حکمرانوں نے ہر صورت عمران خان کا راستہ روکنے کا عزم کررکھا ہے تاکہ یہ اتحادپانچ سال پورے کرلے اور اقتدار میں رہ کر آئندہ کیلئے بھی سیاسی راہ ہموار کی جائے جو ماحول جارہاہے اس میں پی ڈی ایم کی حکومت کامیاب دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ آج پی ٹی آئی کے کارکن تتر بتر ہوچکے ہیں۔9مئی اور 26نومبر کو جو کچھ ہوا ، اس کا خوف و ہراس اس قدر شدید ہے کہ فی الحال کارکن سڑکوںپر آنے کیلئے تیار نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکمران اتحاد بھی ایک ان دیکھے خوف میں مبتلا ہے ۔اس لئے شریف برادران کا ہدف ہے کہ پی ٹی آئی کو مزید کمزور کرکے عمران خان ہمیشہ کیلئے سیاست سے نکال باہر کرے اور ان کے حامیوںکو دیوار کے ساتھ لگائے بغیر وہ چین سے حکومت نہیں کرسکیں گے۔ لگتاہے وہ اسی فلسفے پر عمل پیرا ہیں کیونکہ پنجاب کے بغیرپی ڈی ایم کی حکومت یا دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتاہے بالخصوص شریف خاندان کی بادشاہت ادھوری ہے۔نون لیگ کے رہنما رانا ثنا ء اللہ نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے القادر یونیورسٹی کیس کے فیصلے سے مذاکرات کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے، چونکہ بانی پی ٹی آئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں نیب آرڈیننس1999 کے تحت مجرم قرار دیا جاتا ہے، بانی پی ٹی آئی کو14 سال قید بامشقت اور 10لاکھ جرمانے کی سزا سنائی جاچکی ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی کو کرپشن میں سہولت کاری اور معاونت پر مجرم قرار دیا جاتا ہے، انہیں7 سال قید بامشقت اور5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے جبکہ القادر ٹرسٹ کی پراپرٹی وفاقی حکومت کے سپرد کی جاتی ہے۔ لیکن چونکہ عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سزا سنائی جاچکی ہے تو یقینا اس کا اثر مذاکرات پر ہوگا ،جو کوئی نیک شگون نہیں ہے ۔یہ عمران خان کے مخالفین کے لئے تو اچھی خبر ہوسکتی ہے لیکن بانی پی ٹی آئی کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ایک تو وہ پہلے ہی قریباًدو سال سے جیل میں ہیں وہ حکومت سے کسی بھی قسم کی ڈیل بھی نہیںکرنا چاہتے ،کسی مراعات کا تقاضا بھی نہیں کررہے۔ لیکن وہ جیل میں رہیں یا جیل سے باہر حکومت کے لئے ضرور مشکلات پیدا کرسکتے ہیں اور وہ یقینا ایسا کریں گے۔ بہرحال عمران خان کو ایک اور کیس میں سزا کے بعد مذاکرات عملاً ختم ہوکررہ گئے ہیں ۔ یقینا ایک بارپھر ملک اپنے نازک ترین دور سے گزررہاہے۔ سیاست میں عدم برداشت، جمہوریت کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں۔ پوری قوم ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلاہے۔ اس ماحول میں حکومت کو چاہیے کہ پی ٹی آئی کے جیلوں میں بند سینکڑوں کارکنوںکو جذبۂ خیر سگالی کے تحت عام معافی دے کررہا کردے، اس سے حکومت کی نیک نامی بھی ہوسکی گی اور سیاست میں بھڑک رہی آگ ٹھنڈی ہونے میں مدد بھی ملے گی۔ یہ اقدام نفرت کی سیاست میں تریاق کا کام کرسکتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ کیونکہ مذاکرات ہی سے مسائل کا حل ممکن ہے، لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اچھی سوچ کے تحت جامع بات چیت ہونی چاہیے اور مذاکراتی ٹیم کا بااختیار ہونا نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ مذاکراتی عمل کا ٹائم فریم ہونا چاہیے ۔وقت کی نزاکت دیکھتے ہوئے ٹھنڈے دل و دماغ سے کئے گئے فیصلوںکی نتائج تاریخ رقم کرتے ہیں، وگرنہ بانی پی ٹی آئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں سزا کے بعد مذاکرات پر سوالیہ نشان تو لگ ہی گیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔