وجود

... loading ...

وجود

لاحاصل بات چیت

اتوار 19 جنوری 2025 لاحاصل بات چیت

حمیداللہ بھٹی

حکومت اور حزبِ اختلاف کے مابین روابط میں پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اعلانیہ ملاقاتیں ہونے کے ساتھ چیت کا عمل شروع ہو چکا ہے جس کاتسلسل رہنے سے سیاسی کشیدگی ختم ہوسکتی ہے لیکن دونوں طرف کی اعلیٰ قیادت میں دوریوں اور براہ راست روابط نہ ہونے کی وجہ سے نتائج کے حوالہ سے اچھی توقعات نہیں۔خیر اولیں بیٹھک بے نتیجہ سہی دونوں طرف سے ملاقاتیں جاری رکھنا حوصلہ افزا عمل ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق بظاہر غیر جانبدار ہیں لیکن بات چیت پر آمادگی کو حکومت کی اخلاقی فتح ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بہتر تویہی ہے کہ مسائل کا حل منتخب ممبران مل بیٹھ کر تلاش کریںمگر بات چیت جاری رکھنے اور مزید ملاقاتوں پر اتفاق کے باوجود دونوں طرف موجود بداعتمادی مذاکراتی عمل کولاحاصل ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
بات چیت میں شامل شخصیات کواگر اختیارات کے حوالے سے دیکھیں توکوئی بھی کسی قسم کا اہم فیصلہ کرنے کااختیار نہیں رکھتا۔ اس لیے اتفاق کی توقع تو نہیں لیکن حکومت کی یہ ہی بڑی کامیابی ہے کہ جو جماعت اُسے منتخب تسلیم کرنے سے انکاری تھی اورصرف مقتدرہ سے بات چیت کی خواہشمند تھی وہی بات چیت کی میز پر آگئی ہے اور بائیس نکاتی مطالبات کی فہرست پیش کردی ہے جب بات چیت میں شامل افراد کے پاس حتمی فیصلے کا اختیارنہیںتوبات چیت کے عمل کومحض تبادلہ خیال ہی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ہرملاقات کا اعلیٰ قیادت سے پوچھ کربتانے پراختتام ہوتا ہے۔ حکومتی جماعتیں اپنی بہتری اسی میں سمجھتی ہیں کہ حزبِ اختلاف اور مقتدرہ میں افہام و تفہیم نہ ہو جبکہ حزبِ اختلاف کی کوشش ہے کہ مقتدرہ کو یقین دلا دیا جائے کہ جنھیں حکمرانی کا اعزازدے رکھا ہے وہ محض ایک بوجھ ہیں اور ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور مقبول قیادت نہ صرف ملکی مسائل حل کر سکتی ہے بلکہ مقتدرہ پر بڑھتے عوامی دبائو کو کم کرنے میں مددگارثابت ہو سکتی ہے ۔بات چیت کے ساتھ مقتدرہ سے حزبِ اختلاف بیک چینل روابط کررہی ہے قومی سلامتی کو درپیش خطرات کے تناظرمیں حزبِ اختلاف کی عسکری قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں سے سلسلہ جنبانی بحال ہو چکا۔بیرسٹر گوہرکی عسکری قیادت سے ملاقات کی خود عمران خان تصدیق کرچکے ،لیکن کیا نو مئی واقعات کے حوالے سے غم و غصے ختم ہو چکاہے؟ اِس سوال کا ہاں میں جواب دینا مشکل ہے۔
تحریری مطالبات میں حزبِ اختلاف نے غیر متوقع لچک کا مظاہرہ کیا نہ صرف گزشتہ برس کے آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کے دوران دھاندلی الزامات سے کنارہ کش ہو گئی ہے ،بلکہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے خاتمے کا مطالبہ بھی ترک کردیا ہے جس سے فارم سینتالیس کاشور ختم ہو گیا مگر سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ چھوٹی موٹی لچک بات چیت کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے بے معنی ہوچکی ،نو مئی اور چھبیس نومبرواقعات پر عدالتی کمیشن کی تشکیل پر عدم اتفاق ہے۔ پہلے بات چیت کی حکومتی پیشکش کوحزبِ اختلاف قبول کرنے پر تیار نہیں تھی، اب لگتا ہے کہ بات چیت کاحصہ ہونے کے باوجود حکومتی خواہش ہے کہ بات چیت میں مطالباتی فہرست کے نکات پر اتفاق نہ ہو حکومتی صفوں میں بے زاری کی کیفیت ہے ۔اسحاق ڈار نے وضاحت بھی کردی کہ جمہوری استحکام کے لیے فوج سے بہترین تعلقات ہیں اِس لیے شہباز شریف پانچ برس وزیرِ اعظم رہیں گے ۔یہ وضاحت ، اعتراضات ا ورخیالات سے ظاہر ہے کہ بات چیت کے عمل کو لاحاصل رکھناہی حکومتی حکمتِ عملی ہے ۔
اگر حکومت مسائل کا شکار ہے تو حزبِ اختلاف کو بھی بدترین دبائو کا سامنا ہے۔ اُسے سیاسی اجتماعات کے حوالے سے پابندیوں کا سامنا ہے ۔گزرے برس چھبیس نومبر کو حتمی بلاوے کا اسلام آباد میں جو حشر کیا گیا اُس کا پیغام یہی ہے کہ سب سے بگاڑ کر کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔شاید اسی لیے بات چیت کاکڑوا گھونٹ پیاگیا تاکہ معتوب جماعت ہونے کا تاثر زائل ہو حزبِ اختلاف کے کئی رہنما افہام و تفہیم کی پیشکشیں لیکر جیل میں بند عمران خان کو ملتے تو بانی پی ٹی آئی سب کی سُن کر آخر پرانکارکردیتے جس کی وجہ سے کئی رہنما جماعت کے چیئرمین کی نظروں میں غیر اہم ہوتے گئے۔ اب پسِ پردہ ہونے والی افہام و تفہیم کی کوششیں دم توڑ چکی ہیں ۔بیرسٹر گوہر اور علی امین کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی سیاسی کی بجائے قومی سلامتی کے تناظر میں ہوئیں۔ 190 ملین پاؤنڈکی مبینہ غبن کے مقدمے کا فیصلہ سنانے کی تین بار تاریخ تبدیل کرنا ظاہر کرتا ہے کہ حکومت جاری بات چیت کے عمل پرحاوی رہناچاہتی ہے جو حکومت کے لیے سیاسی حوالے سے نقصان کا موجب ہو سکتی ہے۔ عمران خان اور اُن کی بہنیں ایسا تاثر بنانے میں مصروف ر ہیں کہ مقدمہ جھوٹا اور بے بنیادہے، اُن کی طرف سے سزا سنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اِس کیس کو مکمل طورپر بے بنیادنہیں کہا جا سکتا ۔جب پرنسپل سیکریٹری اعظم خان ،سابق وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک ،وفاقی وزیرزبیدہ جلال اورالقادرٹرسٹ کے مالی معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داراہم شخصیات کے اعترافی بیان موجودہیں۔ واقفان حلقوں کاکہنا ہے کہ حکومت اِس مقدمے کے ذریعے عمران خان کو سیاسی منظر سے ہٹاناجبکہ اسی مقدمے کے دبئی میں مقیم مرکزی کردارکو بچانے کی خواہشمند ہے ۔ایک کیس کے فیصلے میں دوملزمان سے الگ الگ سلوک آئینی،قانونی اور اخلاقی ہر حوالے سے سمجھ سے بالاتر ہے۔ اب جبکہ عمران خان کوچودہ برس قیداور دس لاکھ جرمانے ،بشریٰ بی بی کو سات برس قید اور پانچ لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی گئی ہے اِن حالات میں بات چیت کاعمل سیاسی استحکام کی بنیاد نہیں بن سکتا ۔اِس سزاکوعوام میں انتقامی کارروائی ثابت کرنابہت آسان ہوگا جب سوشل میڈیاپر حکومت کے خلاف اور اپوزیشن کے لیے فضا بہت سازگارہے۔
چند ایک شعبوں میں کامیابیوں کے باوجودملکی حالات میں بہتری کا تاثر ناپید ہے۔ ایک طرف تو یہ صورتحال ہے کہ اخراجات میں کمی کے لیے کئی وزارتیں اور شعبے ضم کردیے گئے ہیں جس سے دو لاکھ کے قریب آسامیاں ختم کی گئیں۔مزید یہ کہ بچت کے نام پرہزاروں افراد کو ملازمتوں سے نکالا جارہا ہے، جس کی وجہ سے قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہوناہے مگرٹیکس اکٹھے کرنے کا ذمہ دارجو اِدارہ ہدف حاصل کرنے میں مسلسل کئی برس سے ناکام ہے اوراِس ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کی بجائے ایف بی آر نے ایک ہزار نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے چھ ارب روپے مختص کردیے ہیں ۔پنجاب ،سندھ ،بلوچستان اور کے پی کے میں بھی بچت کے نام پر ایسی شاہ خرچیاں عروج پر ہیں لہٰذا قوی خیال ہے کہ مذاکرات کے دوران عمران خان کو اہلیہ سمیت سزا سنانے اور بچت کی آڑ میں شاہ خرچیاں چند شعبوں کی معمولی کامیابیاں رائیگاں کرسکتی ہیں۔ اب حکومت اور حزبِ اختلاف میں جاری بات چیت کا عمل جاری رہے یاختم، اِس لاحاصل عمل سے سیاسی منظرنامہ بدلنے کا کوئی امکان نہیں البتہ سیاسی عدمِ استحکام بڑھ سکتاہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
نیا وزیر اعظم کون؟ وجود اتوار 19 جنوری 2025
نیا وزیر اعظم کون؟

ماں چلی گئی! وجود اتوار 19 جنوری 2025
ماں چلی گئی!

لاحاصل بات چیت وجود اتوار 19 جنوری 2025
لاحاصل بات چیت

دہلی اسمبلی انتخاب:انڈیا'اتحاد کی پہلی آزمائش وجود هفته 18 جنوری 2025
دہلی اسمبلی انتخاب:انڈیا'اتحاد کی پہلی آزمائش

جاگو،جاگو سحرہوئی! وجود هفته 18 جنوری 2025
جاگو،جاگو سحرہوئی!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر